Column

27 ویںترمیم

27 ویںترمیم
تحریر : ڈاکٹر اے اے جان
پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک بار پھر ایک نیا موڑ آنے کو ہے۔ حکومت نے 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کر لیا ہے اور ذرائع کے مطابق اسے رواں ماہ پارلیمنٹ سے منظور کرانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ بظاہر یہ ایک معمولی اصلاحاتی ترمیم لگتی ہے مگر درحقیقت یہ ملک کے آئینی، عدالتی اور مالیاتی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اس ترمیم میں وفاقی اختیارات میں اضافہ، این ایف سی ایوارڈ میں لچک، آئینی عدالتوں کا قیام، ججز کے تبادلوں کا نیا طریقہ کار، اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سے متعلق ڈیڈ لاک ختم کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ ان تمام نکات کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کا طاقت کا نقشہ ایک بار پھر ازسرِنو ترتیب دیا جا رہا ہے۔ذرائع کے مطابق اس مجوزہ ترمیم میں آرٹیکل 243، 213، 160، 191اور 200میں تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم اور حساس شق آرٹیکل 160کی ہے جو قومی مالیاتی کمیشن یعنی این ایف سی ایوارڈ کے بارے میں ہے۔ موجودہ آئینی شق کے مطابق صوبوں کا حصہ کسی بھی نئے این ایف سی ایوارڈ میں گزشتہ ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکتا۔ اس شق نے وفاقی و صوبائی اعتماد کی بنیاد قائم رکھی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد سے صوبے اپنی مالیاتی خودمختاری کے حوالے سے کافی حد تک مضبوط ہوئے ہیں۔ مگر اب حکومت چاہتی ہے کہ اس شق کو لچکدار بنایا جائے تاکہ وفاق کو ضرورت پڑنے پر اپنے مالی دبا کے تحت صوبوں کے حصے میں رد و بدل کرنے کا اختیار حاصل ہو۔حکومتی موقف یہ ہے کہ وفاق کے مالی حالات اس قدر ابتر ہیں کہ موجودہ فریم ورک میں مرکز کے لیے ترقیاتی، دفاعی اور سماجی شعبوں کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے وفاق کو کچھ لچک درکار ہے۔ تاہم اس تجویز نے صوبوں میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے سیاسی رہنما اس ترمیم کو وفاقی تسلط کی نئی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں مرکز کا یہ اقدام صوبائی خودمختاری کے اصول کے منافی ہے اور یہ اٹھارویں ترمیم کے حاصل شدہ حقوق کو کمزور کرے گا۔
درحقیقت پاکستان کی تاریخ میں وفاق و صوبوں کے درمیان اعتماد ہمیشہ ایک نازک مسئلہ رہا ہے۔ ماضی میں جب بھی مرکز نے اختیارات اپنے ہاتھ میں زیادہ لیے، صوبائی مزاحمت اور سیاسی کشمکش بڑھی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ایک بنیادی وجہ یہی اختیاراتی عدم توازن تھا۔ اگر 27ویں ترمیم کے نتیجے میں صوبائی مالیاتی حصے پر زد پڑی تو ممکن ہے کہ وہی اختلافات دوبارہ سر اٹھائیں جو اٹھارویں ترمیم سے قبل موجود تھے۔آئینی ترامیم کے حوالے سے سب سے دلچسپ تجویز آرٹیکل 243میں تبدیلی ہے، جو افواج پاکستان کے کمانڈ، کنٹرول اور سربراہی سے متعلق ہے۔ پچھلے چند برسوں میں پاکستان میں فوجی قیادت کی تقرری اور توسیع کے معاملات کئی بار عدلیہ اور حکومت کے درمیان تنازعات کا باعث بنے۔ حکومت کا مقف ہے کہ اب اس ترمیم کے ذریعے وزیراعظم اور صدر کے اختیارات کو واضح کر کے آئینی ابہام ختم کیا جائے گا۔ اس طرح مستقبل میں آرمی چیف کی تقرری یا توسیع جیسے معاملات میں قانونی الجھن پیدا نہیں ہوگی۔ مگر اس ترمیم کی نوعیت چونکہ حساس ہے، اس لیے بہت سے ماہرین قانون اسے ’ سویلین کنٹرول‘ کے نام پر ایک نئی درجہ بندی کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جو طاقت کے توازن پر اثر ڈال سکتی ہے۔