کہانی ایک آئین کی

کہانی ایک آئین کی
تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض)
معاشرے میں نظم و ضبط قائم رکھنے کے لئے ہر دور میں کچھ اصول و ضوابط بہرطور پس منظر یا پیش منظر میں بروئے کار رہتے ہیں تاکہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔ البتہ یہ ضروری نہیں کہ ایسے اصول و ضوابط باقاعدہ تحریر شدہ ہوں کہ زمانہ قدیم میں حکمرانوں کے الفاظ کو ہی قانون کا درجہ دیا جاتا رہا ہے تو دور جدید میں بھی برطانوی آئین آج بھی غیر تحریر شدہ ہے جبکہ دیگر دنیا میں آئین باقاعدہ تحریر شدہ صورت میں موجود ہے۔ ریاستوں کے لئے، آئین کی حیثیت کسی بھی دوسرے قانون سے ہمیشہ مقدم رہی ہے اور دیگر قوانین کا اجرائ، آئینی حدود و قیود کو مدنظر رکھ کر ہی ترتیب دیئے جاتے ہیں، جن کا بنیادی مقصد بہرطور شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہی تصور ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں! دنیا بھر میں یہ مسلمہ اصول ہے کہ کوئی بھی ریاست، تین بنیادی ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے جس میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ، اپنے اپنے دائرہ کار میں، ریاست کو سنبھالے دکھائی دیتی ہیں، تاہم اب ریاست ایک چوتھا ستون بھی معرض وجود میں آ چکا ہے، جسے صحافت، آزادی اظہار رائے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ گو کہ اس چوتھے ستون کو آزادی دنیا کے کسی بھی خطے میں بعینہ ویسے میسر نہیں، جیسے کسی آئین یا قوانین میں درج ہے بلکہ اس پر قدغنوں کی بھرمار ہر ذی شعور کو واضح دکھائی دیتی ہے، جو مخصوص معاملات، داخلی و خارجی و دفاعی ، میں تو سمجھ آتی ہے البتہ اشرافیہ کے لچھن و کرتوتوں کو آشکار کرنے میں اس کی کوئی تک نہیں بنتی لیکن بسا اوقات پاکستان جیسے ممالک میں صحافیوں کی زباں بندی انتہائی بھونڈے طریقے سے کی جاتی ہے اور بے باک و بے لاگ صحافیوں کی زندگی بری طرح اجیرن کر دی جاتی ہے، ان کی جان و مال و عزیز و اقارب تک محفوظ دکھائی نہیں دیتے۔ ریاست کے بنیادی تین ستونوں کی کارکردگی بھی بہرطور دنیا کی نسبت، پاکستان میں انتہائی سے زیادہ دگر گوں دکھائی دیتی ہے اور ان کر کارکردگی سے واضح نظر آتا ہے کہ نہ ان کی سمت صحیح ہے اور نہ ہی یہ مروجہ اصول و ضوابط کے مطابق برائے کار آتے ہیں بلکہ مروجہ اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کرنے میں انہیں کوئی باک نہیں اور ڈھٹائی سے مسلمہ اصولوں کو پامال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے شرمناک کردار میں کسی ایک کی تخصیص نہیں لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو انتظامیہ بہرطور ان سب پر سبقت اس لئے لے جاتی ہے کہ مقننہ و عدلیہ، انتظامیہ کی خواہشات ، کے تابع دکھائی دیتی ہیں اور مقننہ ایسے قوانین بنانے جبکہ عدلیہ ان قوانین کو آئینی دائرہ کار و مسلمہ طے شدہ اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے تحفظ دیتی دکھائی دیتی ہے۔ اولا تو پاکستان، دولخت ہونے تک، متفقہ آئین سے ہی محروم رہا، اور جس طرح متفقہ آئین متعارف کرایا گیا، اس پر بھی اکثریت کے تحفظات بہرطور موجود رہے، لیکن بعد ازاں سب نے 1973ء کے آئین کو تسلیم کر لیا، جو آج بھی ملک پاکستان میں رائج تو ہے لیکن اس کے ساتھ جو کھلواڑ جاری ہے، وہ بھی کسی شرمندگی سے ہرگز کم نہیں، آج اس کھلواڑ کا مختصر سا خاکہ آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں، تا کہ جو حال ہی میں اس کے ساتھ ہوا اور جو ہونے کی توقع کی جارہی ہے، اس میں ریاست کا کتنا عمل دخل ہے اور شہری حقوق کا تحفظ کتنا ہے جبکہ مفادات کس کے محفوظ ہو رہے ہیں؟۔
