جوہری تجربات کا خطرناک جواز

جوہری تجربات کا خطرناک جواز
تحریر : خواجہ عابد حسین
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک حیران کن بیان دیا ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ شمالی کوریا، پاکستان اور روس خفیہ طور پر زمین کے اندر گہرائی میں جوہری تجربات کرتے ہیں تاکہ امریکہ ان کا پتہ نہ لگا سکے۔ بظاہر یہ بات ٹرمپ کے مخصوص اندازِ گفتگو کا ایک اور مظاہرہ لگتی ہے، مگر اس کے عالمی اثرات نہایت سنگین ہو سکتے ہیں۔
اگر یہ بیان ایک امریکی صدر کی زبان سے آیا ہے تو یہ کئی اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا واقعی یہ ممکن ہے کہ امریکہ ، جس کے پاس دنیا کا سب سے جدید جاسوسی نظام، سیٹلائٹ نگرانی، زلزلہ پیما آلات اور انٹیلی جنس کے عالمی نیٹ ورک موجود ہیں، ان ممالک کے زیرِ زمین جوہری تجربات سے بے خبر ہو؟ یہ بات ناقابلِ یقین محسوس ہوتی ہے۔امریکہ کے پاس ایسے حساس آلات موجود ہیں جو زمین کی معمولی جنبش، تابکاری کے اخراج، یا زیرِ زمین دھماکوں سے پیدا ہونے والی لہروں تک کو ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ اگر واقعی کوئی ملک اس نوعیت کے تجربات کر رہا ہوتا تو عالمی ادارہ برائے جوہری تجربات پر پابندی (CTBTO)اور امریکی انٹیلی جنس فوراً اس کا سراغ لگا لیتے۔ تو سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کا اصل مقصد کیا تھا؟ کیا یہ ایک غیر سنجیدہ تبصرہ تھا، سیاسی چال، یا ایک سوچا سمجھا بیان؟ آج کے دور میں، جب میڈیا لمحوں میں کسی بھی خبر کو عالمی بحث بنا دیتا ہے، ایسی غیر مصدقہ باتیں خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہیں۔جنوبی ایشیا میں، ٹرمپ کا یہ بیان بالواسطہ طور پر ایک جواز کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، خاص طور پر بھارت کے لیے۔ اگر ایک امریکی صدر یہ کہے کہ دیگر ممالک خفیہ تجربات کر رہے ہیں، تو بھارت کے لیے یہ دعویٰ کرنا آسان ہو جائے گا کہ اسے بھی اپنی ایٹمی صلاحیت کو ’’ جدید‘‘ یا ’’ متوازن‘‘ رکھنے کے لیے نئے تجربات کی ضرورت ہے۔ یہ سوچ نہایت خطرناک ہے، خاص طور پر اس خطے میں جہاں تین ایٹمی طاقتیں’ بھارت، پاکستان اور چین ‘ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتیں۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جوہری تجربہ صرف ایک سائنسی عمل نہیں بلکہ ایک سیاسی پیغام بھی ہوتا ہے۔ ہر نیا تجربہ خطے میں عدمِ اعتماد کو بڑھاتا ہے، ہتھیاروں کی دوڑ کو تیز کرتا ہے اور ان عالمی معاہدوں کو کمزور کرتا ہے جنہیں دہائیوں کی کوششوں سے قائم کیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو دنیا بھر میں ہونے والی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں شاید زیادہ علم ہے جتنا وہ ظاہر کرتا ہے۔ انٹیلی جنس اداری ہمیشہ اپنی تمام معلومات عوام کے سامنے نہیں لاتے۔ اس لیے ممکن ہے کہ ٹرمپ کا بیان لاعلمی نہیں بلکہ ایک سیاسی حربہ ہو، مگر ایسی غیر ذمہ دارانہ گفتگو عالمی امن کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
آج جب دنیا پہلے ہی سفارتی کشیدگی اور جنگی خدشات سے دوچار ؟۔