آرٹیکل 213میں مجوزہ ترمیم بھی سیاسی طور پر نہایت اہم ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور اراکین الیکشن کمیشن کی تقرری وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے ہوتی ہے۔ اگر دونوں میں اتفاق نہ ہو تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جاتا ہے۔ لیکن کئی بار یہ عمل تعطل کا شکار رہا ہے اور مہینوں تک الیکشن کمیشن نامکمل رہا۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ اگر مقررہ مدت کے اندر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اتفاق نہ کر سکیں تو صدر مملکت کو اختیار حاصل ہو کہ وہ ازخود تقرری کر دے۔ بظاہر مقصد ڈیڈ لاک ختم کرنا ہے، مگر درحقیقت اس سے حکومت وقت کو الیکشن کمیشن پر زیادہ اثر انداز ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔پاکستان کے انتخابی نظام میں غیرجانبداری ہمیشہ ایک مسئلہ رہی ہے۔ ہر الیکشن کے بعد اپوزیشن دھاندلی کے الزامات لگاتی ہے۔ ایسے میں اگر چیف الیکشن کمشنر کی تقرری میں اپوزیشن کا کردار کمزور کیا گیا تو انتخابی نظام کی ساکھ مزید متاثر ہوگی۔ اسی لیے اپوزیشن جماعتیں اس شق کو ’ جمہوری توازن کے خلاف اقدام‘ قرار دے رہی ہیں۔
اب بات آتی ہے عدلیہ کے حوالے سے مجوزہ ترمیمات کی۔ حکومت آرٹیکل 191میں تبدیلی کر کے ’ مستقل آئینی عدالتوں‘ کے قیام کی تجویز دے رہی ہے۔ ان عدالتوں کا دائرہ کار سپریم کورٹ سے الگ ہوگا اور وہ صرف آئینی نوعیت کے مقدمات، مثلاً بنیادی حقوق، وفاق و صوبوں کے تنازعات، انتخابی تنازعات یا آئینی تشریحات سے متعلق کیس سنیں گی۔ حکومت کے نزدیک اس سے عدلیہ پر بوجھ کم ہوگا اور انصاف کی فراہمی تیز تر ہو گی۔ مگر ماہرین قانون کے خیال میں اس ترمیم کے نتیجے میں عدلیہ کے اندر ایک نئی تقسیم پیدا ہو جائے گی۔
سپریم کورٹ پاکستان کی واحد آئینی عدالت ہے جو آئین کی تشریح کا اختیار رکھتی ہے۔ اگر ایک نئی آئینی عدالت بنا دی گئی تو سپریم کورٹ کا کردار محدود ہو جائے گا۔ بہت سے تجزیہ کار اس اقدام کو عدلیہ کے ’ سیاسی کردار‘ کو کم کرنے کی کوشش سمجھ رہے ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں عدالتِ عظمیٰ کے بعض فیصلے براہِ راست سیاسی اثرات رکھتے تھے، مثلاً اسمبلیوں کی تحلیل یا نااہلی کے معاملات۔ حکومت اب شاید چاہتی ہے کہ آئینی تنازعات کو ایک الگ فورم پر منتقل کر کے سپریم کورٹ کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ مگر اس اقدام کے نتائج کیا ہوں گے، اس کا اندازہ صرف وقت دے سکتا ہے۔اسی طرح آرٹیکل 200میں بھی ترمیم کی تجویز ہے جس کے تحت ججز کے تبادلوں کا نیا طریقہ کار متعارف کرایا جائے گا۔ اب تک یہ اختیار صدرِ مملکت کو مشاورت کے بعد حاصل ہے، مگر ترمیم کے بعد یہ اختیار ’ جوڈیشل کوآرڈینیشن کونسل‘ کے ذریعے استعمال کیا جائے گا۔ اس کونسل میں چیف جسٹس آف پاکستان، وفاقی وزیر قانون اور ایک سینئر جج شامل ہوں گے۔ یہ بظاہر ایک انتظامی قدم ہے، لیکن اس سے عدلیہ میں حکومتی اثر و رسوخ بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ ججز کے تبادلوں کا اختیار کسی بھی سیاسی دبا سے پاک ہونا چاہیے، ورنہ عدالتی آزادی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
