ممدانی کی فتح مسلم امریکیوں کی نمائندگی

ممدانی کی فتح مسلم امریکیوں کی نمائندگی
تحریر : قادر خان یوسف زئی
زہران ممدانی کا نیویارک سٹی کے میئر کا انتخاب جیت لینا محض ایک انتخابی فتح نہیں، بلکہ امریکی جمہوریت کے کینوس پر ایک نیا رنگ بھرا گیا تھا۔ 34سالہ ممدانی، جو یوگنڈا میں پیدا ہوئے اور بھارتی نژاد والدین کی اولاد ہیں، اب امریکہ کے سب سے بڑے شہر کے پہلے مسلمان اور جنوبی ایشیائی میئر ہیں۔ یہ جیت، جو 4نومبر 2025ء کو 49.6فیصد ووٹوں کے ساتھ حاصل ہوئی، سابق گورنر اینڈریو کومو (41.6فیصد) اور ریپبلکن کرٹس سلِوا (7.9فیصد) کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آئی۔ ممدانی کی یہ کامیابی، جو 2ملین سے زائد ووٹروں کی ریکارڈ شرکت کی عکاسی کرتی ہے، مسلم امریکیوں کی سیاسی نمائندگی کو ایک نئی جہت دیتی ہے۔ یہ نہ صرف ایک شخص کی فتح ہے بلکہ ایک برادری کی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے جو 9؍11کے بعد سے جاری ہے۔
ممدانی کی جیت کی بنیاد ایک ایسی مہم تھی جو عوامی مسائل کو مرکز میں رکھتی تھی۔ انہوں نے رہائش کی مہنگائی، مفت بس سروس، بچوں کی دیکھ بھال اور کم اجرت میں اضافے جیسے وعدے کیے، جو نیویارک کے محنت کش مسلم گھرانوں کی روزمرہ زندگیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ وعدے محض نعرے نہ تھے بلکہ عملی منصوبے تھے جو ٹیکسی ڈرائیورز، دکانداروں اور چھوٹے کاروباریوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے تھے۔ ممدانی کی مہم نے 55مسجدوں کا دورہ کیا اور 200سے زائد مسلم برادریوں تک رسائی حاصل کی، جو نیویارک کی میئر مہم کی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ یہ رسائی سیاسی تعداد جمع کرنے سے آگے بڑھ کر مسلم برادری کی سماجی اور اقتصادی ضروریات کی پہچان تھی۔ مسلم امریکیوں کے لیے یہ نمائندگی کی ایک گہری کہانی ہے۔ نائن الیون کے بعد، مسلمانوں کو میڈیا اور سیاست میں’’ خطرناک تارکین وطن‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ ممدانی کی مہم اس بیانیے کو چیلنج کرتی ہے۔ ان پر مبینہ طور پر ’’ کمیونسٹ‘‘ اور ’’ دہشت گرد‘‘ جیسے الزامات لگائے گئے، جو اسلاموفوبیا کی جڑیں ظاہر کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے انہیں ’’ کمیونسٹ امیدوار‘‘ کہا اور وفاقی فنڈنگ روکنے کی دھمکی دی، جو ایک واضح سیاسی حملہ تھا۔ مگر ممدانی نے جواب دیا کہ وفاقی فنڈز شہریوں کا حق ہیں، صدارتی صوابدید نہیں۔ یہ ردعمل مسلم برادری کو ایک نئی طاقت دیتا ہے، جو اب صرف دفاع میں نہیں بلکہ حملہ آور ہو سکتی ہے۔
یہ جیت ’’ اچھے مسلمان‘‘ بمقابلہ ’’ برے مسلمان‘‘ کی اس تقسیم کو توڑتی ہے جو امریکی سیاست میں طویل عرصے سے رائج ہے۔ ممدانی نے مسجدوں میں خطاب کیا، اور اپنی مسلم شناخت کو چھپایا نہیں۔ پھر بھی انہوں نے ایک وسیع اتحاد بنایا۔ جنوبی ایشیائی، لاطینی، افریقی امریکی اور یہودی برادریوں سمیت، یہ اتحاد بتاتا ہے کہ مسلم نمائندگی اب الگ تھلگ نہیں رہ سکتی۔ یہ تمام اقلیتوں کی جدوجہد کا حصہ ہے۔ ممدانی کی فتح سے مسلم نوجوانوں میں سیاسی شرکت بڑھ رہی ہے، جو جنوبی ایشیائی اور عرب النسل کے درمیان ایک نئی لہر پیدا کر رہی ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھیں تو مسلم امریکیوں کی سیاسی جدوجہد نئی نہیں۔ 2000کی دہائی سے، مسلم رہنما محدود سطح پر سامنے آئے، مگر انہیں مذہبی شناخت کم کرنے کی شرط پر قبول کیا جاتا رہا۔ ممدانی اس ماڈل کو رد کرتے ہیں۔ ان کی جیت روایتی نمائندگی کو چیلنج کرتی ہے، جو اکثر غیر مسلم سیاستدانوں کے ہاتھوں ہوتی تھی۔ اب مسلم برادری خود اپنی آواز اٹھا سکتی ہے، جو مستقبل کی قیادت کی بنیاد بنے گی۔ یہ تبدیلی صرف نیویارک تک محدود نہیں۔ یہ قومی سطح پر ڈیموکریٹک پارٹی کو متاثر کرے گی، جہاں ترقی پسند آوازیں مضبوط ہو رہی ہیں۔
