Column

پاک افواج ملکی سلامتی کی ضامن

اداریہ۔۔۔۔۔
پاک افواج ملکی سلامتی کی ضامن
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کے تازہ بیانات نے ایک بار پھر پاکستان کے داخلی و خارجی سیکیورٹی چیلنجز، افغان سرحد کے مسائل اور مسلح افواج کے کردار پر بحث کو تازہ کیا ہے۔ ان کے واضح اور سخت لہجے میں دئیے گئے پیغامات میں ایک بنیادی نقطہ بارہا دہرایا گیا، پاکستان کی سیکیورٹی کی ذمے داری اسی کی مسلح افواج کے کندھوں پر ہے اور یہ ضمانت کسی بیرونی یا غیر ریاستی انتظام کو نہیں دی جاسکتی۔ یہ موقف بلاشبہ ملکی خودمختاری کے اظہار کے مترادف ہے۔ پاکستان میں طویل عرصے سے عسکری ادارے داخلی و خارجی خطرات کے خلاف بنیادی خطِ دفاع ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق طالبان کے حوالے سے پاکستان کا رویہ متضاد نہیں بلکہ واضح ہے۔ پاکستان طالبان کی آمد پر جشن نہیں مناتا، وہ خود بھی دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے اور متعدد مقامات پر عسکری آپریشن کیے گئے ہیں۔ اس بیان کا مفہوم یہ ہے کہ ریاست دہشت گردی کے خلاف متحرک ہے اور اس کا صریح موقف ہے کہ افغان سرزمین کسی کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ تاہم مسئلہ اس بات سے زیادہ گہرا ہے کہ طالبان سمیت دیگر تنظیموں کا افغانستان میں سیاسی عروج اور وہاں سے جرائم، منشیات کی کاشت و اسمگلنگ اور دہشت گردی کے مالیاتی و عسکری روابط نے خطے کی پیچیدگی میں اضافہ کر دیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے جو نشان دہی کی کہ افیون کی کاشت اور منافع بخش کاروبار نے مقامی آبادی، وار لارڈز اور عسکری تنظیموں کو اکٹھا کر دیا ہے، وہ حقیقت پر مبنی تشویش ہے۔ یہ سلسلہ صرف سیکیورٹی کا معاملہ نہیں، یہ معاشی، سماجی اور انتظامی خلا کا نتیجہ بھی ہے، جسے صرف فوجی کارروائی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جب معاشی مواقع نہ ہوں اور حکومت کی موجودگی محدود ہو، تو مجرم اور دہشت گرد گروہ سماجی رابطے اور مالی وسائل کے ذریعے طاقت حاصل کر لیتے ہیں۔ اس لیے مستقل حل میں معاشی و انتظامی استحکام، تعلیم، متبادل روزگار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موثر شمولیت ضروری ہے۔ دوسری اہم بات کہ سرحدی کنٹرول اور افغان حکومت ( یا طالبان رجیم) کے رویے کے حوالے سے جو خدشات ترجمان پاک فوج نے ظاہر کیے، اُنہیں انتہائی سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ بیانیے میں بار بار کہا گیا کہ افغان سرحدی گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کروانے میں سہولت فراہم کرتے یا پاکستانی چوکیوں پر فائرنگ کرتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان کی جانب سے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، سرحدی تعاون ناکافی ہے اور سرحد پار خطرات کی روک تھام کے لیے دوطرفہ یا کثیرطرفہ میکانزم لازمی ہیں۔ پاکستان کی طرف سے خود حفاظتی اقدامات سمجھ میں آتے ہیں مگر ایسے اقدامات وقتی ہوتے ہیں جب تک جامع سفارتی کوششیں، بین الاقوامی تعاون اور علاقائی سطح پر کنٹرول کے موثر طریقے نہ اپنائے جائیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا ڈرونز اور امریکا سے معاہدے کے بارے میں موقف واضح اور اصولی تھا۔ پاکستان کا امریکی یا کسی اور کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں کہ ڈرونز پاکستان سے افغانستان جائیں۔ پاکستان سے افغانستان پر امریکی حملوں کا انہوں نے واضح رد کیا۔ یہ بیان اس حسّاس مسئلے پر شکوک و شبہات کو دُور کرنے کی کوشش ہے، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ ڈرون آپریشنز اور سرحد عبور کے واقعات کو اکثر سیاسی و سیکیورٹی رَازوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس معاملے میں شفافیت اور حکومتی جواب دہی ضروری ہے تاکہ عوامی اعتماد بحال رہے اور غلط فہمیوں کو روکا جاسکے۔ ترجمان پاک فوج نے واضح کیا کہ فوج کا اندرونی عہدہ تخلیق کرنا حکومت کا اختیار ہے اور غزہ میں فوج تعینات کرنے یا دیگر خارجہ عمل کے حوالے سے بھی عسکری موقف سے الگ فیصلے وفاقی حکومت کے قائمہ اختیار ہوں گے۔ یہ سویلین حکمرانی اور عساکر کی حدود کا اشارہ ہے۔ ایک اور قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی، منشیات اور جرائم پیشہ گروہوں کے باہمی روابط صرف سیکیورٹی اداروں کی کارروائی سے ختم نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے اسٹیٹ کے متعدد اداروں کا مشترکہ، مربوط اور طویل المدتی منصوبہ درکار ہے۔ صحت مند سرحدی پالیسی، باقاعدہ معاشی منصوبہ بندی، علاقائی تعاون اور منشیات کی روک تھام کے عالمی نظام سے اشتراک ضروری ہے۔ اس کے بغیر سرحدی چوکیوں اور انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز وقتی کامیابی دیں گے مگر نظامی طور پر خطرات برقرار رہیں گے۔ آخر میں، ریاست کا بنیادی فرض اپنے شہریوں کی حفاظت ہے اور مسلح افواج اس کی ضامن ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان نے سیکیورٹی کے سنگین خطرات کی ایک جامع تصویر پیش کی ہے، اس سے بہتر طریقے سے عہدہ برآ ہونی کے لیے فوجی عزم کے ساتھ، سول حکمتِ عملی، بین الاقوامی تعاون اور علاقائی ڈپلومیسی کی بھی اُتنی ہی ضرورت ہے۔ پاکستان نے یہی راستہ اپنایا ہوا ہے، مگر افغانستان کی جانب سے مسلسل غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ افغانستان کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی مقاصد کے لیے کسی طور استعمال نہیں ہونے دینی چاہیے اور اس حوالے سے اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔
شذرہ۔۔۔۔
منشیات کی روک تھام، سنگین چیلنج
پاکستان میں منشیات کی اسمگلنگ سنگین مسئلہ بن چکا، گزشتہ روز اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کی جانب سے کیے جانے والے انسداد اسمگلنگ آپریشنز نے ایک بار پھر اس مسئلے کی سنگینی کو اجاگر کیا ہے۔ مختلف شہروں میں کی جانے والی کارروائیوں میں وافر منشیات کی برآمدگی اور متعدد ملزمان کی گرفتاری نے ثابت کردیا کہ منشیات کی اسمگلنگ منظم اور پیچیدہ نیٹ ورک کے تحت چل رہی ہے۔ اے این ایف کی حالیہ کارروائیوں کے دوران 2کروڑ 97 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی 37کلوگرام منشیات برآمد کی گئی، جن میں آئس، ہیروئن اور چرس شامل ہیں۔ یہ برآمدگیاں کراچی، کوہاٹ اور چوساک جیسے علاقوں سے کی گئیں۔ پاکستان، جو ایک اہم عالمی تجارتی راستے پر واقع ہے، عالمی سطح پر منشیات اسمگلنگ کے مرکزی راستوں میں شامل ہے۔ افغانستان کی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے ملک میں منشیات کی اسمگلنگ بڑا مسئلہ بن چکا۔ عالمی ادارے بھی بار بار پاکستان میں منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کیے گئے اقدامات قابل تحسین ہیں۔ پاکستان میں منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف انسداد منشیات ایکٹ 1997کے تحت کارروائیاں کی جارہی ہیں، جو مثبت قدم ہے۔ اس قانون کے تحت منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں، تاکہ انہیں اس غیر قانونی سرگرمی سے باز رکھا جاسکے۔ تاہم، اس قانون کے نفاذ میں بعض اوقات مشکلات پیش آتی ہیں، خاص طور پر جب اسمگلنگ کے نیٹ ورک میں شامل افراد عالمی سطح پر منسلک ہوں اور ان کے پاس وسائل کی کمی نہ ہو۔ صرف قانون کے نفاذ سے اس مسئلے کا مکمل حل ممکن نہیں۔ عوامی سطح پر آگہی اور تعلیم کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ نوجوان نسل کو منشیات کے نقصانات سے آگاہ کرنا اور انہیں ان برائیوں سے بچانے کے لیے اسکولوں اور کالجوں میں خصوصی پروگرامز کا انعقاد کرنا چاہیے۔ اگر نوجوانوں کو ابتدائی عمر سے ہی منشیات کی تباہ کاریوں کا شعور ہوگا، تو وہ اس سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان میں منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف جنگ میں بین الاقوامی تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ پیچیدہ اور عالمی مسئلہ ہے جس کا حل صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں تک محدود نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے، تعلیمی ادارے اور عوامی سطح پر مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ انسداد منشیات کے لیے جامع حکمت عملی اپنانا اور اس مسئلے کے بارے میں عوام میں شعور پیدا کرنا اہم ہے۔

جواب دیں

Back to top button