Column

عقل سے عاری ہم یا امریکی

عقل سے عاری ہم یا امریکی
تحریر : سیدہ عنبرین
دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور ملک، اس کی حکومت، اس کے خفیہ ادارے، اس کی پولیس، اس کی ضلعی انتظامیہ، اس کی حکمران جماعت کی اکثریت، اس کی سینیٹ، اس کا میڈیا ہمارے ملک کی حکومت، ہمارے خفیہ اداروں، ہماری پولیس، ہماری ضلعی انتظامیہ، ہماری برسراقتدار مرکزی حکومت و صوبائی حکومت، ہماری سینیٹ اور ہمارے میڈیا کی نسبت کس قدر کمزور ہے، اس کا کبھی تصور بھی نہ کیا جاسکتا تھا۔ اس طاقتور ملک کے تمام ادارے مل کر بھی ایک شہر کے میئر کے انتخاب میں کامیاب نہ ہو سکے، ایک شخص ان تمام اداروں کو شکست دے کر میئر نیو یارک منتخب ہو گیا۔ سب منہ دیکھتے رہ گئے۔ اس انتخاب میں ایک مسلمان امیدوار ظہران ہمدانی نیو یارک کے منتخب ہو گئے ہیں۔ ان کے خلاف ہر طاقت کا استعمال کیا گیا جن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طاقت اور ایلون مسک کا ہر طرح کا روز استعمال ہوا، لیکن ہمدانی کا کچھ نہ بگاڑ ا جاسکتا۔
ظہران ہمدانی اپنی انتخابی مہم کے دوران جب بھی، جہاں بھی عوام رابطوں کیلئے گئے، انہوں نے بلا خوف اپنے خیالات کا اظہار کیا، انہوں نے اپنے ہر جلسے میں فلسطینوں کے حق میں کھل کر بات کی اور ان پر ہونے والے ظلم و تشدد، امریکی حکومت کی شہ اور اسرائیلی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا عالمی عدالت انصاف کو مطلوب نتین یاہو اگر نیو یارک آئے تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ نتین یاہو نیو یارک آئے نہ آئے، وہ گرفتار نہ ہو، ایک مرد آزاد نے تاریخ کے اس مکروہ کردار کے بارے میں جو کچھ کہا وہ چھپن اسلامی ملکوں کا کوئی سربراہ نہ کہہ سکا، بلکہ دو برس تک صرف اسرائیلی جارحیت کی کمزور آواز میں مذمت کو ہی جہاد سمجھتا رہا۔
ظہران ہمدانی نے اپنے مقابل نیو یارک کے سابق گورنر کو شکست دی، جس کی حمایت کیلئے امریکی صدر بھی میدان میں اترے، انہوں نے ووٹر کو دھمکانے کیلئے بیان جاری کیا کہ اگر ظہران ہمدانی کو منتخب کیا گیا تو نیو یارک کے فنڈز روکے جاسکتے ہیں۔ اس الیکشن میں گزشتہ پچیس سال کا ٹرن آئوٹ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ دن بھر پولنگ سٹیشنز پر بڑی تعداد میں ووٹر موجود رہے۔ بیس لاکھ سے زائد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔
حیران کن منظر یہ تھا کہ ووٹرز کو لانے، لے جانے کیلئے کاریں، پک اپ، موٹر سائیکل، ٹیکسیاں، چنگ چیاں، رکشے نظر نہ آتے تھے، ووٹرز کی تواضع کیلئے بریانی، قیمے والے نان بانٹنے والے یا یہ عطیہ وصول کرنے والے بھی نظر نہ آئے۔ کسی پولنگ سٹیشن پر بجلی غائب ہوئی، نہ آر ڈی ایس تھک کر بیٹھا، کسی ووٹر کو اغوا کرنے، اس کے ہاتھ سے ووٹ کی پرچی چھینے، اسے دھمکیاں دینے، اسے یا اس کے بھائی، بیٹے کو راتوں رات سیڑھیاں لگا کر ریڈ کے بعد گھر سے اٹھالے جانے کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
ظہران ہمدانی اور ان کے سپورٹرز کی گاڑیوں پر پتھرائو نہیں کیا گیا، ان کے گھر کی بجلی نہیں کاٹی گئی، ان کے گھر سے منشیات، غیر ملکی کرنسی، ننگی فلمیں تو برآمد کر کے انہیں سرکار کے پسندیدہ امیدوار کے سامنے سے دستبردار کرایا جاسکتا تھا، یہ بھی نہ ہو سکا، آسان ترین کام تھا ان کے بینک اکائونٹ منجمد کر دئیے جاتے، بینک کے عملے کو جبری چھٹی پر بھیج دیا جاتا یا بینک کی برانچ ہی دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر بند کر دی جاتی، مگر یہ بھی نہ کیا سکا، غالباً پورے نیو یارک میں کوئی ایک ایسا شخص دستیاب نہ ہوا جو اپنی شخصیت، اپنے فون نمبر کو خفیہ رکھتے ہوئے ہمدانی کو فون کر کے بتاتا کہ اگر وہ گھر سے نکلے تو انہیں گولیوں سے بھون دیا جائیگا۔ نیو یارک میں اداروں کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہو گی کہ انہیں پولنگ کے دن تک یہ خبر نہ ملی کہ دہشت گردوں کا کوئی گروپ وینزویلا سے تخریب کاری کی نیت سے نیو یارک پہنچ چکا ہے، وہ کسی ایسے گروپ، ان کے سہولت کار تک بھی نہ پہنچ سکے ۔ کسی پولنگ سٹیشن کے قرب و جوار میں کوئی گیس سلنڈر بھی نہ پھٹ سکا، جس سے جزوی افراتفری پھیلتی، ماننا پڑے گا نیو یارک میں سی سی ڈی کے ہم پلہ کوئی محکمہ وجود نہیں رکھتا، اگر ایسا ہوتا تو صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کا پسندیدہ امیدوار فتح یاب ہو سکتا تھا۔
نیو یارک میں بسنے والے امریکی مختلف مذاہب، مختلف قومیتوں اور مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ کالے، گورے، سانولے، برائون، چتکبرے، لال پیلے، شرابے کبابے، نمازی پرہیز گاری، سود نہ کھانے والے، سود صفت اور فرشتہ سیرت غرضیکہ درجنوں قسموں کے لوگ ہیں، ہر ایک کی اپنی اپنی پسند، اپنی اپنی سوچ ہے، لیکن سب میرٹ پر یقین رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ لوگ پاکستان میں بسنے والے جٹوں، بٹوں، آرائیوں، راجپوتوں، سیدوں سے عقل و دانش میں کم تر ہیں۔ ان لوگوں کو اب تک شعور نہیں آیا کہ میرٹ شیرٹ سب بے کار بکواس ہوتی ہے۔ اپنی برادری سے تعلق رکھنے والے امیدوار کو ووٹ دے کر حق و سچ کا علم بلند کرنا چاہیے۔ امریکی عرصہ دراز سے دو سیاسی جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں، انہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ اگر کسی بھی مرحلے پر دونوں سیاسی جماعتوں میں امریکہ کے وسیع تر مفاد میں چارٹر آف ڈیموکریسی ہو گیا تو امریکہ اور امریکیوں کا کون وارث ہو گا۔ انہیں اس بات، اس خطرے کا بھی ادراک نہیں کہ اگر ایک سیاسی پارٹی نے چین سے اور دوسری سیاسی پارٹی نے روس سے مک مکا کر لیا تو پھر امریکہ کے پلی کیا رہ جائے گا اور وہ ایشن ٹائیگر نہیں بن سکے گا۔
امریکی آج تک کالوں کی الگ پارٹی اور گوروں کی الگ پارٹی بنانے کے بارے میں نہیں سوچ سکے، یہی وجہ ہے کہ وہ آج دنیا میں سیاسی بصیرت رکھنے والے ممالک کی فہرست میں ایک سو ننانوے نمبر پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1991ء میں یوگینڈا میں پیدا ہونے والا ظہران ہمدانی امریکہ آکر نیو یارک کو فتح کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے، اس کے والد محمود ہمدانی کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں، ان کی والدہ میرا نایئر کی ایک فلم کو آسکر ایوارڈ کیلئے نامزد کیا جا چکا ہے، وہ نامور فلمساز ہیں، ان کی اہلیہ رما دواجی ایک آرٹسٹ ہیں، جن کا تعلق ملک شام سے ہے، جبکہ ظہران ہمدانی کے والدین کا تعلق بھارت سے ہے۔ امریکیوں کی بیوقوفی ملا خطہ فرمائیے وہ ظہران پر بھارتی ایجنٹ یا اسرائیلی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا سکتے تھے، وہ یہ بھی نہ کر سکے۔ ظہران ہمدانی الیکشن جیت چکے ہیں۔ ان کا ایجنڈا شاندار ہے، جس میں سستی رہائش، مفت پبلک ٹرانسپورٹ، بچوں کی بہبود اور مڈل کلاس کیلئے سہولتیں شامل ہیں۔ انہوں نے الیکشن مہم میں جو وعدے کیے وہ انہیں یقیناً پورا کریں گے۔ امریکہ میں یہ نہیں کہا جاسکتا وہ سب میرے سیاسی بیانات تھے۔ امریکی عقل سے عاری نکلے یا ہم عقل سے عاری ہیں، فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔

جواب دیں

Back to top button