Aqeel Anjam AwanColumn

27ویں آئینی ترمیم، بلاول بھٹو اور ن لیگ

27ویں آئینی ترمیم، بلاول بھٹو اور ن لیگ
عقیل انجم اعوان
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آئینی ترامیم ہمیشہ طاقت کے توازن، اداروں کی بالادستی اور مرکز و صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے گرد گھومتی رہی ہیں۔ اب 27ویں آئینی ترمیم کی بازگشت ایک بار پھر انہی سوالات کو زندہ کر رہی ہے کہ طاقت کہاں مرکوز ہوگی فیصلے کون کرے گا اور عوامی مفاد کس کے ہاتھ میں محفوظ رہے گا۔ حکومتِ وقت کی جانب سے کئی روز تک اس ترمیم کی تردید کے بعد اچانک بلاول بھٹو زرداری کا یہ انکشاف کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے صدر آصف علی زرداری اور ان سے 27ویں ترمیم پر حمایت مانگی ہے دراصل اس بات کا اعتراف ہے کہ معاملہ محض افواہ نہیں بلکہ ایک سیاسی حقیقت ہے جسے اب دبایا نہیں جا سکتا۔ بلاول بھٹو کے اس ’’ دھماکے‘‘ نے سیاسی فضا میں ہلچل مچا دی ہے کیونکہ مجوزہ ترمیم کے نکات اتنے اہم اور حساس ہیں کہ ان پر قومی سطح پر مکالمہ ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔ ترمیم کے بنیادی نکات میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججوں کے تبادلے میں رضامندی کی شق کا خاتمہ، آرٹیکل 243میں تبدیلی، این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ، تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کی اختیارات کو وفاق کو واپس دینا اور الیکشن کمیشن سے متعلق ڈیڈ لاک ختم کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔ 27ویں آئینی ترمیم کو اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو یہ محض سیاسی نہیں بلکہ ریاستی استحکام کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ اس ترمیم کا مقصد اختیارات کی ازسرِ نو منصفانہ تقسیم، اداروں کے درمیان تعاون اور آئین میں موجود عملی خامیوں کو دور کرنا ہے تاکہ نظامِ حکومت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو سکے۔ بلاول بھٹو زرداری کے انکشاف نے یقیناً سیاسی فضا میں ہلچل مچائی کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے صدر آصف علی زرداری اور ان سے 27ویں ترمیم کے لیے حمایت مانگی ہے مگر اگر ترمیم کے مندرجات کو غور سے پڑھا جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ کوئی طاقت ہتھیانے کی کوشش نہیں بلکہ آئین کے بکھرے ہوئے حصوں کو مربوط کرنے کی سعی ہے۔ یہ وہ ترمیم ہے جو ایک نئے سیاسی توازن کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ سب سے پہلے آئینی عدالت کے قیام کی تجویز کو لیا جائے۔ اس وقت پاکستان میں عدالتی نظام پر بے پناہ بوجھ ہے۔ لاکھوں مقدمات برسوں سے زیرِ التوا ہیں اور سپریم کورٹ کے کندھوں پر انتظامی و آئینی نوعیت کے فیصلوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ آئینی عدالت کا قیام دراصل اس بوجھ کو تقسیم کرنے کا بہترین حل ہے۔ دنیا کے کئی جمہوری ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں جو آئین کی تعبیر و تشریح میں تخصص رکھتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسی عدالت کا قیام عدالتی معاملات کو تیز، موثر اور شفاف بنانے کی جانب ایک مثبت قدم ہوگا۔ ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی کو بعض حلقے ماضی کی واپسی قرار دے رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان ہم آہنگی کے لیے یہ نظام نہایت ضروری ہے۔ ملک میں جرائم، تجاوزات، ماحولیاتی خلاف ورزیوں اور انتظامی بدعنوانیوں سے نمٹنے کے لیے ایک ایسا فورم ہونا چاہیے جو فوری کارروائی کا مجاز ہو۔ ایگزیکٹو مجسٹریٹس کا نظام عوامی ریلیف کا ذریعہ بن سکتا ہے کیونکہ یہ ہر معاملہ عدالتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی حل کرنے میں مدد دے گا۔ عام شہریوں کے لیے انصاف تک آسان رسائی اسی وقت ممکن ہوگی جب انتظامیہ کو محدود مگر موثر عدالتی اختیارات حاصل ہوں۔ آرٹیکل 200میں ججوں کے تبادلے کے لیے رضامندی کی شق کا خاتمہ بھی ایک منطقی قدم ہے۔ اگر ریاستی اداروں میں کارکردگی اور شفافیت مطلوب ہے تو منتقلی اور تبادلے کے عمل کو کسی شخصی رضامندی سے مشروط نہیں ہونا چاہیے۔ عدلیہ کا مقصد افراد کی خوشنودی نہیں بلکہ ادارے کا نظم و ضبط قائم رکھنا ہے۔ اس ترمیم کے بعد عدلیہ کے اندر احتساب کا ایک نیا باب کھلے گا جس سے ججوں کی تقرری و تبادلے کے عمل میں سیاسی مداخلت کم اور ادارے کا نظم مضبوط ہوگا۔ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے بھی شور مچایا جا رہا ہے کہ صوبائی حصے کے تحفظ کو ختم کیا جا رہا ہے مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ شق صوبوں سے وسائل چھیننے نہیں بلکہ قومی وسائل کی ازسرِ نو منصفانہ تقسیم کے لیے تجویز کی گئی ہے۔ جب معاشی حالات بدل جاتے ہیں آبادی بڑھ جاتی ہے اور صوبوں کی ضروریات تبدیل ہوتی ہیں تو ایک پرانا فارمولا ہمیشہ کارآمد نہیں رہتا۔ 27ویں ترمیم دراصل اس معاشی حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان کو ایک متحرک مالیاتی ڈھانچے کی ضرورت ہے جس میں مرکز اور صوبے دونوں اپنی ذمہ داریوں کے مطابق وسائل کا اشتراک کریں۔ اسی طرح آرٹیکل 243 میں ترمیم کا مقصد بھی کسی ادارے کو کمزور یا طاقتور بنانا نہیں بلکہ سول اور عسکری قیادت کے درمیان آئینی وضاحت پیدا کرنا ہے۔ اگر آئین میں ایسے ابہامات باقی رہیں جو مستقبل میں تنازعات کو جنم دے سکتے ہیں تو بہتر ہے کہ انہیں آج ہی دور کر لیا جائے۔ یہ ترمیم ریاستی مشینری میں توازن پیدا کرے گی اور فیصلہ سازی کے عمل کو واضح خطوط پر استوار کرے گی۔ تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے اختیارات وفاق کو واپس دینے کی تجویز کو بھی غلط رنگ دیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم ایک قومی معاملہ ہے جس کی پالیسی اگر مختلف صوبوں میں مختلف ہو تو قومی معیارِ تعلیم قائم نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح آبادی کی منصوبہ بندی جیسے حساس امور بھی قومی سطح پر مربوط حکمتِ عملی کے متقاضی ہیں۔ یہ ترمیم وفاق کو یکساں پالیسی سازی کا اختیار دے کر ترقی کے عمل کو تیز کر سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن سے متعلق ڈیڈ لاک ختم کرنے کی شق بھی ایک نہایت ضروری اصلاح ہے۔ پاکستان میں انتخابات ہمیشہ تنازعات کا شکار رہے ہیں وجہ یہ کہ الیکشن کمیشن کی تقرری کے عمل میں سیاسی اختلافات حائل ہو جاتے ہیں۔ اگر 27ویں ترمیم کے ذریعے یہ تعطل ختم ہو جاتا ہے اور کمیشن کی تشکیل زیادہ موثر، غیر جانبدار اور بروقت ممکن ہوتی ہے تو یہ جمہوریت کے استحکام کی طرف ایک اہم پیش رفت ہوگی۔ یہ تمام نکات دراصل ایک ایسے آئینی سفر کی علامت ہیں جو پاکستان کو انتشار سے نکال کر اداروں کی بحالی کی جانب لے جائیں گا۔ ماضی میں آئین کو یا تو جامد رکھا گیا یا مخصوص طبقات کے مفاد میں موڑا گیا مگر اب اگر اس کے ذریعے نظام کو متوازن کیا جا رہا ہے تو یہ قدم قابلِ ستائش ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر آئینی ترمیم کے لیے وسیع مشاورت ضروری ہوتی ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ریاستی ڈھانچہ اس وقت جن مسائل سے دوچار ہے ان کا حل صرف الفاظ کی بحث میں نہیں بلکہ عملی اصلاحات میں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا اس عمل میں حصہ لینا دراصل سیاسی بلوغت کی علامت ہے۔ اگر پیپلز پارٹی اس معاملے کو قومی اتفاقِ رائے کے ساتھ دیکھتی ہے تو یہ ملک کے لیے ایک خوش آئند رویہ ہو گا۔ یہ وقت بداعتمادی نہیں بلکہ تعمیری سیاست کا ہے۔ 27ویں آئینی ترمیم اگر بصیرت، شفاف نیت اور قومی ہم آہنگی کے ساتھ منظور کی جاتی ہے تو یہ آئین کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط کرے گی۔ یہ ترمیم ریاستی اداروں کے درمیان اختیارات کی وضاحت، وفاقی نظم کی بحالی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے ایک نئی سمت متعین کرے گی۔ پاکستان کو اس وقت تقسیم نہیں یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اگر 27ویں آءینی ترمیم اس یکجہتی کی بنیاد رکھتی ہے تو یہ فیصلہ تاریخ کے آئینے میں ایک درست اور بروقت قدم تصور کیا جائے گا۔ آئین جامد نہیں ہوتا یہ ایک زندہ معاہدہ ہے جسے وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جاتا ہے۔ آج کا پاکستان اگر ایک نئے آئینی توازن کی طرف بڑھ رہا ہے تو ہمیں اس تبدیلی سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے خوش آمدید کہنا چاہیے۔ یہی قومی بلوغت کی علامت ہے اور یہی ایک مستحکم پاکستان کی ضمانت۔

جواب دیں

Back to top button