اس ترمیمی منصوبے پر حکومت نے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے اپنے اتحادیوں سے رابطے تیز کر دئیے ہیں۔ وزیر اعظم نے ایم کیو ایم، ق لیگ، آئی پی پی، اے این پی اور جے یو آئی سمیت تمام اتحادی جماعتوں سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومتی وفد نے پیپلز پارٹی سے بھی باقاعدہ رابطہ کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف خود آصف علی زرداری سے ملاقات کر چکے ہیں اور ن لیگ نے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے پیپلز پارٹی کی حمایت مانگی ہے۔
پیپلز پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر غور کے لیے اپنی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 6نومبر کو ( آج ) بلاول ہائوس کراچی میں بلائے گی۔ یہ اجلاس صدر آصف علی زرداری کی دوحہ سے واپسی کے بعد منعقد ہوگا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق پیپلز پارٹی اس ترمیم پر ’ کنگ میکر‘ کا کردار ادا کرے گی۔ اگر اس نے حکومت کی حمایت کی تو ترمیم کی راہ ہموار ہو جائے گی، لیکن اگر اس نے مخالفت کی تو معاملہ پارلیمنٹ میں لٹک سکتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب حکومت نے بڑے آئینی اصلاحات کا اعلان کیا ہو۔ ماضی میں 18ویں، 19ویں اور 21ویں ترامیم نے ملک کے آئینی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں پیدا کیں۔ 18ویں ترمیم نے اختیارات کو مرکز سے صوبوں کی طرف منتقل کیا، 19ویں نے عدلیہ میں تقرری کے طریقہ کار کو بدل دیا، اور 21ویں نے فوجی عدالتوں کو آئینی تحفظ دیا۔ اب 27ویں ترمیم کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شاید ریاستی اداروں کے درمیان طاقت کے توازن کو ایک بار پھر مرکزی کنٹرول کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہر آئین میں اصلاحات کی ضرورت پڑتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اصلاحات جمہوریت کو مضبوط کریں گی یا اداروں کی خودمختاری کو کمزور؟ حکومت کا موقف ہے کہ یہ ترمیم ’ ادارہ جاتی توازن‘ کے لیے ہے۔ مگر اگر یہ صرف سیاسی مفادات کے تحت کی جا رہی ہے تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔پاکستان کا آئین ایک زندہ معاہدہ ہے جو وفاق، صوبوں، عدلیہ، فوج اور عوام کے درمیان توازن پیدا کرتا ہے۔ جب بھی کسی فریق نے اس توازن کو بگاڑنے کی کوشش کی، نظام بحران میں داخل ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں صدارتی اختیارات نے پارلیمانی نظام کو کمزور کیا، پرویز مشرف کے دور میں آئینی ترامیم نے وفاقی ڈھانچے کو متنازع بنایا، اور اب اگر 27ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کے مالیاتی حقوق یا عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی تو یہ بھی اسی نوعیت کا بحران جنم دے سکتی ہے۔
سیاسی سطح پر بھی اس ترمیم کے اثرات کم نہیں ہوں گے۔ اس وقت ملک کی معیشت بحران میں ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، اور سیاسی محاذ آرائی عروج پر ہے۔ ایسے میں آئینی ترمیم کا اعلان بظاہر غیرضروری تنازع پیدا کر سکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی حکومت پر ’ مرکزیت پسندی‘ کا الزام لگا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی، جو خود صوبائی خودمختاری کی سب سے بڑی علمبردار رہی ہے، اس ترمیم پر ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ اے این پی اور جے یو آئی جیسے جماعتیں بھی صوبائی حقوق کے معاملے میں حساس ہیں۔ اگر حکومت نے ان جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر ترمیم منظور کرائی تو اس کے سیاسی اثرات طویل مدتی ہوں گے۔
آئین میں کسی بھی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ اس وقت حکومت کے پاس سادہ اکثریت ضرور ہے مگر دو تہائی نہیں۔ اس لیے یہ ترمیم اتفاقِ رائے کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم خود اتحادیوں سے رابطوں میں مصروف ہیں۔ لیکن سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ اس ترمیم کی کامیابی صرف سیاسی اتفاق پر نہیں بلکہ عوامی قبولیت پر بھی منحصر ہے۔
پاکستان میں آئین ہمیشہ سے طاقت کے کھیل کا میدان رہا ہے۔ ہر حکومت نے اپنی سہولت کے مطابق آئین میں تبدیلیاں کیں۔ بعض ترامیم نے ملک کو مضبوط کیا جیسے 18ویں ترمیم، جبکہ بعض نے کمزور کیا جیسے جنرل ضیاء کے دور کی 8ویں ترمیم۔ اب سوال یہ ہے کہ 27ویں ترمیم کس سمت میں جائے گی؟ کیا یہ ایک مستحکم نظام کی بنیاد رکھے گی یا ایک نئے بحران کو جنم دے گی؟یہ بھی قابل غور ہے کہ حکومت اس ترمیم کو ایسے وقت میں لا رہی ہے جب عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان کشیدگی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں، ججز کی آڈیو لیکس، اور عدالتی تقسیم نے پہلے ہی نظامِ انصاف کو تنازع کا مرکز بنا دیا ہے۔ اب اگر حکومت آئینی عدالتوں کے نام پر عدلیہ کی ساخت بدلنے جا رہی ہے تو یہ عمل مزید تنازع پیدا کرے گا۔سیاسی ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ آئین میں ایسی ترامیم لائے جن سے مستقبل میں کسی بھی غیر متوقع عدالتی فیصلے یا انتظامی رکاوٹ سے بچا جا سکے۔ اگر ایسا ہے تو یہ ترمیم محض ’ اصلاحات‘ نہیں بلکہ اقتدار کے تحفظ کا نیا فریم ورک ہوگی۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت نے اس ترمیم پر عوامی سطح پر کوئی کھلی بحث نہیں کی۔ نہ کوئی وائٹ پیپر جاری ہوا، نہ پارلیمانی کمیٹیوں میں مفصل بریفنگ۔ آئین میں اتنی بڑی تبدیلیاں بغیر عوامی مشاورت کے کرنا جمہوری شفافیت کے اصول کے منافی ہے۔ ایک بالغ جمہوریت میں آئینی ترامیم عوامی مباحثے کے بعد ہوتی ہیں، نہ کہ بند کمروں میں سیاسی مفاہمت کے ذریعے۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا پارلیمنٹ اس ترمیم کو منظور کر کے آئین کے ارتقاء میں نیا باب رقم کرے گی یا محض طاقت کے توازن کو بدلنے کا ذریعہ بنے گی؟ اگر یہ ترمیم سیاسی اتفاقِ رائے کے ساتھ، مکمل شفافیت اور آئینی روح کے مطابق منظور ہوئی تو یہ ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر اگر اسے جلدبازی، مفاداتی سیاست اور خفیہ سودوں کے تحت منظور کیا گیا تو یہ آنے والے برسوں میں اسی طرح متنازع ہوگی جیسے کئی سابقہ ترامیم۔پاکستان کے آئینی سفر کی تاریخ گواہ ہے کہ آئین سے کھیلنے والے بالآخر آئین کے ہاتھوں ہی شکست کھاتے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ آئینی ترامیم کو شخصیات کے مفاد سے ہٹا کر ریاستی استحکام کے تناظر میں دیکھا جائے۔ آئین کو طاقت کے کھیل کا ہتھیار بنانے کے بجائے قومی وحدت کی علامت بنانا ہی اصل کامیابی ہے۔
اگر 27ویں آئینی ترمیم واقعی ریاستی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ اسے خفیہ سیاسی منصوبے کے بجائے قومی مباحثے کے طور پر پیش کرے۔ کیونکہ آئین صرف پارلیمنٹ کا نہیں، پوری قوم کا معاہدہ ہے۔ قوم کے معاہدے میں تبدیلی قوم کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔پاکستان کا مستقبل اسی توازن میں پوشیدہ ہے کہ طاقت قانون کے تابع رہے، اور قانون آئین کے تابع۔ اگر آئین کے تابع ادارے طاقتور ہوں، اور طاقتور ادارے آئین کے تابع، تو یہی جمہوریت کی اصل جیت ہوگی۔ لیکن اگر طاقت آئین پر غالب آگئی تو پھر ترمیم چاہے 27ویں ہو یا 37ویں، انجام وہی ہوگا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، بحران، تقسیم، اور ایک نیا آئینی محاذ۔
ڈاکٹر اے اے جان

جواب دیں

Back to top button