Column

27ویں آئینی ترمیم، صوبوں کے اختیارات محدود، عدلیہ پر مضبوط گرفت کا امکان

27ویں آئینی ترمیم، صوبوں کے اختیارات محدود، عدلیہ پر مضبوط گرفت کا امکان
تحریر:ایم اے تبسم
27 ویں آئینی ترمیم پاکستان کے آئین میں حالیہ تبدیلیوں کا ایک اہم ایجنڈا ہے، جس پر حالیہ دنوں میں سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان مشاورت جاری ہے، اس ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو پیپلز پارٹی کی حمایت کی ضرورت ہے، اور اس سلسلے میں اتحادی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا جا رہا ہے، 27ویں آئینی ترمیم کے مکمل پیکیج کی تیاری کی جا رہی ہے، جس میں مختلف اہم اصلاحات شامل ہوں گی، پیپلز پارٹی کی جانب سے اس ترمیم کے لیے کچھ شرائط رکھی گئی ہیں، جن میں صدر مملکت کے اختیارات میں اضافہ بھی شامل ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے اس ترمیم کے لیے اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ اتفاق رائے کے ساتھ آئینی تبدیلی کو آگے بڑھایا جا سکے، اس ترمیم کی منظوری کے لیے اتفاق رائے ضروری ہے اور اس پر ابھی مشاورت کا آغاز ہوا ہے، حکومت کو اس ترمیم کی منظوری کے لیے پیپلز پارٹی کی حمایت کی ضرورت ہے، جس کی وجہ سے دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، اس ترمیم کے تحت آئین کے مختلف حصوں میں اہم تبدیلیاں متوقع ہیں، جن کا مقصد آئینی اداروں کو مضبوط بنانا اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانا ہے،27آئینی ترمیم پاکستان کے آئینی اور سیاسی نظام میں اہم تبدیلیوں کا ایک ایجنڈا ہے، جس پر حکومت اور اتحادی جماعتوں کے درمیان مشاورت جاری ہے۔ اس ترمیم کی منظوری کے لیے اتفاق رائے اور پیپلز پارٹی کی حمایت کی ضرورت ہے۔
27ویں آئینی ترمیم زیر غور اور مشاورت کے مراحل میں ہے۔ تاہم، دستیاب معلومات کے مطابق یہ ترمیم پاکستان کے آئین کے متعدد آرٹیکلز میں اصلاحات کی تجویز رکھتی ہے، جن میں آرٹیکل 243( مسلح افواج سے متعلق)، آرٹیکل 200 ( عدالتی ججز کے تبادلوں کی شق)، اور دیگر اہم شقیں شامل ہیں۔ اس ترمیم کا مقصد وفاق اور صوبوں کے درمیان مالیاتی اور انتظامی اختیارات کی منصفانہ تقسیم، مسلح افواج کے حوالے سے آئینی شقوں کی تازہ کاری، اور چیف الیکشن کمشنر سمیت دیگر آئینی اداروں کے کردار کی بہتری ہے، اس ترمیم کو مکمل پیکیج کے طور پر منظوری دی جانی ہے جس میں سیاسی جماعتوں کی شرائط اور مشاورت شامل ہوں گی، لہٰذا اس کا حتمی متن اور کل شقیں عبوری سیاسی اور قانونی معاملات کی تکمیل کے بعد جاری ہوں گی، گزشتہ آئینی ترمیمات کی روشنی میں ( مثلاً 18ویں اور 26ویں ترمیم) یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 27ویں ترمیم بھی ملک کی وفاقی ساخت، احتساب، عدلیہ کے قیام، اور مالیاتی معاملات میں بڑے پیمانے پر اصلاحات سے متعلق ہو گی، جن میں کم و بیش 20سے 30یا اس سے زائد شقیں شامل ہو سکتی ہیں۔ لیکن مکمل اور تفصیلی متن کا انتظار بہم پہنچنے والا سرکاری اعلامیہ یا آئینی بل جاری ہونی تک کرنا ہوگا۔
27ویں آئینی ترمیم میں عدلیہ کے اختیارات کا معاملہ، آئینی عدالت یا سپریم آئینی عدالت کے قیام کی تجویز شامل ہوسکتی ہے جس کا مقصد آئینی تشریحات کے حتمی اختیار کو تبدیل کرنا ہے۔ خاص طور پر اس ترمیم میں ججز کے تبادلے اور ایگزیکٹو مجسٹریٹس کے معاملے میں حکومت کو زیادہ اختیار دیا جانا شامل ہوسکتا ہے، یعنی ججز کی منتقلی اور تقرری کا کنٹرول حکومت کے دست میں آ سکتا ہے۔ اس سے عدلیہ کے خود مختاری اور آزادی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کیونکہ اس سے عدلیہ پر حکومت کا مکمل یا وسیع تر کنٹرول ہو سکتا ہے۔ تاہم اس پر سیاسی جماعتوں کے درمیان مشاورت اور اتفاق رائے ابھی درکار ہے تاکہ ترمیم کا حتمی مسودہ متفقہ طور پر منظور کیا جا سکے۔ نیز، اس ترمیم کے تحت صوبوں کے مالیاتی حصے میں تبدیلی اور وفاقی اور صوبائی اختیارات کے توازن میں اصلاحات بھی شامل ہیں۔ یوں 27ویں آئینی ترمیم عدلیہ پر مکمل یا زیادہ کنٹرول کے امکان کے باعث حساس موضوع بنی ہوئی ہے اور اس کا فیصلہ آئندہ سیاسی مذاکرات پر منحصر ہے۔