انسان اپنے تئیں کتنا ہی کامل ہو یا اس کا اظہار کرے بہرطور رہتا انسان ہی ہے جس کا خمیر خطا سے اٹھایا گیا ہے اور اس کا کیا گیا کوئی بھی کام یا عمل کامل نہیں ہو سکتا بعینہ یہی صورتحال 1973ء کے آئین پاکستان کی رہی کہ انسانی کاوش ایک حد تک رہی۔ اس کجی کے باعث، آئین پاکستان میں فورا ہی ترمیم کی ضرورت پیش آئی اور پاکستان کے دولخت ہونے کے جو ترامیم آئین پاکستان میں 1974ء میں کی گئی، ان میں پاکستانی سرحدوں اور بین الاقوامی معاہدوں کو حالات کے مطابق، طے کیا گیا اور پاکستانی حیثیت اور علاقائی حدود کو قانونی طور پر واضح کیا گیا۔ آئین پاکستان میں دوسری ترمیم بھی 1974ء میں کی گئی اور قادیانی/احمدیوں کو آئین کے تحت غیر مسلم قرار دے کر مذہبی شناخت کی بنیاد پر آئینی وضاحت کی گئی۔ تیسری اور چوتھی ترامیم 1975۔1977ء میں قیدیوں کے حقوق، عدالتی حدود اور حفاظتی اقدامات کے حوالے اور ریاستی تحفظ سے متعلق قوانین میں سختی کی گئی، جن کا مقصد انتظامی اختیارات کو مضبوط اور عدالتی اختیارات کو محدود کرنا تھا۔ اسی طرح آئین میں پانچویں اور چھٹی ترامیم 1976۔1977ء میں متعارف کراتے ہوئے ، ججز کی مدت ملازمت اور عدلیہ کی آزادی پر قدغنوں، بیوروکریسی اور فوجی عہدیداروں کے رولز میں تبدیلی کے ساتھ آمین کا حصہ بنائی گئی اور یوں پہلی چھ اہم ترامیم بانی آئین پاکستان کے اپنے دور میں کی گئی۔ آٹھویں آئینی ترمیم کا سہرا آمر مطلق جنرل ضیاء الحق کے سر رہا، جس میں پارلیمانی نظام حکومت ہوتے ہوئے بھی، صدارتی اختیارات میں اضافہ کیا گیا، فوجی قانون کو آئینی تحفظ دے کر پارلیمانی نظام کو کمزور اور اس کا مذاق اڑایا گیا۔ آٹھویں آئینی ترمیم کا ذکر عموما انتہائی شرمناک انداز میں کیا جاتا ہے جو بہت حد تک مناسب بھی ہے کہ جمہوری قرار دیئے جانے والے ملک میں ایسی ترمیم نہ صرف ریاست بلکہ اس کی اشرافیہ کے لیے بھی ہمیشہ باعث شرمندگی رہی اور رہے گی تاآنکہ تیرہویں آئینی ترمیم میں صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات ختم کرکے پارلیمانی نظام کو مضبوط نہیں کیا گیا۔ بعد ازاں سترہویں ترمیم کے ذریعہ جنرل مشرف نے ایک بار پھر بطرز آٹھویں ترمیم صدر کے اختیارات کی بحالی و قومی سلامتی کونسل کو آئینی حیثیت دے کر، فوجی و صدارتی اثر کو دوبارہ بڑھا دیا۔ تاہم اٹھارویں آئینی ترمیم میں پھر، صدر کے بیشتر اختیارات وزیر اعظم اور پارلیمان کو واپس ملے، اصل آئین کے مطابق صوبوں کو خودمختاری دی گئی، صوبائی حکومتوں کے لئے نیا فریم ورک تشکیل دے کر وفاقی نظام و جمہوریت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اکیسویں ترمیم میں دہشت گردی کے مقدمات کے لئی فوجی عدالتوں کے قیام، جس کا مقصد قومی سلامتی کے نام پر عدالتی نظام میں خصوصی استثنا دیا گیا، پچیسویں آئینی ترمیم میں فاٹا کا انضمام خیبر پختونخوا میں کیا گیا تا کہ آئینی و انتظامی لحاظ سے قبائلی علاقوں کو باقاعدہ ریاست پاکستان کا حصہ بنایا گیا۔
حال ہی میں کی گئی چھبیسویں آئینی ترمیم میں ایک بار پھر، مطمع نظر عدلیہ کے دائرہ کار کو محدود کرنا رہا اور اس آئینی ترمیم میں چیف جسٹس کی تقرری کے عمل کو تبدیل کیا گیا، ججز کی تقرری و کارکردگی کے جائزے کے لئے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی ترکیب کو تبدیل کر کے، عوامی نمائندوں کا اس کا ایسے حصہ بنایا گیا کہ موجودہ صورتحال میں فیصلہ سازی کے لئے حکومت کا پلڑا بہرصورت بھاری رہے جبکہ کسی بھی جج کو عہدے سے ہٹانے کے لئے بھی کارکردگی کو معیار بنایا گیا ( البتہ اس کو جانچنے کا پیمانہ کسی صورت غیر جانبدارانہ دکھائی نہیں دیتا کہ کمیشن کی ترکیب ایسی ہے کہ کسی بھی ناپسندیدہ جج کو آسانی سے ہٹایا جا سکتا ہے) عدالتی دائرہ کار اور ازخود نوٹس کے اختیار کو محدود کیا گیا ہے، آئینی معاملات کو سننے کے لئے آئینی بینچز کا اہتمام کیا گیا ہے، پارلیمانی اور انتظامی اختیارات میں ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں کہ صدر کو کابینہ یا وزیراعظم کے مشاعرے کا معاملہ عدالت میں نہیں اٹھایا جا سکے گا۔ مزید برآں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چیف اور ممبران کو مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد اس وقت تک نہیں ہٹایا جائیگا تاوقتیکہ ان کے جانشین مقرر نہیں کر دئیے جاتے۔
قارئین کرام! درج بالا ترامیم کو بغور دیکھیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ آئین پاکستان میں ترامیم کا مکروہ کھیل، ایک تسلسل کے ساتھ، کسی فرد واحد یا مخصوص گروہ کے مفادات کا تحفظ ہی دکھائی دیتا ہے جبکہ عدلیہ کے بطور آئینی ادارہ، ان حقوق و ذمہ داریوں پر براہ راست قبضہ ہے کہ جو کہ صرف مسلمہ طور پر دنیا بھر میں تسلیم شدہ ہیں بلکہ عدلیہ کی آزادی کے لئے ضروری ہیں مگر پاکستان میں ان کو بزور سلب کیا جاتا رہا ہے، جس میں بہرطور عدلیہ کے نابغہ روزگار بھی ملوث ہیں۔ ویسے ان نابغہ روزگاروں کی شمولیت اتنی بھی ضروری نہیں کہ طاقتوروں نے انہیں اس قابل چھوڑا ہی نہیں کہ وہ ان کی خواہشات کے برعکس کوئی فیصلہ کر سکیں، وگرنہ عدالت عظمیٰ پاکستان کے چیف جسٹس آج سید منصور علی شاہ ہوتے، جنہوں نے طاقتوروں کے اشارہ ابرو پر آئین کے حلف کو ترجیح دی۔ بہرکیف، ان ترامیم کو بغور دیکھیں تو یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ ان ترامیم کے ثمرات تسلسل کے ساتھ طاقتوروں کو ہی نصیب ہوئے ہیں جبکہ پارلیمان یا عوامی نمائندوں کے اختیارات میں مسلسل کمی ہی نظر آئی ہے جو ہنوز جاری ہے کہ ممکنہ/مجوزہ ستائسویں ترمیم کے خدوخال ایسے ہیں کہ عوامی نمائندے اپنے مزید اختیارات، خصوصی تقرریوں و تعیناتیوں کے حوالے سے، سر نڈر کرنے جا رہے ہیں ( جن کی تفصیل میڈیا کی زینت بن چکی ہے)، جس کے بعد پارلیمان یہ عوامی نمائندگان کی حیثیت یا نمائشی رہ جائیگی یا پھر اس ملک کے وسائل ہڑپ کرنے تک ہی رہے گی کہ قانون سازی و انتظامی امور میں یہ بری طرح ناکام ہو چکے ہیں اور عدلیہ کو کام کرنے کے قابل انہوں نے چھوڑا نہیں، یہی اس آئین کی اب تک کی شرمناک کہانی ہے۔





