مفادات کی سیاست اور آئینی ترمیم

مفادات کی سیاست اور آئینی ترمیم
تحریر : امتیاز عاصی
پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو تمام سیاسی جماعتوں کی اتفاق رائے سے ایک متفقہ آئین دیا۔ جب تک ملک 1973ء کے آئین کے مطابق چلتا رہا عدلیہ سمیت تمام ادارے احسن طریقہ سے چلتے رہے جیسے جیسے آئین میں من پسند ترامیم لائی جاتی رہیں ملکی اداروں میں بگاڑ کی صورت حال پیدا ہوتی گئی۔ گو دور آمریت میں آئین معطل رہا فوجی حکومتیں اس میں خاطر خواہ تبدیلیاں نہ لا سکیں اور عدلیہ سمیت تمام اداروں میں معاملات خوش اسلوبی سے چلتے رہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے اقتدار کی خاطر آئین میں جو تبدیلیاں کیں اس نے اداروں کو متنازعہ بنا دیا جیسا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری میں جو کھیل کھیلا گیا نے آئین کو پامال کر دیا۔ موجودہ حکومت نے پہلے آئین میں 26 ویں ترمیم کی جس میں چیف جسٹس آف پاکستان کو سائیڈ لائن کرکے ایک آئینی بینچ قائم کر دیا گا ۔چیف جسٹس کی تقرری کو متنازعہ بنانے کا اعزاز موجودہ حکومت کو ہے، پھر انہی کے دور میں ججوں کے تبادلوں کی منفرد مثال قائم کی گئی اور اب آئین میں27ویں ترمیم لائی جا رہی ہے۔ بقول سینیٹر فیصل واوڈا 28ویں ترمیم بھی لائی جا سکتی ہے۔ وہ آئین جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے دستخط کئے آج وہی جماعت جس کے بانی نے آئین تخلیق کیا اس کے حصے بخرے کرنے میں سرفہرست ہے۔ آئین میں27ویں ترمیم کا شور و غوغا ضرور تھا اس کی تفصیلات ابھی منظر عام پر نہیں آئیں تھیں یہ تو بھلا ہو بلاول بھٹو زرداری کا جنہوں نے ترمیمی ڈرافٹ کی تفصیلات ٹویٹ کر دیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں سائڈ لائن تو پہلے کر دیا گیا تھا اب آئینی بینچ کی بجائے ایک آئینی عدالت قائم کی جائے گی جو آئینی امور کے مقدمات کے فیصلے کرے گی جب کہ سپریم کورٹ کے باقی جج صاحبان دیوانی اور قتل جیسے مقدمات کی سماعت کریں گے۔ مجوزہ آئینی ترامیم میں ججوں کے تبادلوں کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا جس میں بعض ناپسندیدہ ججوں کو دوسری ہائی کورٹس میں ٹرانسفر کرنے کا اختیار حکومت کو مل جائے گا۔ اس وقت حکومت کی نظر میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے وہ پانچ جج صاحبان کھٹکتے ہیں جو اپنی نالش لئے دو بار چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کر چکے تھے۔ اب ایگزیکٹو مجسٹریٹ مقرر کئے جائیں گے تاکہ دو تین سال تک سزائیں دینے کے لئے زیادہ تگ و دو نہ کرنی پڑے جس سیاسی جماعت کے کارکن ہلا گلہ کریں گے انہیں سزائیں دینے میں آسانی پیدا کی جارہی ہے۔ صوبے جو مختلف مدوں میں ٹیکس جمع کرکے وفاق کو دو سو ارب بھیجتے ہیں اٹھارویں ترمیم میں انہیں زیادہ حصہ دیا گیا تھا اب حکومت این ایف سی ایوارڈ کا فارمولہ تبدیل کرنے جا رہی ہے جس میں صوبوں کو ملنے والی رقم میں کٹوتی کا پروگرام ہے جس کا صوبائی سطح پر رد عمل کی توقع ہے۔ قارئین! آپ کو یاد ہوگا میں نے اپنے ایک وی لاگ اور کالم میں ایک اہم معاملے کی طرف اشارہ دیا تھا جس میں ملک کی ایک بڑی شخصیت کو آئینی ترمیم کے ذریعے اختیارات دیئے جائیں گے۔ جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 243کے تحت تینوں مسلح افواج کی کمانڈ اینڈ کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کا تقرر صدر مملکت وزیراعظم کی مشاورت سے کرتے ہیں اس آئینی ترمیم کی روشنی میں مسلح افواج کے کسی ایک سربراہ کو برتری حاصل ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ بعض اعلیٰ عہدوں کی مدت ملازمت ساٹھ سال کی بجائے ستر برس ہونے کا قوی امکان ہے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے لئے ایک بڑا امتحان ہے آیا صدر زرداری جنہوں نے صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ میں زیادہ حصہ دیا تھا ان کے حصے میں کٹوتی کے متحمل ہو ں گے؟۔ اس کے ساتھ کیا وہ اپنے اختیارات کسی اور کو دینے کے لئے رضامند ہوں گے؟۔ شنید ہے آئینی عدالت کی سربراہی سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دی جائے گی شائد اسی لئے عمر کی حد ساٹھ سال کی بجائے ستر برس کرنے کی تجویز ہے۔ ججوں کی عمر پیرانہ سالی ستر برس ہوئی تو پھر دیگر سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر بھی ستر برس کرنی پڑے گی۔ مجھے یاد ہے 26آئینی ترمیم کے موقع پر جے یو آئی کے امیر نے بڑا شور غوغا کیا اور آخر وہ آئینی ترمیم پر متفق ہو گئے لیکن ابھی تک مولانا نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے تاہم اس کے باوجود اس بات کا کم امکان ہے وہ آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے۔ دراصل سیاسی جماعتوں کی سیاست مفادات کے گرد گھومتی ہے انہیں عوام اور ان کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ انہیں ذاتی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے جے یو آئی کے امیر نے اپنے ایک بھائی کو کے پی کے سے سندھ حکومت میں ایک انتظامی عہدے پر فائز کرنے کی کوشش کی تو بڑا شور غوغا ہوا جس کے بعد وفاقی حکومت نے یہ حکم واپس لے لیا تھا۔27 ویں آئینی ترمیم کی بہت سے شقوں میں ترامیم لائی جا رہی ہے جیسا کہ الیکشن کمیشن ، بعض محکموں کی صوبوں سے وفاق کو واپسی وغیرہ بھی شامل ہے۔ بدقسمتی سے ہر حکومت غریب عوام کی خدمت کے دعویٰ کرتی ہے درحقیقت سیاسی حکومتیں اپنے مفادات کی خاطر آئین اور قوانین میں ترامیم لاتی ہیں جیسا کہ موجودہ حکومت کے وزیراعظم نے اپنے خلاف مقدمہ ختم کرنے کے لئے نیب قوانین میں ترمیم کی اور اپنے خلاف مقدمہ ختم کر الیا۔ دراصل پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور جے یو آئی تینوں جماعتوں کی سیاست کا مطمع نظر عوام کی خدمت کی بجائے ذاتی مفادات کا حصول ہے چنانچہ یہی وجہ ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں غریب عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں عوام نے انہی جماعتوں کو مسترد کیا تاہم اس کے باوجود اقتدار انہی دو جماعتوں کے حوالے کیا گیا۔ تازہ ترین صورت حال میں عوام کو صاحب اقتدار جماعتوں سے کسی قسم کی اچھائی کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ بہرکیف آئندہ ہفتے تک آئینی ترامیم دونوں ہائوسز سے منظور کر الی جائیں گی اور عوام اپنے مسائل میں الجھے رہیں گے۔





