ٹرمپ کو جھٹکا، وفاقی شٹ ڈائون کی تلخی

ٹرمپ کو جھٹکا، وفاقی شٹ ڈائون کی تلخی
تحریر : قادر خان یوسف زئی
واشنگٹن میں، جب وفاقی عمارتوں کی روشنیاں ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے مدھم پڑی ہوئی ہیں، 4نومبر 2025ء کا دن امریکی سیاست کے لیے ایک ایسا موڑ ثابت ہوا جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کی بنیادوں کو ہلا سکتا ہے۔ یہ کوئی معمولی آف۔یر الیکشن نہیں تھا، یہ ایک عوامی عدالت تھی جہاں ووٹرز نے ٹرمپ کی پالیسیوں، خاص طور پر 1اکتوبر سے جاری اس لمبی ترین وفاقی شٹ ڈائون کے خلاف اپنا فیصلہ سنایا۔ نیویارک سٹی کی میئر شپ، ورجینیا اور نیو جرسی کی گورنر شپس، اور کیلی فورنیا کی پروپوزیشن 50جیسی ریفرنڈم ریسز میں ڈیموکریٹس نے کلین سویپ کیا، جو صرف جیت نہیں بلکہ ایک واضح پیغام تھا۔ معاشی عدم استحکام اور سرکاری خدمات کی معطلی سے تنگ آ چکے ووٹرز اب مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ یہ نتائج ٹرمپ کی اپروول ریٹنگ کو 40فیصد کے آس پاس رکھتے ہوئے، 2026ء کے مڈ ٹرمز کا ابتدائی بارومیٹر بن گئے، جہاں ڈیموکریٹس کانگریس کا کنٹرول واپس لینے کی کوشش کریں گے۔
تصور کیجیے، ایک ایسا شہر جہاں ہر صبح ہائوسنگ کی آسمان چھوتی قیمتیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بے ترتیبی زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ نیویارک سٹی، جو دنیا کی سب سے مہنگی جگہوں میں شمار ہوتا ہے، نے 34سالہ زہران ممدانی کو اپنا میئر چن لیا، شہر کی تاریخ میں ایک صدی بعد سب سے نوجوان اور پہلا مسلم میئر ممدانی، جو ریاست اسمبلی کے ممبر اور ڈیموکریٹک سوشلسٹ ہیں، نے جون 2025ء کی پرائمری میں سابق گورنر اینڈریو کو مو کو 12فیصد کے فرق سے ہرا دیا تھا، جہاں رینکڈ چوئس ووٹنگ نے ان کی پوپلسٹ مہم کو تقویت دی۔ جنرل الیکشن میں، ووٹنگ ٹرن آئوٹ 1969ء کے بعد سب سے زیادہ ہوا، خاص طور پر نوجوان رجسٹریشن کی بدولت، اور ممدانی نے کو مو اور ریپبلکن کرٹس سلیوا کو فیصلہ کن طور پر شکست دی۔ یہ جیت شہر کی متنوع آبادی ، جنوبی ایشیا اور مسلم کمیونٹیز کی حمایت کی عکاسی کرتی ہے، جہاں ممدانی نے ہائوسنگ کی قیمتیں 50فیصد کم کرنے اور یونیورسل ہیلتھ کیئر کا وعدہ کیا، جو 8.8ملین آبادی والے اس شہر کو براہ راست متاثر کرے گا۔ ممدانی کی مہم استطاعتپر مرکوز رہی، جو شٹ ڈان کی وجہ سے بڑھتی انرجی کاسٹس اور روزگار کی عدم یقینی سے جڑی ہوئی تھی۔ یہ صرف ایک جیت نہیں، یہ نیویارک کی سیاست میں ایک تبدیلی کا اشارہ ہے۔
ورجینیا کی گورنر ریس، جو ایک سوئنگ سٹیٹ کی حیثیت سے قومی توجہ کا مرکز تھی، میں ایبی گیئل اسپین برگر کی فتح نے ٹرمپ انتظامیہ کو براہ راست چیلنج کیا۔ سابق سی آئی اے آفیسر اور کانگریس وومن اسپین برگر، جو 2018 ء میں ٹرمپ کے پہلے دور کے خلاف جیت چکی ہیں، نے ریپبلکن لفٹیننٹ گورنر ونسم ایرل۔سیئرز کو ہرا کر ریاست کی پہلی خاتون گورنر بننے کی راہ ہموار کی۔ یہ ریس دونوں پارٹیوں کی پہلی خاتون امیدواروں والی تھی، اور موجودہ گورنر گلیں ینگکن کی ٹرم لمٹ کی وجہ سے کھلی تھی۔ اسپین برگر کی مہم نے ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں اور وفاقی ملازمین کی کٹائوں کو نشانہ بنایا، جو ورجینیا کی 8.6ملین آبادی والے وفاقی ملازمین سے بھرپور ریاست میں براہ راست اثر انداز ہو رہی تھیں۔ ایگزٹ پولز بتاتے ہیں کہ 60فیصد ووٹرز نے شٹ ڈان کی وجہ سے فیملی فنانس پر اثر کو سراہا، اور اسپین برگر نے 17جنوری 2026ء کو حلف لینے کی تیاری کر رہی ہیں۔ یہ جیت، ڈیموکریٹس کی مڈ ٹرمز کی تیاری کا ماڈل ہے، جہاں عملی اعتدال پسند اپروچ نے سوئنگ ووٹرز کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ ایرل سیئرز کی مہم، جو ٹرمپ کی حمایت پر مبنی تھی، ناکام رہی۔
