صحافت بوجھ کیوں ؟

صحافت بوجھ کیوں ؟
تجمّل حسین ہاشمی
چھوٹے شہروں اور گائوں کے صحافی جن حالات سے گزرتے ہیں، ان کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ آج کل بڑے شہروں میں صحافیوں کی زندگیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ان کو بھی خطرات کا سامنا ہے، یہ خطرات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں، کرپشن، قبضہ مافیا اور دو نمبر لوگوں کی شرح میں اضافہ ہے، اس کی بنیادی وجہ ملک کی لا اینڈ آرڈر صورتحال پہلے سے بہت خراب ہے۔ سوشل میڈیا نے معاشرے کی قدروں کو بہت خراب کر دیا ہے۔ سینئر اینکر رئوف کلاسرا کہتے ہیں ’’ صحافی، ڈاکٹر اور پولیس والوں کی زندگی بہت کم ہوتی ہے، یہ جلدی دل کے مریض بن جاتے ہیں‘‘۔
کلاسرا صاحب بات اور موجودہ حالات کو بخوبی جانتا ہوں کیوں میں کئی شر انگیزیوں اور دھمکیوں کا شکار رہا ہوں۔
سینئر صحافی رئوف کلاسرا نے صحافی ارشد شریف کی شہادت پر ایک تحریر لکھی، کیوں کہ گزشتہ دنوں پہلے ارشد شریف کی تیسری برسی تھی۔ 2022ء میں ارشد کو کینیا میں پراسرار حالات میں قتل کر دیا گیا، پاکستان سے بہت دور ایسی جگہ جہاں کوئی اس کا کوئی اپنا قریبی نہیں تھا، کوئی رونے والا نہیں تھا، کوئی دکھ سننے والا نہیں تھا۔ وہ سال پاکستان کے لیے بھی ایک ہنگامہ خیز سال تھا، مگر ارشد شریف کی موت نے کئی ناخوشگوار حقائق کو نمایاں کر دیا۔ ہمارے ملک میں ایسی صورتحال، خاص کر صحافیوں کی موت پر بہت کم دیکھی گی۔ غم اور خوف کے علاوہ، ان کے قتل نے صحافت، انصاف اور ذمہ داری پر کئی سوالات کو بھی جنم دیا۔ یہ بات کہنا شاید بہت عام لگے، مگر پاکستان جیسے ملک میں جب کوئی صحافی مارا جاتا ہے، وقتی شور نظر آتا ہے لیکن اکثر تحقیقات نامکمل رہتی ہے، انصاف میسر نہیں ہوتا اور کوئی جواب دہ نہیں بنتا۔ ہمارے ہاں صحافیوں پر حملے دو طرح کے لوگ کرتے یا کراتے ہیں، ایک وہ لوگ جو سیاسی جماعتوں میں بیٹھ کر سرکاری خزانے اور ملک کو نقصان دیتے ہیں اور دوسرے عام غنڈے، مافیاز جن کا کام شہریوں کی حق تلفی کرنا ہے اور حق کی آواز اٹھانے والوں کو سخت نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
کئی سال سے پاکستان میں صحافیوں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ کئی کو مار دیا جاتا ہے، کچھ کو لاپتہ بھی کیا گیا، اور باقیوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے صحافیوں کے لیے صورتحال اور بھی خطرناک ہے۔ ان صوبوں میں شدت پسند گروہ اور سیاسی جماعتوں میں بیٹھے مافیا بھی انہیں نشانہ بناتے ہیں۔ ارشد شریف کی موت ایک فیصلہ کن موڑ محسوس ہوئی۔ وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ وہ ایک مشہور نام تھا، بلکہ اس لیے بھی کہ اس کا قتل ایک ایسے فلمی انداز کی طرح پیش آیا جس کے ہر منظر میں خوف، سیاست اور پراسراریت گھلی ہوئی تھی۔ ایف آئی آرز، ان کے خطوط، ملک سے فرار نے اس سانحے کو ایک عالمی سطح کی خبر بنا دیا۔
ارشد شریف سے پہلے بھی ایک صحافی سویڈن میں لاپتہ ہوئے اور مردہ پائے گئے، مگر ان کے بارے میں زیادہ شور نہیں مچا ۔ ارشد شریف کا معاملہ مختلف تھا، ان کا نام اور اثر ملک میں زیادہ تھا۔ وہ کئی برس سے بھر پور ذمہ داری کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ اب پاکستان میں صحافت کے لیے خطرات سرحدوں سے کہیں آگے بڑھ چکے ہیں، گلی محلوں میں سچ بولنے والوں، لکھنے والوں کی سپاری دی جاتی ہے، دن رات خطرات کا سامنا ہے۔ آج کے دور میں کسی بھی صحافی کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں بچی۔ بہت سے سینئر صحافی ملک چھوڑ چکے ہیں یا خاموش ہو گئے ہیں۔ علاقائی اور کمزور صحافیوں کیلئے کوئی آسان راستہ نہیں بچا۔ گزشتہ سال کے دوران صحافیوں پر ہراسانی اور حملوں کے کئی واقعات ہوئے ۔ مطیع اللہ جان اور اسد طور کی مثالیں موجود ہیں، یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ صحافیوں سے اکثر دوست، رشتہ دار بھی فاصلہ اختیار کرنے لگتے ہیں، کیونکہ سب کو خطرہ محسوس ہوتا ہے، کہیں مافیا ان کی سپاری نہ پکڑ لے۔ آج کل بڑے شہروں میں بھی صورتحال اور زیادہ خراب ہے۔ اسلام آباد یا کراچی کے برعکس، چھوٹے شہروں، دیہاتوں کے صحافیوں کے پاس کوئی تحفظ نہیں ہے، نہ قانونی مدد، ان کی آواز بھی مدھم ہی رہتی ہے۔ صحافیوں پر حملے کو ’’ پیشہ ورانہ ذمہ داری کا تقاضا سمجھ کر برداشت کی تلقین کی جاتی ہے ‘‘ یا پھر انہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ’’ بس بہتر لکھو، ان قبضہ خوروں، مافیاز کے خلاف مت جائو‘‘۔ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ وہ اپنی جان پر کھیل کر عوام کے حق میں آواز اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ وہی حقیقی ہیرو ہیں۔ قومی خزانہ، علاقائی امن اور اداروں کے مدد گار بھی یہی صحافی ہیں ۔ کئی صورتحال میں صحافی اپنی جگہ درست ہوتے ہیں، مطیع اللہ جان کا کیس سامنے ہے۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ پولیس پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دے رہے تھے اور ان کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کر دی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاید یہ واقعات فراموش کر دئیے جائیں، لیکن صحافیوں کے لیے خطرات اور ان کی جدوجہد ہمیشہ زندگی کے ساتھ جاری رہتی ہے۔
ہمارے ملک میں جب کسی صحافی پر ظلم ہوتا ہے تو آوازیں اٹھتی ہیں، لیکن جلد ہی خاموش ہو جاتی ہیں۔ ارشد شریف کے معاملے میں بھی تحقیقات، کمیشن اور رپورٹیں آئیں، مگر حقیقت اب بھی دھند میں لپٹی ہوئی ہے۔
آخر میں کہنا یہ ہے کہ جب تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جائیں گے اور صحافیوں کی حفاظت یقینی نہیں بنائی جائے گی، صحافت کا یہ بوجھ یونہی بھاری سے بھاری ہوتا جائے گا۔ انصاف کی فراہمی کو بروقت اور یقینی بنایا جائے۔ صحافی عام آدمی کی آواز بنتا ہے، قبضہ مافیا، کرپشن کے خلاف کھڑا رہتا ہے، لیکن حکومتی سطح پر اس کو قانونی سپورٹ کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ حکومت وقت کو ایسے ناروا سلوک کی روک تھام کرنی چاہئے اور صحافیوں کے حقوق کے لیے اداروں کو ساتھ کھڑا رہنا چاہئے۔







