شہر قائد اور ای چالان

شہر قائد اور ای چالان
تحریر: مشتاق الرحمان زاہد
شہر قائد جسے منی پاکستان بھی کہا جاتاہے کراچی کے نام سے موسوم یہ شہر ملکی معیشت کا حب بھی کہلاتا ہے سب سے زیادہ ریونیو بھی اسی شہر سے ملکی خزانے میں جمع ہوتی ہے گویاں آپ اسے ملکی خزانہ بھی کہہ سکتے ہیں کسی زمانے میں یہ شہر دارالحکومت بھی کہلاتا تھا مگر شومئی قسمت کہ وہ اعزاز بھی نامعلوم وجوہات کی بناء پر چھن گیا۔ اس شہر کی خوبصورتی یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ صوبہ سندھ کا دارالخلافہ ہے مگر یہاں تمام صوبوں کے عوام بستے ہیں اور برابری کی بنیاد پر کاروباری شراکت داری بھی رکھتی ہے اگر اسے پوری پاکستانی قوم کا مرکز کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کیونکہ صوبہ پنجاب، صوبہ بلوچستان، صوبہ خیبرپختونخوا ، حتی کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی قوموں نے یہاں بسیرا کر رکھا ہے لیکن ان تمام خصوصیات اور خوبیوں کے باوجود اس شہر کو کبھی ترقی نہ ملی ہمیشہ بدقسمتی کا شکار رہا کبھی تعصب کی بنیاد پر کبھی لسانیت کبھی فرقہ واریت کبھی کسی بناء پر اس شہر کے امن کو ختم کیا گیا، یہاں کے باسی امن کو ترس گئے، مزید برآں اس بین الاقوامی شہر میں عوام کی بنیادی ضروریات بھی ناپید ہیں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں پانی اور گیس کی قلت بجلی کی عدم فراہمی اس کے ساتھ ساتھ اسٹریٹ کرائم جواب اس شہر کا خاصہ بن گیا ہے، قتل و غارت، چوری ڈکیتی، لوٹ مار یہاں کوئی معنی نہیں رکھتا، ان سب مشکلات کے بعد شہریوں پر ایک اور بم برسایا گیا ہے ای چالان کے نام سے۔ مسائل کے دلدل میں پھنسی ہوئے عوام کو مزید ڈبونے کی مکمل تیاری کی جارہی ہے۔ قصور اس شہر صرف یہ ہے کہ اس نے ملک ترقی میں ہمیشہ نمایاں اور صف اول کا کردار ادا کیا جب بھی ملک پر کوئی مصیبت یا پریشانی آپڑی، اس شہر کے باسیوں نے اس کے خاتمے میں حتی الامکان کوششیں کیں اور سب سے پیش پیش رہے۔ اب ای چالان کی صورت میں جو نئی مشکل پیش آئی ہے اس نے کراچی کے شہریوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے، جس شہر میں لوگ دال روٹی کیلئے شب و روز محنت مزدوری کر کے مشکل سے اپنا ماہانہ خرچہ پورا نہیں کر پاتے وہ بیس، بیس ہزار روپے کے چالان کہاں سے ادا کرینگے، جس شہر کی سڑکوں پر ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے سفر کرنا مشکل ہو، بے ہنگم ٹریفک نے اس کو جام کر دیا ہو، اسپتالوں تک مریضوں کی رسائی محال ہوگئی ہو، مریض سر راہ دم توڑ رہے ہوں، اس پر تو کوئی خاطرخواہ توجہ نہ دی گئی کہ دنیا کے اس بڑی آبادی والے شہر کو کیسے ترقی یافتہ کیا جائے لیکن اس برعکس عوام پر بوجھ ڈالا جا رہاہے اور ان کی زندگی مزید اجیرن کردی گئی ہے۔ ای چالان ایک معقول سسٹم ہے، اس سے ٹریفک کنٹرول کرنے اور قوانین کو لاگو کرنے میں ضرور مدد ملے گی لیکن کوئی مناسب طریقہ کار اور مناسب چالان بھیجنے ہونگے اور سب سے پہلے شہر کی سڑکوں کو قابل سفر بنانا ہوگا، جو چالان صوبہ پنجاب کے لاہور میں دو سو روپے ہوتا ہے اسی چالان کو کراچی میں پندرہ اور بیس ہزار کر دیا گیا ہے۔ ایک ملک میں دو الگ الگ قوانین کے کیا معنی۔ صوبے ضرور الگ الگ ہیں مگر تھوڑی بہت گنجائش ہے کہ چالانوں میں فرق رکھیں، لیکن ایک شہر کے دو سو اور پانچ سو روپے والے چالانوں کو دوسرے شہر میں پانچ دس اور بیس ہزار کا چالان بناکر پیش کیا جائے، اس عمل سے کراچی کی ساکھ متاثر ہوگی۔ عوام کیلئے یکساں اور آسان پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ ای چالان کے عمل درآمد سے پہلے لائسنس کا سہل اجرا، گاڑی کے مالکانہ حقوق کی ٹرانسفر کے لئے کوئی ای پالیسیاں بنائی جائیں اور اس عمل کو اس قدر آسان تر کیا جائے کہ کوئی بھی شہری اس کو فالو کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کے شہری انتظامیہ کی جانب سے تربیتی اجتماعات منعقد کئے جائیں، جس میں ہیلمٹ، سیٹ بیلٹ اور دیگر ضروری امور پر تربیت بھی دی جائے اور ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کیلئے انہیں موثر طریقے سے قائل کیا جائے، جس سے بہتر نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔





