ColumnImtiaz Ahmad Shad

پورے ملک میں یکساں نصاب کی ضرورت

ذرا سوچئے
پورے ملک میں یکساں نصاب کی ضرورت
امتیاز احمد شاد
کسی بھی ملک کی ترقی، استحکام اور فکری یکسانیت کا دار و مدار اس کے تعلیمی نظام پر ہوتا ہے۔ تعلیم صرف روزگار کا ذریعہ نہیں بلکہ قوموں کی فکری بنیادوں کو مضبوط کرنے، اخلاقی قدروں کو پروان چڑھانے اور مستقبل کے معماروں کی تربیت کا ذریعہ ہے۔ جب ایک ملک میں مختلف طبقات کے لیے مختلف نصاب ہوں، تو وہاں برابری کے مواقع ختم ہو جاتے ہیں اور معاشرتی تقسیم گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہی صورتحال ہمارے ملک میں عرصہ دراز سے موجود ہے۔ ایک طرف سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جہاں محدود وسائل اور پرانا نصاب رائج ہے، دوسری طرف نجی تعلیمی ادارے ہیں جہاں نصاب الگ، زبان الگ اور معیار بھی مختلف ہے۔ ان دونوں کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کا ایک الگ نظام تعلیم ہے جو بالکل جدا سمت میں چل رہا ہے۔ اس تنوع نے ہمارے تعلیمی ڈھانچے کو منتشر کر دیا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پورے ملک میں یکساں نصاب کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔
یکساں نصاب کا مطلب یہ نہیں کہ سب بچے ایک ہی کتاب سے پڑھیں، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک کے ہر بچے کو تعلیم کے برابر مواقع حاصل ہوں۔ خواہ وہ کسی غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہو یا امیر طبقے سے، شہر میں رہتا ہو یا کسی دور دراز گاں میں، اس کے لیے علم کے دروازے یکساں طور پر کھلے ہوں۔ جب تک نصاب میں طبقاتی تفریق برقرار رہے گی، تب تک قوم میں فکری یکجہتی پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہی عدم یکسانیت نوجوانوں کو مختلف ذہنی اور فکری سمتوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔
ہمارے تعلیمی نظام کی موجودہ حالت یہ ہے کہ ایک ہی ملک کے طلبہ مختلف زبانوں، مختلف فکری نظریات اور مختلف اندازِ فکر کے ساتھ پروان چڑھ رہے ہیں۔ ایک طبقہ مغربی خیالات سے متاثر ہو کر اپنی شناخت کھو بیٹھتا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ جدید دنیا کے تقاضوں سے نابلد رہتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرہ دو انتہائوں میں بٹ جاتا ہے، ایک طرف وہ طبقہ جو دین سے دور مگر دنیاوی لحاظ سے مضبوط ہوتا ہے، اور دوسری طرف وہ طبقہ جو دین سے وابستہ مگر جدید علوم سے محروم رہتا ہے۔ یکساں نصاب اس خلیج کو پاٹنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
تعلیم محض کتابی علم کا نام نہیں، بلکہ کردار سازی اور شخصیت کی تعمیر کا عمل ہے۔ اگر ایک بچے کو ایسی تعلیم دی جائے جو اسے اپنی قوم، اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنے دین سے جوڑے، تو وہ ملک و ملت کے لیے اثاثہ بن جاتا ہے۔ لیکن اگر نصاب میں غیر ملکی اقدار کو بنیاد بنایا جائے اور اپنی تہذیبی شناخت کو نظرانداز کیا جائے تو وہ نوجوان اپنی جڑوں سے کٹ جاتا ہے۔ یکساں نصاب کے ذریعے ہم یہ یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہماری نئی نسل ایک مشترکہ فکری اور اخلاقی بنیاد پر پروان چڑھے۔
یکساں نصاب کے مخالفین عموماً یہ دلیل دیتے ہیں کہ مختلف اداروں کو اپنی پسند کے مطابق نصاب بنانے کی آزادی ہونی چاہیے۔ مگر یہ دلیل تب درست ہوتی اگر اس سے معاشرتی ہم آہنگی متاثر نہ ہوتی۔ جب کسی ملک میں طبقاتی بنیادوں پر تعلیم دی جائے تو قوم کے افراد کے درمیان تفریق پیدا ہوتی ہے۔ ایک طبقہ حکمرانی کے قابل سمجھا جاتا ہے اور دوسرا صرف تابع بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی جمہوری اور انصاف پر مبنی معاشرے کے لیے خطرناک ہے۔ اگر ہم ایک مضبوط، خوددار اور ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیم کے میدان میں برابری کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مختلف نصاب نہ صرف طلبہ میں ذہنی فاصلے پیدا کرتے ہیں بلکہ ان کے مستقبل کے امکانات کو بھی محدود کر دیتے ہیں۔ سرکاری اداروں کے طلبہ کو اکثر وہ مواقع نہیں مل پاتے جو نجی اداروں کے طلبہ کو میسر ہوتے ہیں۔ یہ ناہمواری ان میں احساسِ محرومی کو جنم دیتی ہے، جو بعد میں معاشرتی بے چینی اور انتشار کا باعث بنتی ہے۔ اگر پورے ملک میں نصاب یکساں ہو تو ہر طالب علم ایک ہی معیار کی تعلیم حاصل کرے گا، جس سے مقابلے کے مواقع برابر ہوں گے اور معاشرتی انصاف کو فروغ ملے گا۔
یکساں نصاب کے ذریعے قوم میں ایک مشترکہ قومی نظریہ پروان چڑھ سکتا ہے۔ جب تمام طلبہ ایک جیسے نظریات، اقدار اور قومی مقاصد سے واقف ہوں گے تو وہ ملک کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں گے۔ انہیں یہ احساس ہوگا کہ وہ سب ایک ہی مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی احساس قوموں کو متحد کرتا ہے۔ اگر ہر بچہ اپنی شناخت اور اپنے وطن پر فخر محسوس کرے تو کسی بیرونی طاقت کے لیے قوم کو کمزور کرنا ممکن نہیں رہتا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یکساں نصاب کے نفاذ کے لیے محض اعلان کافی نہیں ہوتا۔ اس کے لیے سنجیدہ منصوبہ بندی، تربیت یافتہ اساتذہ، جدید تعلیمی وسائل اور مستقل نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ نصاب صرف کتابوں میں نہ رہے بلکہ عملی زندگی میں بھی اس کے اثرات نظر آئیں۔ نصاب میں ایسی مضامین شامل کیے جائیں جو تحقیق، تخلیق، اور تجزیے کی صلاحیتیں پیدا کریں۔ اسی کے ساتھ طلبہ کو اپنی ثقافت، زبان اور مذہبی اقدار سے بھی مضبوط تعلق قائم رکھنے کی تربیت دی جائے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ یکساں نصاب کو سیاسی نعرہ نہ بنایا جائے بلکہ اسے قومی ضرورت سمجھ کر نافذ کیا جائے۔ تعلیمی پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہیے تاکہ ہر حکومت کے ساتھ نصاب تبدیل نہ ہو۔ جب نصاب بار بار بدلا جاتا ہے تو تعلیمی نظام میں بے یقینی پیدا ہوتی ہے۔ یکساں نصاب کی کامیابی اس وقت ممکن ہوگی جب تمام صوبے، تعلیمی ماہرین، اساتذہ، والدین اور طلبہ اس عمل میں شریک ہوں اور اسے قومی فریضہ سمجھ کر قبول کریں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ وہاں نصاب اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ ہر بچہ تحقیق، سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں میں آگے بڑھ سکے۔ مگر اس کے ساتھ ان کے نصاب میں اپنی زبان، تاریخ اور ثقافت کو لازمی حصہ بنایا جاتا ہے۔ ہمیں بھی یہی راستہ اپنانا ہوگا۔ اگر ہم اپنی نسلوں کو ایسی تعلیم دیں گے جو نہ صرف جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو بلکہ اپنی تہذیب سے جڑی بھی رہے، تو ہم حقیقی معنوں میں ایک مضبوط، خودمختار اور متحد قوم بن سکیں گے۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ تعلیم کا مقصد صرف امتحان پاس کرنا نہیں، بلکہ ایک باوقار، باشعور اور محبِ وطن شہری تیار کرنا ہے۔ یکساں نصاب ہی وہ ذریعہ ہے جو ہمیں اس مقصد تک پہنچا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف ہمارے بچوں کو برابری کے مواقع ملیں گے بلکہ پوری قوم ایک فکری دھارے میں جڑ جائے گی۔ ایک قوم، ایک نصاب اور ایک منزل، یہی وہ خواب ہے جس کی تعبیر ہمیں اپنے نظامِ تعلیم کے ذریعے ممکن بنانی ہے۔

جواب دیں

Back to top button