اقتصادی ترقی کیلئے حکومت کی صائب کاوشیں

اقتصادی ترقی کیلئے حکومت
کی صائب کاوشیں
پاکستان کی معیشت آج ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے، جہاں داخلی چیلنجز اور عالمی سیاسی واقعات نے اس کی ترقی کے لیے رکاوٹیں ڈال رکھی ہیں۔ ایسے میں وفاقی وزیر خزانہ، محمد اورنگزیب نے حالیہ بیانات میں حکومتی اقدامات، مالی نظم و ضبط اور اصلاحات کے ایجنڈے کی وضاحت کی ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کو اپنے مالی خسارے اور قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کے لیے سخت مالیاتی پالیسیوں اور اسٹرکچرل اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ان کے بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملکی معیشت کی سمت کو دوبارہ متعین کرنے کے لیے حکومت پختہ ارادے کے ساتھ اصلاحات کی طرف گامزن ہے۔ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ سرکاری اخراجات میں کمی ایک ناگزیر فیصلہ ہے تاکہ ملکی معیشت کی مشکلات کو کم کیا جا سکے اور پاکستان کی مسلح افواج کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ دونوں سرحدوں پر حفاظتی خطرات اور داخلی حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے، حکومت نے اخراجات میں کمی کرنے اور مالی نظم و ضبط لانے کی کوشش کی ہے۔ وزیر خزانہ کا یہ موقف کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرے گی اور بینکوں سے قرض لینے کی مقدار میں کمی لائے گی، معاشی پالیسیوں کی سنگینی اور ان کے پائیدار اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کی جانب سے قرضوں کا بوجھ کم کرنے کی کوششوں کا مقصد مالیاتی استحکام حاصل کرنا اور مزید قرضوں کی ادائیگی کے لیے مالی وسائل کی فراہمی ہے۔ تاہم، یہ اقدام خاص طور پر نجی شعبے کو قرضوں کی فراہمی میں کمی کے حوالے سے ایک چیلنج کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ نجی شعبے کو کم قرضے دیے جا رہے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اقتصادی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں۔ محمد اورنگزیب نے عالمی معاشی بحران کے دوران پاکستان کی معیشت میں استحکام کے حصول کے لیے مختلف اقدامات پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اسٹاف لیول معاہدہ اور کلیدی ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری کے نتیجے میں ملکی معیشت اور پالیسیوں پر بیرونی اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کی باتوں میں یہ پیغام صاف ظاہر ہے کہ حکومت نے اپنے اقتصادی استحکام کے لیے ٹھوس بنیادیں فراہم کی ہیں اور اب اس پر پائیدار ترقی کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کارپوریٹ شعبے کے منافع میں 14فیصد اضافہ بھی وزیر خزانہ کے اس دعوے کی تائید کرتا ہے کہ ملک کی معیشت میں استحکام آیا ہے۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ اس استحکام کو حقیقتاً اقتصادی ترقی میں تبدیل کیا جائے، جس کے لیے حکومت کو مزید اصلاحات کی ضرورت ہو گی۔ وزیر خزانہ نے اصلاحات کے ایجنڈے پر زور دیا اور کہا کہ حکومت نے ٹیکس وصولی کے نظام میں شفافیت لانے کے لیے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی استعمال کی ہے، جس کے نتیجے میں 9لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کا اضافہ ہوا۔ یہ ایک مثبت قدم ہے کیونکہ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام ہمیشہ کمزور رہا ہے اور اس کی بہتری سے حکومت کو مالی وسائل میں اضافہ ہو گا۔ محمد اورنگزیب نے مختلف معاشی شعبوں میں اصلاحات کی تفصیلات بھی پیش کیں جن میں توانائی کے شعبے کی اصلاحات، سرکاری اداروں کی تنظیم نو، نجکاری اور پنشن اصلاحات شامل ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد حکومت کی مالی حیثیت کو مستحکم کرنا اور اداروں کی کارکردگی میں بہتری لانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کے بڑے اور نقصان میں چلنے والے اداروں جیسے یوٹیلیٹی اسٹورز اور پاسکو کو بند کرنے کے فیصلے نے اس بات کو واضح کیا کہ حکومت ادارہ جاتی اصلاحات کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ وزیر خزانہ کا یہ کہنا کہ حکومت معدنیات، آئی ٹی، زراعت، دواسازی اور بلیو اکانومی جیسے ترجیحی شعبوں میں نجی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرے گی، اقتصادی ترقی کے لیے حکومت کی پختہ حکمت عملی کا عکاس ہے۔ گوگل کے پاکستان میں دفتر کھولنے کا فیصلہ اور وزیر خزانہ کی جانب سے ٹیکنالوجی اور علم پر مبنی معیشت کی طرف توجہ دینے کا بیان بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت عالمی سطح پر پاکستان کو ایک ٹیکنیکل اور ایکسپورٹ ہب کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ نوجوانوں کو ڈیجیٹل اور ٹیکنیکل مہارتوں سے آراستہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ مصنوعی ذہانت، بلاک چین اور کوڈنگ کے شعبوں میں زیادہ قدر والے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت مستقبل کے لیے تیار ہو رہی ہے اور نوجوانوں کو ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کا موقع دے رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی استحکام بذاتِ خود کوئی منزل نہیں بلکہ یہ پائیدار سرمایہ کاری اور طویل المدتی ترقی کے لیے بنیاد ہے۔ ان کا یہ موقف اس بات کو واضح کرتا ہے کہ حکومت اقتصادی ترقی کے لیے ایک اسٹرکچرل تبدیلی کی طرف گامزن ہے اور اس مقصد کے لیے وہ عالمی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے ترغیب دینے کے لیی تیار ہے۔ محمد اورنگزیب کا اقتصادی اصلاحات پر زور دینا اور پاکستان کی معیشت کی سمت کو درست کرنے کی کوششیں اہم ہیں، مگر ان کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ حکومت ان اصلاحات کو کیسے نافذ کرتی ہے۔ سرکاری اخراجات میں کمی، نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینے، اور معاشی استحکام کو بڑھانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں اگر تسلسل اور ایمانداری سے کام لیا گیا تو پاکستان کی معیشت ایک نیا رخ اختیار کر سکتی ہے۔ ان تمام اصلاحات کے باوجود، پاکستان کو عالمی سیاسی و اقتصادی بحرانوں، ماحولیاتی تبدیلیوں اور تیز رفتار آبادی میں اضافے جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، جن سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ حکومت کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ ان اصلاحات کے ذریعے پاکستان کو ایک نئی معاشی سمت دے سکے، لیکن اس کے لیے تسلسل، پیش رفت اور معاشی نظم و ضبط کی ضرورت ہے تاکہ یہ پائیدار ترقی کا باعث بن سکے۔
یوم شہدائے جموں۔۔۔
یوم شہدائے جموں ایک ایسا دن ہے جس کی تاریخ میں خون کے آنسو ہیں اور جسے لاکھوں کشمیریوں نے گزشتہ 77برسوں سے یاد رکھا ہے۔ نومبر 1947ء میں جب بھارتی بلوائیوں نے جموں و کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی تھی، تب سے یہ دن کشمیریوں کے لیے محض ایک تاریخ نہیں، بلکہ ان کے دکھوں اور قربانیوں کا زندہ نشان بن چکا ہے۔ اس دن کا مقصد نہ صرف ان لاکھوں شہیدوں کی یاد میں عقیدت پیش کرنا ہے، بلکہ اس دن کی حقیقت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا بھی ہے تاکہ کشمیریوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی جا سکے۔ یوم شہدائے جموں کا آغاز اس وقت ہوا جب نومبر 1947ء میں جموں کے علاقے میں لاکھوں کشمیری مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ بھارت کے بلوائیوں نے نہ صرف مردوں کو قتل کیا بلکہ عورتوں اور بچوں کو بھی نہ بخشا۔ یہ قتل عام ایک منظم اور ریاستی سطح پر کی جانے والی کارروائی تھی جس کا مقصد کشمیری مسلمانوں کو ختم کرنا تھا۔ اس دن کی یاد میں ہر سال کشمیری اپنے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، مگر اس دن کی اصل حقیقت کو دنیا کے سامنے لانا بھی ضروری ہے تاکہ عالمی برادری اس قتل عام کو نسل کشی کے طور پر تسلیم کرے اور اس پر ایک موثر ردعمل دے۔بھارت کی جانب سے کشمیر پر غیر قانونی قبضہ اور ستتر سال سے کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ بھارتی فورسز نے نہ صرف کشمیریوں کے بنیادی حقوق کو پامال کیا بلکہ وہاں کی جغرافیائی حیثیت اور ثقافت کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہی۔ بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے 5 اگست 2019 ء کو آئین میں تبدیلی کی، جس سے کشمیریوں کے حقوق میں مزید کمی واقع ہوئی اور ان کے مستقبل کو دائو پر لگا دیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مظالم کی شدت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نسل کشی کے مترادف ہے۔ لاکھوں کشمیریوں کو ان کے حقِ خود ارادیت سے محروم کر کے، بھارت نے نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کو بھی پامال کیا ہے۔ اس موقع پر عالمی برادری کی خاموشی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ عالمی تنظیمیں جیسے کہ اقوام متحدہ، جو ہمیشہ انسانوں کے حقوق کے دفاع کی بات کرتی ہیں، ان مظالم پر کیوں خاموش ہیں؟ کیا کشمیریوں کی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیا عالمی طاقتوں کی سیاسی مصلحتیں انسانوں کے بنیادی حقوق سے زیادہ اہم ہیں؟ کشمیری عوام نے 77سال سے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھی ہے، لیکن ان کی آواز عالمی سطح پر اس طرح سے نہیں سنی گئی جیسے کہ یہ ہونی چاہیے۔ وقت آچکا ہے کہ عالمی برادری بھارت کے ان جرائم پر خاموش نہ رہے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے قتل عام کو نسل کشی کے طور پر تسلیم کرے۔ یوم شہدائے جموں نہ صرف ایک دن کی یاد ہے بلکہ یہ ایک عہد ہے کہ کشمیری مسلمان اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ عالمی برادری کو بھی یہ عہد کرنا ہوگا کہ وہ کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کرے، بھارتی مظالم کو بے نقاب کرے اور ان کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ کشمیر کا مسئلہ حل طلب ہے اور اس کی آزادی کے لیے کشمیریوں کی جدوجہد اور قربانیاں بے مثال ہیں۔ یہ دن نہ صرف ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے بلکہ یہ ایک عہد کی تجدید ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک عالمی برادری بھارت پر دبائو ڈال کر کشمیریوں کو ان کے حقوق نہیں دلاتی۔





