Column

خود بدلتے نہیں۔۔۔

خود بدلتے نہیں۔۔۔
تحریر : صفدر علی حیدری
ترمیم، قانون اور تبدیلی۔۔۔۔۔
یہ تینوں الفاظ بظاہر ایک ہی معنوی دائرے میں سمائے ہوئے ہیں، مگر ان کے اثرات مختلف ہوتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے اجتماعی شعور کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب وہ ان تینوں کے درمیان فرق کو سمجھنے لگے۔
قانون کا مقصد نظم و انصاف ہے، ترمیم کا مقصد بہتری اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگی، جبکہ تبدیلی کا مقصد کسی نظام کو بہتر رخ دینا ہے۔ مگر جب ترمیم کے پردے میں تبدیلی کا مفہوم بدل دیا جائے، تو تاریخ ہمیشہ یہ سوال اٹھاتی ہے: اصل مقصد بہتری تھا یا اقتدار کی برتری؟۔
پاکستان کا آئین صرف ایک قانونی دستاویز نہیں بلکہ ایک فکری عہد ہے جو قوم اور ریاست کے درمیان اعتماد کی لکیر کھینچتا ہے۔ اس عہد کی بنیادوں میں صرف قانون نہیں بلکہ قربانیاں، جدوجہد، اور عوامی امنگیں شامل ہیں۔
اس آئین کی خالق اسمبلی نے خود سات ترامیم کر کے دروازہ کھولا تھا، اور آج تک وہی راستہ جاری ہے، جس نے 27ویں ترمیم تک پہنچا دیا ہے۔
آئین: دستاویز یا توازن کا پیمانہ؟
پاکستان کے آئین نے نصف صدی سے زائد کا سفر طے کیا ہے۔ اس دوران آئین میں کئی بڑی اور چھوٹی ترامیم ہوئیں، جن میں سے بعض نے جمہوریت کو تقویت دی اور کچھ نے طاقت کو محدود طبقے میں مرتکز کر دیا۔ آئین کی خالق اسمبلی نے خود سات ترامیم کر کے یہ واضح کر دیا تھا کہ آئین جامد نہیں بلکہ ارتقا پذیر ہے۔۔
فرق صرف نیت کا ہوتا ہے۔ جہاں نیت بہتری کی ہو، وہاں ترمیم ارتقا کہلاتی ہے، اور جہاں نیت اقتدار کے تحفظ کی ہو، وہاں ترمیم ارتکاب بن جاتی ہے۔
27 ویں ترمیم ۔۔۔ آئینی یا انتظامی موڑ؟
موجودہ مجوزہ ترمیم بظاہر آئین کو ’’ مزید موثر‘‘ بنانے کی نیت رکھتی ہے، مگر چند نکات اس تاثر سے متصادم ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court)کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، جو آئینی تنازعات کے فوری اور واضح فیصلے کرے گی۔
یہ سوال ابھرتا ہے: کیا یہ عدالت سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی نہیں لائے گی؟
وفاق اور صوبے، توازن یا تضاد؟
ترمیم کے ایک اہم پہلو کا تعلق نیشنل فنانس کمیشن (NFC)ایوارڈ سے جوڑا جا رہا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نئے فارمولے کے تحت وفاقی حصہ بڑھایا جائے گا اور صوبوں کے مالی اختیارات میں کمی ہو سکتی ہے۔
یہ اقدام وفاقی ڈھانچے کے بنیادی اصول کے خلاف محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے جہاں آئین کا روحانی محور صوبوں کے درمیان توازن اور باہمی احترام ہے۔ اگر ترمیم سے یہ توازن متاثر ہوتا ہے تو یہ آئینی تبدیلی نہیں بلکہ سیاسی مرکزیت کی راہ ہموار کرے گی۔
جماعت اور سیاسی اثرات
27 ویں ترمیم نہ صرف قانونی متن کی تبدیلی ہے بلکہ سیاسی جماعتوں اور وفاق و صوبوں کے تعلقات میں بھی ایک نیا رخ متعین کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ مختلف جماعتیں اپنی سیاسی بنیادیں مستحکم کرنے کے لیے اس ترمیم کے پیچھے اثر انداز ہو رہی ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی آئین میں ترمیم اقتدار کے لیے استعمال کی گئی، عوامی آواز اکثر دب گئی اور تناسب میں غیر منصفانہ اثرات مرتب ہوئے۔ موجودہ ترمیم کے حوالے سے بھی یہی خدشات ہیں: سیاسی جماعتیں وفاقی اختیارات کو مضبوط کر کے صوبوں کے اختیار کو محدود کرنے کی راہ ہموار کر سکتی ہیں، جبکہ عوامی مشاورت کا فقدان عوام میں بے اعتمادی پیدا کرتا ہے۔ اس طرح ترمیم ایک قانونی دستاویز ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی کھیل کا حصہ بھی بن جاتی ہے، جس کا اثر آئین کی روح اور وفاقی توازن پر پڑتا ہے۔
ترمیم یا تجدیدِ وفاداری؟
تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی آئین میں ترمیم اقتدار کے نام پر ہوئی، عوام کی آواز دب گئی۔ چاہے وہ آٹھویں ترمیم کا دور ہو یا سترہویں ترمیم کا زمانہ، ہر بار ایک نیا وعدہ، نئی تاویل، اور نیا جواز سامنے آیا۔ مگر نتیجہ ہمیشہ ایک سا رہا: طاقت کے ارتکاز میں اضافہ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا 27ویں ترمیم بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ترمیم صرف آئینی اصلاح نہیں بلکہ سیاسی وفاداریوں کی نئی ساخت پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
آئینی روح اور عوامی فاصلے
آئین کا مقصد عوام اور ریاست کے درمیان رشتہ مضبوط بنانا ہے۔ جب کوئی حکومت آئینی تبدیلی کا اعلان کرتی ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس میں عوامی مشاورت، فکری شفافیت، اور اجتماعی مفاد شامل ہوگا۔
موجودہ ترمیم کے معاملے میں عوامی شمولیت تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ نہ کوئی پارلیمانی مباحثہ ہوا، نہ عوامی سطح پر کوئی مسودہ پیش کیا گیا۔ گویا یہ ترمیم عوام کے لیے نہیں بلکہ عوام پر کی جا رہی ہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں قانون اپنی معنویت کھو دیتا ہے۔ کیونکہ قانون تب تک زندہ رہتا ہے جب تک عوام اسی اپنا سمجھیں۔ اور جب عوامی اعتماد ٹوٹ جائے تو آئین بھی محض ایک عبارت رہ جاتا ہے۔
ترمیم کے پس منظر میں خوف یا فہم؟
ترمیم کے محرکات سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کے تمام جمہوری نظام وقت کے ساتھ خود کو بدلتے ہیں، مگر ان میں تبدیلی کا منبع اجتماعی فہم ہوتا ہی، نہ کہ ادارہ جاتی خوف۔
پاکستان میں آئینی ترامیم اکثر ردِعمل کے طور پر سامنے آتی ہیں، کسی بحران، تنازع یا مصلحت کے نتیجے میں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ترمیم بھی کسی فوری دبائو کا نتیجہ ہے، نہ کہ ایک طویل المدت آئینی وژن کا۔
آئین کا اصل فلسفہ
آئین ایک زندہ معاہدہ ہے، جامد نہیں۔ مگر یہ معاہدہ تب ہی بامعنی ہوتا ہے جب اس میں عوامی اختیار، عدالتی آزادی، اور وفاقی توازن برقرار رہے۔ اگر یہ توازن بگڑ جائے تو آئین کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
تبدیلی اور ترمیم میں فرق یہی ہے: تبدیلی اصلاح پیدا کرتی ہے، ترمیم اکثر ضرورت کے نام پر ترجیح بدل دیتی ہے۔موجودہ ترمیم کے مثبت پہلو
عدالتی نظام میں وضاحت: وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے آئینی تنازعات کے فوری اور واضح فیصلے ممکن ہیں۔اختیارات کی تقسیم: بعض اختیارات کی وضاحت سے وفاق اور صوبوں کے درمیان آئینی ذمہ داریوں میں توازن پیدا ہو سکتا ہے۔
آئینی تحفظ: نئے قوانین یا فیصلوں کے آئینی جواز کو مضبوط بنانے کی کوشش شامل ہے۔
انتظامی موثریت: اداروں کی فعالیت میں بہتری اور اختیارات کی تنظیم حکومت کے انتظامی نظام میں لچک اور موثریت لا سکتی ہے۔
موجودہ ترمیم کے منفی پہلو
اقتدار کی مرکزیت: وفاق کو زیادہ اختیارات دینا صوبوں کے مالی اور انتظامی اختیار کو محدود کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے اختیارات پر اثر: وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ کے اختیار میں کمی یا پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
عوامی شمولیت کا فقدان: ترمیم کی تیاری اور منظوری میں عوامی مشاورت تقریباً نہ ہونے کے برابر رہی۔
ترمیم کا سیاسی مقصد: خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ترمیم کا مقصد زیادہ تر سیاسی وفاداری یا اقتدار کی مضبوطی ہو سکتا ہے۔
فکری اور آئینی شفافیت کی کمی: ترمیم کے محرکات اور اثرات پر وسیع بحث نہ ہونے کے سبب یہ آئینی شفافیت کے اصول کے خلاف نظر آ سکتی ہے۔
اختتامیہ
آج جب ہم 27ویں ترمیم کی بات کرتے ہیں، تو یہ صرف ایک قانونی تبدیلی نہیں بلکہ ایک فکری امتحان بھی ہے۔ یہ امتحان اس بات کا ہے کہ کیا ہم آئین کی روح کو سمجھ کر اسے آگے بڑھائیں گے یا محض اقتدار کے مفاد میں دفعات بدلتے رہیں گے۔
قوموں کی بقا الفاظ سے نہیں، نیت سے طے ہوتی ہے۔ آئین بدلنے سے پہلے نیت درست ہونی چاہیے، ورنہ تاریخ یہی کہے گی: ’’ خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں‘‘۔
صفدر علی حیدری

جواب دیں

Back to top button