مگر یہ جیت آسان نہ تھی۔ مہم کے دوران اسلامو فوبیا کی لہر اٹھی۔ ریڈیو ہوسٹ نے انہیں نائن یالیون سے جوڑا، کانگریس وومن نے سٹیچو آف لبرٹی کو برقعے میں دکھایا، اور ٹرمپ نے فنڈنگ کی دھمکی دی۔ یہ حملے دکھاتے ہیں کہ مسلم نمائندگی ابھی بھی متنازع ہے۔ مگر ممدانی کی کامیابی، جو 50000رضا کاروں کی مدد سے 1.5ملین دروازے کھٹکھٹانے پر مبنی تھی، ثابت کرتی ہے کہ عوامی حمایت ان حملوں سے بڑھ سکتی ہے۔ مسلم ووٹرز، جو 2لاکھ رجسٹرڈ ہیں، نے اسے ایک ’’ تاریخی موڑ‘‘ قرار دیا، جو اسلامو فوبیا اور فلسطینی مخالف سیاست کا جواب ہے۔
سیاسی مطلب یہ ہے کہ ممدانی کی جیت امریکی جمہوریت کی لچک کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ متنوع شہروں میں، جہاں مہاجرین اور اقلیتیں اکثریت بن رہی ہیں، نئی قیادت ممکن ہے۔ ٹرمپ کی مخالف قوتیں اسے ایک ’’ سیاسی تصادم‘‘ کا آغاز سمجھتی ہیں، جہاں نیویارک وفاقی پالیسیوں کے خلاف کھڑا ہو سکتا ہے۔ مگر یہ تصادم تخریبی نہیں بلکہ تعمیراتی ہوگا، جو معاشی انصاف اور سماجی اتحاد پر مبنی ہوگا۔ مسلم برادری اب صرف ووٹ بینک نہیں، یہ ایک فعال سیاسی قوت ہے جو اپنے ایجنڈے پر چل سکتی ہے۔
ممدانی کی جیت ایک عام آدمی کی جدوجہد ہے۔ یہ تاریخی تسلسل کی یاد دلاتی ہے جہاں مہاجرین کی آوازیں بالآخر سنائی دیتی ہیں۔ یہ جیت تمام اقلیتوں کے لیے امید ہے جنوبی ایشیائی، اور دیگر جو اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے قیادت حاصل کر سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ممدانی کی فتح مسلم امریکیوں کی نمائندگی کو ایک نئی بلندی دیتی ہے۔ یہ اسلامو فوبیا کے خلاف جیت ہے، جو مسلمانوں کو حقیقی سیاسی شرکت کی طرف لے جاتی ہے۔ امریکی سیاست کا نیا دور شروع ہو رہا ہے، جہاں مختلف پس منظر کی آوازیں ضروری نہیں بلکہ مرکزی ہیں۔ ایک معمولی اعتراض یہ ہوتا ہے کہ مسلم امریکیوں کی نمائندگی بعض اوقات اسلامو فوبیا کے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کی جاتی ہے یا مسلمانوں کو صرف نشان زد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ ذوہران ممدانی کی جیت صرف علامتی نہیں، بلکہ عملی سیاسی اثر رکھتی ہے۔ انہوں نے محنت کش طبقے کے زمینی مسائل جیسے رہائش، مفت بس سروس، بچوں کی دیکھ بھال اور کم از کم اجرت میں اضافہ کو اپنا ایجنڈا بنایا ہے جو مسلم اور غیر مسلم مختلف طبقوں کے لیے معنی رکھتا ہے۔ یہ نمائندگی اسلامو فوبیا کے خلاف موثر ردعمل ہے جو مسلم برادری کو سیاسی طاقت کے طور پر ابھارتا ہے، نہ کہ صرف نشانہ بنانے والا نشان۔
ممدانی کی مہم میں یہ امر واضح ہے کہ ان کی کامیابی ایک خود مختار، جمہوری عمل کے ذریعے ہوئی جس میں ہزاروں مسلم اور غیر مسلم ووٹروں نے حصہ لیا۔ نیویارک میں مسلم برادری کی بڑھتی ہوئی سیاسی شراکت داری خود بخود اس امر کی دلیل ہے کہ یہ نمائندگی مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی مطالبات اور حقیقی سیاسی عمل کا نتیجہ ہے۔





