
جگائے گا کون؟
اب مارشل لاء نہیں لگے گا؟
تحریر: سی ایم رضوان
اب جب تک موجودہ رجیم پاور میں رہے گی اس امر کی کسی حد تک گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ آئندہ ملک میں مارشل لاء نہیں لگے گا کیونکہ اب پارلیمنٹ کے فیصلہ سازوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم بھی لائی جائے جس کے بعد دیگر آئینی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ فیلڈ مارشل کے عہدے کو کور دے دیا جائے کہ انہیں جب وہ چاہیں اپنے اختیارات کے استعمال کے لئے آئین کو معطل نہ کرنا پڑے۔ اس پیش رفت کا سرا اس امر سے جوڑا جا سکتا ہے کہ گزشتہ روز ( پیر کو) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے ان کی پارٹی کی حمایت کی درخواست کی ہے۔ یہ بات بلاول بھٹو نے اپنے ایکس اکائونٹ سے جاری ایک بیان میں کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کا ایک وفد وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ان سے اور صدر آصف علی زرداری سے ملا اور پیپلز پارٹی سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے حمایت کی درخواست کی۔ ان کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کے لئے آئینی عدالت کے قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس، ججوں کے تبادلے کے اختیار، قومی مالیاتی کمیشن ( این ایف سی ایوارڈ) میں صوبائی حصوں کو درپیش تحفظ کے خاتمے، مسلح افواج سے متعلق آرٹیکل 243میں ترمیم، تعلیم اور بہبود آبادی کی وزارتوں کی وفاق کو دوبارہ منتقلی، چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر موجودہ ڈیڈ لاک کے خاتمے کے لئے تجاویز پر غور کرنے کی بات کی گئی ہی جبکہ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ صدر زرداری کی دوحہ سے واپسی پر چھ نومبر کو اس معاملے پر پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہو گا۔ دریں اثنا بلاول بھٹو نے چھ نومبر کو بلاول ہاس کراچی میں پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کیا ہی جہاں ایک اعلامیے کے مطابق ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر غور ہو گا۔ یہ بات تو طے ہے کہ کسی بھی آئین اور جمہوریت والے ملک اور نظام میں آئین و قانون میں ملک اور نظام کے لئے جو بہتری درکار ہوتی ہے اس کے لئے بات چیت جاری رہتی ہے۔
جس طرح کہ آئینی عدالت کا قیام 26ویں آئینی ترمیم کے ایجنڈے کا حصہ تھا جبکہ اب مسلح افواج سے متعلق آرٹیکل 243 میں تبدیلی اس لئے زیرِ غور ہے کیونکہ آرمی چیف عاصم منیر کو دیئے گئے فیلڈ مارشل کے اعزاز کو ’’ آئینی کور‘‘ دینے کی ضرورت ہے۔ گو کہ باضابطہ طور پر تاحال 27ویں ترمیم کے لئے کسی مسودے پر کام شروع نہیں کیا گیا مگر بات چیت چل رہی ہے۔ اس امر کی بھی تصدیق ہو چکی ہے کہ بلاول بھٹو کے بتائے گئے نکات پر بات چیت جاری ہے۔ سوال اس وقت اہم یہ ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے لئے زیرِ غور تجاویز کیا ہیں اور حکومت یہ ترمیم کیوں لانا چاہتی ہے۔
حکومت کے نزدیک اس وقت سب سے اہم معاملہ آئینی عدالت کی تشکیل کا ہے کیونکہ حکومت مخالف طاقتوں کی طرف سے یہ تنقید ہوتی ہے کہ ملک میں عدالت کے اندر عدالت قائم ہے، آئینی بنچ نہیں ہونا چاہیے۔ چونکہ 26ویں آئینی ترمیم کے وقت بھی آئینی عدالت کا قیام زیرِ غور تھا جبکہ بظاہر 26ویں آئینی ترمیم کا غیر مکمل ایجنڈا اب 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے پہلے مسودے میں موجود بہت سی چیزیں بعد میں نکل گئی تھیں کیونکہ اس وقت حکومت کے پاس جے یو آئی کے بغیر اتنے نمبر نہیں تھے، اس لئے جے یو آئی کے اس اعتراض کو قبول کرنا پڑا تھا۔ خاص طور پر آئینی عدالت کا قیام، جس کی جگہ آئینی بینچ بنایا گیا تھا جبکہ اب حکومت کے پاس پیپلز پارٹی کی حمایت کی صورت میں اتنے نمبرز ہوں گے کہ وہ آئینی عدالت قائم کر سکیں کیونکہ آئینی بینچ آدھا تیتر آدھا بٹیر والی بات ہے۔ اس لئے حکمران اب اسے آئینی عدالت کے بین الاقوامی ماڈل کے تحت کرنا چاہیں گے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت اس لئے عدالتی اصلاحات لانا چاہتی ہے کیونکہ اب بھی ایسے آزاد جج موجود ہیں جو بعض اوقات شور مچاتے ہیں۔ اس تناظر میں آئینی عدالت کا قیام اور ججز کے تبادلے کا اختیار اہم پیشرفت ہو گی لیکن خدشہ یہ ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اختلاف کرنے والے ججز کے تبادلے کیے جا سکتے ہیں یا انہیں غیر متعلقہ بنایا جا سکتا ہے جبکہ حکومت کا یہ بھی خیال ہے کہ ایگزیکٹو کے انتظامی اختیارات کو ضلعی و مقامی سطح تک لے جانا ہو گا تاکہ پرائس کنٹرول اور دو سال سے کم سزائوں جیسے چھوٹے جرائم کا عدالتوں پر کم بوجھ ہو اور تاخیر کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔
اسی طرح وفاقی حکومت چاہے موجودہ ہو، پی ڈی ایم کا دور ہو یا تحریک انصاف، سبھی ایم ایف سی ایوارڈ میں ترمیم کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے پاس اتنے نمبر نہیں تھے لیکن اب حکومت چاہے گی کہ این ایف سی آزاد ہو تاکہ حالات کے مطابق صوبوں کا شیئر بڑھا سکے، کم کر سکے یا برقرار رکھ سکے۔ یاد رہے کہ 18ویں ترمیم میں لکھا گیا تھا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے اندر صوبوں کے جو شیئر متعین ہو گئے ہیں، انہیں کم نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت صوبوں کے حصے میں قومی مالیاتی کمیشن نے 52.5فیصد حصہ مقرر کیا تھا جس میں ( آئینی ترمیم کے بغیر) کمی نہیں کی جا سکتی ہے لیکن اب چونکہ مالی حالات خراب ہو چکے ہیں تو اب وفاق کی ضروریات پوری نہیں ہو پاتی ہیں اور صوبوں کے پاس زیادہ پیسے چلے جاتے ہیں لیکن چونکہ صوبوں کے پاس یہ پیسے جانے کا جواز بھی موجود ہے کیونکہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کے اختیارات بڑھا دیتے گئے تھے جس کے لئے اضافی فنڈز کی ضرورت ہے لیکن وفاق کو بھی اس کی ضرورت ہے۔ وفاق کے تحت دفاع کی اہم ذمہ داری ہے۔
مثال کے طور پر پاکستان کی بھارت کے ساتھ مئی میں فوجی جھڑپوں اور حالیہ عرصے کے دوران افغانستان سے کشیدگی کی وجہ سے دفاع کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے اور وفاق کی دفاعی اخراجات کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 27ویں ترمیم لانے کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔ جس کے لئے پیپلز پارٹی سے حمایت مانگی گئی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے لئے یہ آسان فیصلہ نہیں ہو گا۔ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ مجوزہ 27ویں ترمیم میں پیپلز پارٹی این ایف سی سے متعلق تجویز پر اختلاف کر سکتی ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ کا یہ مسئلہ ہے کہ 18ویں ترمیم کے ذریعی اختیارات وفاق کے بجائے صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ اختیارات دوبارہ وفاق کے پاس جائیں۔ اس وقت پیسے صوبوں کے پاس چلے جاتے ہیں جبکہ وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ کچھ شعبے اسی کے پاس ہونے چاہئیں۔ دوسری طرف شہباز شریف حکومت نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لئے موجود ڈیڈ لاک ختم کرنا چاہتی ہے۔ اگرچہ آئین میں واضح ہے کہ اس عہدے پر تعیناتی کے لئے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کی جاتی ہے تاہم ڈیڈ لاک جاری رہتا ہے تو اسے حل کرنا بھی ضروری ہے۔ اب اگر اپوزیشن لیڈر نہ ہو یا وہ حکومت کا اس حوالے سے یکسر مخالف ہو اور وہ چیز تاخیر کا شکار ہو رہی ہو تو کم از کم ان حالات میں بھی سرکار کو راستہ نکالنا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی پانچ سالہ مدت ملازمت 2025ء میں ختم ہونا تھی مگر نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی تعطل کا شکار ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آئندہ تقرری ہونے تک اپنے عہدے پر کام جاری رکھ سکتے ہیں۔ اگست 2025ء کے دوران الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اس سے قبل فیصل آباد میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے نو مئی کے واقعات سے متعلق ایک کیس میں عمر ایوب کو 10سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ تاحال قومی اسمبلی میں نئے اپوزیشن لیڈر کا انتخاب نہ ہو سکا ہے اور ڈیڈ لاک برقرار ہے۔
فیلڈ مارشل کے عہدے سے متعلق تجاویز کے حوالے سے ابھی تک آرٹیکل 243میں مجوزہ ترمیم کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے مگر فی الحال یہ واضح ہے کہ فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئین میں لانا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ آرٹیکل 243 مسلح افواج کی کمانڈ سے متعلق ہے۔ اس میں درج ہے کہ صدر مملکت مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں جو وزیر اعظم کے ساتھ مشاورت سے مسلح افواج کے سربراہان کا تقرر کرتے ہیں اور ان کی تنخواہیں اور مراعات کا تعین کرتے ہیں۔ 1973ء کے آئین کے بعد پہلی بار ہوا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے آرمی چیف عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے کا اعزاز دیا ہے اور اب اسے ’’ آئینی کور‘‘ دینا ضروری ہے کہ اس عہدے کو ’’ آئین میں تسلیم کرنا چاہیے‘‘۔ بات بھی درست ہے کہ چونکہ آرمی چیف کی فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی ہو چکی ہے، اس لئے اسے آئینی جواز دینے کی ضرورت ہے۔ مگر سوال یہ بھی ہے کہ آیا آرٹیکل 243میں مجوزہ ترمیم یہیں تک محدود ہو گی، اس کے بارے میں مسودہ تیار کیے جانے کے بعد ہی پتا چل سکے گا۔ تاہم اس تجویز پر دونوں جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں ہو گا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کو آئینی تحفظ مل جائے۔ اس مجوزہ ترمیم کا فیلڈ مارشل کے عہدے سے براہ راست تعلق بھی نہیں کیونکہ یہ اعزازی عہدہ ہے۔ اصل عہدہ آرمی چیف کا ہے جس کی مدت ملازمت آرمی ایکٹ میں درج ہے۔ تاہم یہ قوی امکان ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آرمی چیف کی مدت ملازمت کو آئینی تحفظ دیا جا سکتا ہے۔ اسی بناء پر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اب کم از کم جب تک موجودہ رجیم پاور میں ہے ملک میں مارشل لاء نہیں لگے گا۔