27ویں آئینی ترمیم کے محرکات بنیادی طور پر وفاق اور صوبوں کے اختیارات میں تبدیلی، آئینی عدالت کا قیام، آرمی چیف کے عہدے کو آئینی صورت دینا، اور این ایف سی ایوارڈ سمیت ججز کے تبادلے اور ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی سے متعلق ہوسکتے ہیں، اس ترمیم کے ذریعے تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی سمیت بعض شعبوں کے اختیارات دوبارہ وفاق کو منتقل کرنے کی تجویز دی جاسکتی ہے، جس کا مقصد بعض پالیسی معاملات میں مربوط اور مرکزی کنٹرول قائم کرنا ہے، اس پیکیج میں آئینی عدالت کے قیام پر بھی غور جاری ہے، تاکہ آئینی معاملے سپیڈی پراسسنگ حاصل کر سکیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس ہوں گے، ساتھ ہی ججز کے تبادلے اور ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی سے عدالتی نظام میں اصلاحات متوقع ہیں، آرٹیکل 243میں ترمیم کے ذریعے آرمی چیف کو دئیے گئے فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی صورت دینے کی تجویز اہم ہے۔ اس کے علاوہ این ایف سی ایوارڈ کے صوبائی حصے میں کمی زیر غور ہے، جس سے صوبائی مالی خود مختاری متاثر ہو سکتی ہے، ان اقدامات کے پسِ منظر میں ملک کی سیاسی و انتظامی بہتری، عدلیہ کی فعالیت بڑھانے، وفاق کے مالی اور انتظامی اختیارات کی مضبوطی، اور صوبوں کے معاملات میں اصلاحات شامل ہیں، یہ ترمیم ابھی حتمی مرحلے میں نہیں پہنچی اور مختلف سیاسی جماعتیں اس پر گفت و شنید کر رہی ہیں۔
27ویں آئینی ترمیم کے سیاسی محرکات میں حکومت کا عدالتوں اور عدلیہ پر کنٹرول کرنا، سیاسی استحکام قائم رکھنا، اور مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت شامل ہیں۔ اس ترمیم کے ذریعے حکومت نے عدلیہ کی مداخلت کو محدود کرنے، عدالتی تقرریوں میں پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کا کردار بڑھانے، اور سیاسی فیصلوں پر عدالتوں کی گرفت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ سیاسی استحکام اور حکومتی کارکردگی بہتر ہو سکے۔ اس کے علاوہ، مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے اور سیاسی اختلافات کو کم کرنے کی کوشش بھی اس ترمیم کے پس منظر میں ہے، خاص طور پر اس ترمیم کے ذریعے بعض سیاسی رہنمائوں کو تحفظ دیا گیا ہے، عدلیہ کے سیاسی دبائو کو کم کیا گیا ہے، اور پارلیمنٹ کو سیاسی معاملات میں زیادہ خودمختاری دی گئی ہے۔ یہ اقدام سیاسی استحکام اور قومی مفاہمت کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے، خاص طور پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات اور سیاسی سمجھوتوں کی روشنی میں، اسی طرح اس ترمیم میں فوج اور مالیاتی اختیارات سے متعلق بھی سیاسی مفادات شامل ہیں، جہاں سیاسی جماعتوں نے اپنی ضروریات اور آئندہ سیاسی حکمت عملی کے مطابق اصلاحات کی حمایت یا مخالفت کی ہے، مجموعی طور پر، 27ویں آئینی ترمیم کے سیاسی محرکات میں حکومت کا عدلیہ پر کنٹرول، سیاسی استحکام کی خواہش، اور سیاسی جماعتوں کے درمیان متفقہ اصلاحات کا اہتمام شامل ہے، تاکہ سیاسی اور آئینی احتساب کے عمل کو متوازن کیا جا سکے اور ملک میں سیاسی بحرانوں سے بچا جا سکے۔

جواب دیں

Back to top button