نیو جرسی میں، جو ایک ڈیموکریٹک لیاننگ سٹیٹ ہے، مکی شیرل کی جیت توقع کے مطابق تھی، لیکن اس کا فرق 14 پوائنٹس سے زیادہ پارٹی کی بحالی کی وجہ بننا قرار پا رہا ہے۔ سابق نیوی پائلٹ اور کانگریس وومن شیرل نے ریپبلکن جییک سیٹیریلی کو ہرا دیا، جو ٹرمپ کی حمایت یافتہ تھے۔ شیرل کی مہم قومی سلامتی، استطاعت اور ٹیکس ریفارم پر زور دیتی رہی، اور انہوں نے 2024ء کے صدارتی الیکشن میں کملا ہیرس کی کارکردگی سے بہتر نتائج حاصل کیے۔ یہ جیت 1961ء کے بعد تیسری مسلسل ڈیموکریٹک گورنر شپ ہے، جو ریاست کی 9.2ملین آبادی میں انفراسٹرکچر اور معاشی چیلنجز کو حل کرنے میں مددگار ہو گی۔ شیرل نے ٹرمپ کی وفاقی کٹوں سے الگ، مقامی مسائل جیسے ٹیکس اور انرجی بلز پر توجہ دی، جو ووٹرز کی ترجیحات تھیں۔ سیٹیریلی کی مہم، جو ٹرمپ کی انڈورسمنٹ پر انحصار کر رہی تھی، ناکام رہی۔
کیلی فورنیا کی پروپوزیشن 50کی منظوری نے ریڈسٹرکٹنگ کی جنگ کو نئی سمت دی۔ یہ بل، جو کانگریشنل ڈسٹرکٹس کو دوبارہ ڈرا کرنے کی اجازت دیتا ہے، 2026ء کے مڈ ٹرمز میں ڈیموکریٹس کو ممکنہ طور پر پانچ اضافی ہاس سیٹیں دے سکتا ہے، جو ٹیکساس کے ریپبلکن ریڈسٹرکٹنگ کا جواب ہے۔ یہ ووٹرز کی ، استطاعت اور انرجی کاسٹس پر توجہ کی وجہ سے منظور ہوئی، جہاں نئی میپ لاطینی اور ایشیائی کمیونٹیز کی نمائندگی بڑھائے گی۔ یہ ’’ الیکشن رگنگ رسپانس ایکٹ‘‘ 39ڈسٹرکٹس کو تبدیل کرے گا، جو ہائوسنگ اور ماحولیاتی پالیسیوں پر ووٹرز کی ترجیحات کی تھی۔
ان جیتوں کا پس منظر وہ لمبی شٹ ڈائون بھی ہے جو 35دن میں تاریخ کی سب سے طویل بن گئی۔ اس نے لاکھوں وفاقی ملازمین کو بے روزگار کر دیا، SNAPفوڈ اسٹیمپس روک دیے، اور معیشت کو ہر ہفتے 15بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا کہ دفاعی، صحت اور ایئر پورٹس جیسی خدمات معطل ہوئیں، اور کئی ریاستیں عدالتوں میں چلی گئیں۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ڈیموکریٹس کو مورد الزام ٹھہرایا، کہتے ہوئے کہ شٹ ڈائون ان کی غلطی ہے، اور GOPامیدواروں کی ہار کی وجہ ان کی عدم موجودگی تھی۔ یہ شٹ ڈائون ٹرمپ کی بل کی عدم منظوری کی وجہ سے طول پا رہی تھی۔ یہ نتائج امریکی جمہوریت کی لچک کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں آف۔ یر ووٹنگ بھی قومی مسائل پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ممدانی، اسپین برگر اور شیرل جیسی امیدواروں نے 2018ء کی مڈ ٹرمز کی طرح، ٹرمپ کے خلاف ردعمل کو استعمال کیا، جہاں ، استطاعت اور سرکاری خدمات کی بحالی کو ترجیح دی۔ یہ الیکشنز ٹرمپ کی مقبولیت کی جانچ تھیں، جہاں ووٹرز نے معاشی استحکام کو ترجیح دی۔
مجموعی طور پر، یہ جیت ڈیموکریٹس کو نئی سمت دیتی ہیں، جہاں ٹرمپ کی ابتدائی پالیسیوں سے عدم اطمینان واضح ہے۔ سینیٹ مائنارٹی لیڈر چک شمر نے اسے ٹرمپ کی پالیسیوں کی شدید تنقید قرار دیا، اگر ٹرمپ معاشی مسائل کو حل نہ کر سکے، تو 2026ء میں ردعمل مزید شدید ہو گا۔ یہ الیکشنز بتاتے ہیں کہ امریکی ووٹرز، جو ایک سال پہلے ٹرمپ کو منتخب کر چکے تھے، اب اس کی پالیسیوں کی حقیقت سے روبرو ہیں اور وہ ردِ عمل دے رہے ہیں۔





