ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ اور پاکستان کی داخلی و خارجی سلامتی

ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ اور پاکستان کی داخلی و خارجی سلامتی
تحریر : عقیل انجم اعوان
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی حالیہ سیکیورٹی بریفنگ نے پاکستان کے موجودہ سلامتی کے ماحول کی جامع تصویر پیش کی۔ ان کی گفتگو سے واضح ہوا کہ ملک کو ایک ہی وقت میں داخلی اور خارجی سطح پر کئی خطرات کا سامنا ہے۔ ان میں دہشت گردی کی نئی لہر، منشیات، سرحد پار دراندازی، افغانستان کے ساتھ غیر مستحکم تعلقات اور بھارت کی اشتعال انگیز سرگرمیاں شامل ہیں۔ بریفنگ کے مطابق مغربی سرحد پر خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ افغان طالبان نے دوحہ معاہدے کے تحت کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے جن میں پاکستان کے خلاف سرزمین استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی شامل تھی۔ اس کے باوجود پاکستان میں ہونے والے کئی دہشت گرد حملے افغان علاقوں سے منصوبہ بندی کے بعد کیے گئے۔ حالیہ مہینوں میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 112غیر ملکی جنگجو مارے گئے جن میں 60فیصد افغان شہری تھے۔ ترجمان کے مطابق پاکستان امن اور مذاکرات کو ترجیح دیتا ہے مگر سرحد پار حملوں کو برداشت نہیں کرے گا۔ افغانستان کی موجودہ حکومت نے سیکیورٹی خدشات پر تعاون نہیں کیا جس کے باعث دوطرفہ تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ بریفنگ میں ایک اہم نکتہ منشیات سے جڑی معیشت اور دہشت گردی کے تعلق سے متعلق تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میںقریباً 12ہزار ایکڑ زمین پر پوست کی کاشت جاری ہے۔ فی ایکڑ منافع اٹھارہ سے بتیس لاکھ روپے کے درمیان ہے جو براہ راست دہشت گرد نیٹ ورکس تک پہنچتا ہے۔ یہ نیٹ ورکس تحریک طالبان پاکستان اور افغان گروہوں دونوں سے منسلک ہیں۔ان کے مطابق منشیات کا کاروبار ایک منظم مالیاتی نظام کی صورت اختیار کر چکا ہے جو دہشت گردی کو مسلسل ایندھن فراہم کر رہا ہے۔ کچھ مقامی سیاسی شخصیات کے اس کاروبار میں ملوث ہونے کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ پہلو ریاست کے لیے سنگین چیلنج ہے کیونکہ سیاست، منشیات اور دہشت گردی کے باہمی تعلق سے ریاستی کنٹرول کمزور پڑ سکتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے افغان طالبان کے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا کہ پاکستان افغانستان میں امریکی ڈرون کارروائیوں میں مدد کر رہا ہے۔ ترجمان کے مطابق پاکستان کسی غیر ملکی طاقت کو اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بریفنگ میں مشرقی سرحد پر بھارتی خطرات کو بھی نمایاں کیا گیا۔ ترجمان نے بتایا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے ایک ممکنہ ’’ فالس فلیگ میری ٹائم آپریشن‘‘ کی اطلاعات ہیں۔ ان کے مطابق مودی سرکار اندرونی سیاسی دباؤ اور انتخابی سیاست سے توجہ ہٹانے کے لیے بیرونی سطح پر کشیدگی بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بھارت کا طرزِ عمل اس وقت خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے اور پاکستان کو سفارتی طور پر دباؤ میں رکھنے پر مرکوز ہے۔ پاکستانی اداروں نے حالیہ ہفتوں میں بھارت کے نیٹ ورکس کے خلاف کئی کارروائیاں کی ہیں۔ ایک ماہی گیر کو گرفتار کیا گیا جو بھارتی خفیہ ادارے کے لیے کام کر رہا تھا اور اسے حساس معلومات اکٹھی کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ بلوچستان میں یکم نومبر کو ایک انٹیلی جنس آپریشن میں بھارت کے حمایت یافتہ چار دہشت گرد ہلاک کیے گئے۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت کی پراکسی سرگرمیاں پاکستان کے داخلی استحکام کے لیے براہِ راست خطرہ ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کے لیے اس وقت مغربی اور مشرقی دونوں سرحدوں پر خطرات موجود ہیں۔ مغرب میں دہشت گرد گروہ اور منشیات کی معیشت، جبکہ مشرق میں بھارتی پالیسی اور عسکری جارحیت یہ دونوں بیک وقت سیکیورٹی چیلنج بن چکے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ سیکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ادارے اپنی سطح پر بھرپور اقدامات کر رہے ہیں لیکن ان مسائل کا مستقل حل صرف عسکری کارروائیوں سے ممکن نہیں۔ ایک جامع قومی انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملی، سیاسی اتفاقِ رائے اور اداروں کے درمیان باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ دیکھا جائے تو بریفنگ نے پاکستان کی داخلی پالیسی کے چند بنیادی کمزور پہلو بھی نمایاں کیے۔ سب سے بڑا مسئلہ سیاسی تقسیم اور پالیسی تسلسل کی کمی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد جزوی رہا جس سے دہشت گرد عناصر کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بھی واضح پالیسی کی کمی ہے۔ پاکستان نے طالبان حکومت کی حمایت کی لیکن طالبان نے پاکستان کے سلامتی خدشات کو ترجیح نہیں دی۔ نتیجتاً سرحدی تنازعات اور عدم اعتماد میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح دہشت گردی کے مالیاتی ذرائع پر قابو پانے کے لیے مالیاتی نظام کی نگرانی، اسمگلنگ کے انسداد اور بارڈر کنٹرول کو مضبوط بنانا ناگزیر ہے۔ منشیات کی معیشت کا خاتمہ انسدادِ دہشت گردی پالیسی کا اہم جزو ہونا چاہیے۔ بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی بھی محتاط سفارت کاری کا تقاضا کرتی ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے ممکنہ ’’ فالس فلیگ آپریشن‘‘ خطے کے امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر اس بیانیے کو مضبوط بنانا ہوگا کہ وہ خطے میں امن کا خواہاں ہے تاہم اپنی خودمختاری کے تحفظ پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ سب سے اہم مسئلہ داخلی سیاسی عدم استحکام ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان مسلسل محاذ آرائی نے قومی سلامتی کے مسائل کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ موجودہ حالات میں قومی قیادت کو ایک مشترکہ سیکیورٹی ایجنڈے پر اتفاق کرنا ہوگا۔ دہشت گردی، منشیات اور بیرونی مداخلت جیسے مسائل کسی ایک جماعت کے نہیں بلکہ پورے ملک کے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ محض ایک عسکری رپورٹ نہیں بلکہ ایک ریاستی انتباہ ہے۔ اس نے واضح پیغام دیا ہے کہ اگر سیاسی قیادت، ادارے اور عوام نے مل کر مشترکہ پالیسی نہیں اپنائی تو یہ خطرات آئندہ برسوں میں مزید بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج اب پالیسی کا تسلسل، اداروں میں ہم آہنگی اور سیاسی اتفاقِ رائے ہے۔ اگر یہ عناصر برقرار رہے تو موجودہ خطرات قابو میں لائے جا سکتے ہیں، بصورتِ دیگر یہ بحران مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔





