مایوسی، افسردگی اور پژمردگی
مایوسی، افسردگی اور پژمردگی
شہر خواب۔۔۔
صفدر علی حیدری
جدید دور نے انسان کو بے شمار سہولیات دی ہیں، مگر ساتھ ہی ایک خاموش اور گہرا دشمن بھی پیدا کیا ہے: مایوسی، افسردگی اور پژمردگی۔
انسان آج ایسے ماحول میں جیتا ہے جہاں دکھاوا، بناوٹ، اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ نے اس کی روح پر چھاپ چھوڑ دی ہے۔
ہر انسان اپنے مقام، دولت یا شہرت میں دوسروں سے آگے نکلنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ دل اور جسم چاہے تھک جائیں، مگر وہ رکنے کو تیار نہیں۔
جو کچھ ملا، اس پر قناعت نہیں کی جاتی، صبر اور قناعت کا جذبہ ناپید ہے، اور شکر کا کلمہ ادا کرنا یاد ہی نہیں رہتا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں: ’’ وقت سے پہلے اور نصیب سے زیادہ کسی کو نہیں ملتا‘‘۔
رزق کی تنگی اور مالی مشکلات داخلی اضطراب کو بڑھا دیتے ہیں، اور جو رزق کی کمی نہیں، اسے اپنے خواب اور خواہشات چین نہیں لینے دیتے۔ خواہشات کی انتہا اور مادہ پرستی انسان کو اپنے اصل سکون سے دور کر دیتی ہیں۔شیخ سعدیؒ نے بجا فرمایا: ’’ دانت اللہ کی نعمتیں کھا کھا کر تھک مگر زبان نے شکر کا کلمہ پڑھنا نہیں سیکھا‘‘۔
یہ انسانی کمزوری اکثر مایوسی، افسردگی اور پژمردگی کی جڑ بنتی ہے۔
ان کیفیتوں میں انسان یوں محسوس کرتا ہے: ہر دن بوجھل اور بے چین لگتا ہے، ہر لمحہ اضطراب کے سائے میں گزرتا ہے۔ ہم بڑی خوشیوں کی چاہ اور انتظار میں ان چھوٹی خوشیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو ہمیں کچھ لمحوں کے لیے ملتی ہیں۔
ہنس لیں، خوش ہو لیں، بالکل اس تھکے ہوئے مسافر کی طرح جو منزل کی طرف جاتے ہوئے کہیں کوئی شجر سایہ دیکھے تو کچھ دیر سستانے کے لیے اس کے سائے میں بیٹھ جاتا ہے۔
چھوٹی خوشیوں میں مزہ نہیں آتا، دوسروں کی خوشیوں میں شریک نہیں ہو پاتا۔
گھر کا ماحول سکون بخش نہیں رہتا، بیوی اور بچوں کی توقعات بھی بوجھ محسوس ہوتی ہیں۔
دل خاموش درد میں ڈوبا رہتا ہے، اور رات کے اندھیروں میں ہر خوف اور فکر زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
انسان کے اکثر مسائل رزق کی تنگی کی وجہ سے بھی پیدا ہوتے ہیں، اور جس کو رزق کی کمی نہیں، اسے اپنے خواب اور خواہشات چین نہیں لینے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی دل کو حقیقی سکون نہیں ملتا، اور واقعی یہی کیفیت اکثر انسان کو اندر سے پژمردہ کر دیتی ہے۔
کبھی سنگ ریزے کے تحت لکھا تھا’’ سکون کی تلاش مجھے سکون سے جینے نہیں دیتی‘‘۔
یہ انسانی اندرونی تضاد کی خوبصورت تصویر ہے: ہم سکون چاہتے ہیں مگر اسے حاصل کرنے کی حقیقت کو پہچان نہیں پاتے۔
ان کیفیت سے نکلنے کے لیے چند عملی اور روحانی اقدامات مددگار ہیں
توکل اور یقین: ہر مشکل میں اللہ پر بھروسہ رکھنا اور یہ سمجھنا کہ ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔
قناعت اور شکر: جو کچھ ملا، اس پر مطمئن رہنا اور شکر ادا کرنا۔ یہ دل کی توانائی بڑھاتا اور اضطراب کم کرتا ہے۔
اللہ کی یاد اور اولیاء کی صفت: حقیقی اولیاء وہ ہیں جو اللہ کی یاد میں مطمئن رہتے ہیں، نہ رنج محسوس کرتے ہیں اور نہ خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہی دل کی حقیقی سکون اور اطمینان ہے۔
معاشرتی تعلقات: دوست، خاندان اور ہمدرد لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا، اپنی کیفیت اور جذبات کا اظہار کرنا۔صحت اور نیند: جسمانی اور دماغی صحت کا خیال رکھنا، نیند، خوراک اور ورزش کو معمول میں رکھنا۔
تخلیقی مشغلے اور رویوں کی تبدیلی: چھوٹی کامیابیوں پر خوش ہونا، دوسروں کی مدد کرنا، اور اپنے دن میں مثبت لمحات پیدا کرنا۔
یہ سب طریقے انسانی دل و دماغ کو دوبارہ چین اور اطمینان سے جوڑتے ہیں، اور زندگی کو جینے کے قابل بناتے ہیں۔اب آخر میں میرا افسانچہ پیش خدمت ہے۔
موڈ
افسانچہ ۔۔۔
’’ جانتی تھی ڈاکٹر صاحب کے آگے آپ کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلے گا، جبھی تو ساتھ گئی تھی۔ آپ کو آپ سے زیادہ جانتی ہوں میں۔ آپ کی ایک ایک عادت، آپ کے مزاج کا ایک ایک پہلو حتی کہ کس وقت آپ کیا سوچتے ہیں، سب کچھ پوری تفصیل سے انہیں بتایا‘‘۔ انہوں نے بھی تو متاثر ہو کر کہا: ’’ ماہر نفسیات تو آپ کو ہونا چاہیے تھا۔ موڈ بہتر کرنے والی دوائی آپ کو بالکل پہلے جیسا بنا دے گی‘‘۔
الفاظ اس کے ہونٹوں تک آتے آتے حرف حرف بکھر گئے۔
’’ تمہیں کب احساس ہو گا کہ موڈ دوائیوں سے نہیں بہتر، رویوں سے بہتر ہوتا ہے‘‘۔





