Column

افغانستان دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ

افغانستان دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ
اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے ایک مرتبہ پھر اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ افغانستان، جہاں طالبان کی حکومت قائم ہے، ایک مرتبہ پھر عالمی دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے۔ یہ رپورٹ نہ صرف افغانستان کے اندر دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کے حوالے سے سنجیدہ تشویش کی علامت ہے، بلکہ اس سے پاکستان اور پورے خطے کی سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرات بڑھ گئے ہیں۔ طالبان کی جانب سے دوحہ امن معاہدے کے دوران یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی، تاہم حالیہ رپورٹ میں یہ بات واضح ہوگئی کہ طالبان نے اپنے اس وعدے کو پورا نہیں کیا۔ یہ حقیقت کہ افغانستان ایک بار پھر دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہ بن چکا ہے، اس بات کی غماز ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد عالمی سطح پر ہونے والے امن معاہدوں اور وعدوں کے باوجود افغانستان میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا۔ اس کا اثر نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان اور پورے خطے کی سلامتی پر پڑ رہا ہے، جہاں دہشت گرد تنظیمیں اپنی سرگرمیاں تیز کررہی ہیں۔ جب طالبان نے دوحہ امن معاہدے پر دستخط کیے، تو اس معاہدے میں عالمی طاقتوں کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ افغانستان میں کسی بھی قسم کی دہشت گرد سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ طالبان نے اس معاہدے کے تحت یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین دہشت گرد تنظیموں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہیں ہوگی اور وہ سرحد پار حملوں میں ملوث نہیں ہوں گے، لیکن اقوامِ متحدہ کی رپورٹ نے ان وعدوں کی حقیقت کو بے نقاب کردیا ہے۔ رپورٹ میں یہ واضح کہا گیا کہ طالبان نے اپنے وعدوں کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ عالمی دہشت گرد تنظیموں، جیسے کہ القاعدہ، کے ساتھ اپنے روابط کو مزید مستحکم کیا ہے۔ ایمن الظواہری کی کابل میں ہلاکت کو اس بات کا ثبوت سمجھا جارہا ہے کہ القاعدہ کے نیٹ ورک افغانستان میں اب بھی موجود ہیں اور طالبان کی سرپرستی میں کام کررہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں اس بات کی نشان دہی کی گئی ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں، خاص طور پر ان تنظیموں کی جو پاکستان اور دیگر ممالک کے خلاف سرگرم ہیں۔ زابل، وردک، قندھار، پکتیا اور ہلمند جیسے علاقوں سے دہشت گرد تنظیمیں بلوچستان میں داخل ہو رہی ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کے انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق، حالیہ مہینوں میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ یہ خطرات اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ طالبان کی حکومت، جو اس وقت افغانستان میں قائم ہے، دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی میں ملوث ہے۔ ان تنظیموں کی سرپرستی کی ایک اور واضح مثال ’’ فتنہ الخوارج’’ کی سرگرمیوں میں اضافہ ہے، جو طالبان کی حکومت کی سرپرستی میں فعال ہوچکی ہے۔ اس گروہ کے سربراہ نور ولی محسود کو ہر ماہ 50ہزار 500امریکی ڈالر فراہم کیے جاتے ہیں اور اس کے قبضے میں امریکی افواج کے چھوڑے گئے جدید ہتھیار بھی موجود ہیں۔ یہ تمام عوامل اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان حکومت دہشت گرد گروپوں کی حمایت میں سرگرم ہے۔طالبان کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے عالمی برادری کی ذمے داری مزید بڑھ گئی ہے۔ دوحہ معاہدے کے باوجود طالبان کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کا یہ عمل عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ عالمی طاقتوں کو اب اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ کسی طرح افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کا خاتمہ ممکن بنایا جاسکے۔ عالمی برادری کو ایک متفقہ حکمتِ عملی کے تحت طالبان کے ساتھ مزید سختی سے نمٹنا چاہیے۔ طالبان کی حکومت پر عالمی سطح پر پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں اس بات پر مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہ ہونے دیں۔ اس کے علاوہ، افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے عالمی طاقتوں کو افغانستان کی داخلی سیاسی صورت حال، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دہشت گردی کے خطرات کے حوالے سے سنجیدہ فیصلے کرنے ہوں گے۔ پاکستان پر اس صورت حال کے سنگین اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں، خاص طور پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں، پاکستان کے لیے اہم چیلنج بن چکی ہیں۔ پاکستان کو اس بات کا ادراک ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت دہشت گرد تنظیموں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کررہی ہے اور ان تنظیموں کی سرگرمیاں پاکستان کے اندر دہشت گردی کے حملوں کا سبب بن رہی ہیں۔ پاکستان کو اس وقت عالمی سطح پر مزید سفارتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طالبان پر دبائو ڈال کر دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے موثر حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ پاکستان کو اپنے علاقائی شراکت داروں اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کی طرف سے عالمی دہشتگرد تنظیموں کی سرپرستی نہ صرف افغانستان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ طالبان کی جانب سے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی اور دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط کا جاری رہنا، عالمی امن کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ عالمی طاقتوں کو اس صورت حال کا سنجیدہ نوٹس لینا ہوگا اور طالبان پر مزید سخت پابندیاں عائد کرنی ہوں گی تاکہ دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ اس کے ساتھ پاکستان اور دیگر خطے کے ممالک کو اپنی داخلی سلامتی کے اقدامات مزید مضبوط کرنے ہوں گے تاکہ اس بڑھتے ہوئے خطرے کا موثر طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔
آئی پی پیز معاہدوں کی منسوخی 3600ارب کی بچت
پاکستان کی وزارتِ توانائی کی جانب سے آئی پی پیز معاہدوں کی منسوخی اور نظرثانی سے 3600ارب روپے کی بچت کی خبر نے عوام کو ریلیف کی امید دی ہے، وزارت توانائی کا دعویٰ ہے کہ ان معاہدوں کی نظرثانی سے 3.6ٹریلین روپے کی بچت ہوئی، جو ملکی معیشت کے لیے خوش آئند بات ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ پاکستان کے معاہدے شروع میں شاید ضروری معلوم ہوئے ہوں گے تاکہ توانائی کی کمی کو پورا کیا جاسکے، مگر بعد میں ان معاہدوں کی شرائط نہ صرف عوام کے لیے مہنگی ثابت ہوئیں، بلکہ ان معاہدوں کی ساخت بھی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ ماضی میں، ان آئی پی پیز سے بجلی پیدا نہ ہونے کے باوجود کپیسٹی چارجز کی مد میں ادائیگیاں کی جاتی رہیں۔ وزارتِ توانائی کی جانب سے آئی پی پیز کے معاہدوں کی منسوخی اور نظرثانی اہم اور خوش آئند قدم تھا۔ ان معاہدوں کے بارے میں کئی حلقوں کی جانب سے تحفظات اور تنقید کی جا چکی تھی۔ ان معاہدوں کے ذریعے جو مالی بوجھ عوام پر ڈالا جارہا تھا، اس کا اثر نہ صرف معیشت بلکہ لوگوں کی روزمرہ زندگی پر بھی پڑرہا تھا۔ آئی پی پیز کی منسوخی کے بعد حکومت کو توانائی کے شعبے میں پائیدار اصلاحات کی طرف قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اپنی توانائی کی حکمتِ عملی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف عوام کے لیے سستی اور معیاری بجلی فراہم کی جا سکے بلکہ توانائی کے شعبے میں غیر ضروری اخراجات بھی کم کیے جا سکیں۔ اس کے علاوہ، ان آئی پی پیز کے معاہدوں کی منسوخی سے حاصل ہونے والی بچت کو قوم کی فلاح و بہبود میں استعمال کرنا ضروری ہوگا، تاکہ عوامی ردعمل کو مزید مثبت بنایا جا سکے۔ آئی پی پیز کے معاہدوں کی منسوخی مثبت قدم تھا جو پاکستانی معیشت کے لیے اہم فوائد کا حامل ثابت ہورہا ہے، لیکن یہ محض آغاز ہے۔ حکومت کو اب اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے دوران کسی بھی قسم کی کرپشن سے بچا جائے اور پائیدار ترقی کی طرف قدم بڑھایا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف موجودہ توانائی کے معاہدوں کی شفافیت اور معقولیت کو یقینی بنایا جائے، بلکہ مستقبل میں توانائی کے تمام ذرائع کو جدید، شفاف اور عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے منظم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع کو بروئے کار لانے پر توجہ دی جائے، مہنگے ذرائع سے بتدریج جان چھڑائی جائے۔ ہوا، پانی اور سورج سے توانائی کا حصول یقینی بنایا جائے۔ اس ضمن میں تاخیر کی چنداں گنجائش نہیں ہے۔

جواب دیں

Back to top button