سیاسی رہنمائوں کو عوام سے دور رکھنے کی تاریخ

سیاسی رہنمائوں کو عوام سے دور رکھنے کی تاریخ
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
پاکستان کی سیاسی تاریخ سیاست دانوں کو قید و بند میں رکھنا نئی بات نہیں۔ ماضی کی طرف دیکھیں تو ایوب خان کے خلاف تحریک کے دوران ذوالفقار علی بھٹو، ایئر مارشل اصغر خان، نواب زادہ نصر اللہ خان اور کئی سیاسی رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا تاہم وہ زیادہ عرصہ تک جیلوں میں نہیں رہے، البتہ شیخ مجیب الرحمان کو اگر تلہ سازش کیس میں دو سال تک جیل میں رکھا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو اپنے مخالفین کو آزاد کشمیر میں دالائی کیمپ میں رکھا اسی طرح چودھری ظہور الٰہی کو بھینس چوری کے مقدمہ میں بلوچستان کی مچھ جیل میں بھیج دیا۔ بھٹو نے ظہور الٰہی کو جیل میں مارنے کی خواہش ظاہر کی تو گورنر بلوچستان نواب اکبر خان بگٹی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا چودھری ظہور الٰہی ان کا مہمان ہے۔ اسی طرح خان عبدل ولی خان، سردار شیر خان مزاری، سردار خیر بخش مری او ر اختر مینگل کے والد کو جیل میں رکھا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو حیدر آباد ٹریبونل میں گرفتار تمام سیاسی رہنمائوں کو رہا کر دیا۔ جماعت اسلامی کے بانی حضرت مولانا مودودی اور مولانا عبدالستار خان نیازی کو موت کی سزائیں سنائی گئیں، آخر انہیں رہا کرنا پڑا۔
اب پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو جیل میں دو سال سے زیادہ وقت ہو گیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی اقتدار کے دوران کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکے، البتہ اپنے خلاف مقدمات میں تمام سیاسی رہنمائوں سے سبقت لے گئے ہیں، گویا انہوں نے اپنے خلاف مقدمات کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ایک، دو مقدمات میں عمران خان کو سزا ہو چکی ہے، ابھی بہت سے مقدمات باقی ہیں جن کا فیصلہ ہونا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے خلاف مقدمات کی سماعت ضلعی عدالتوں کی بجائے سینٹرل جیل میں ہوتی رہی، اب پنجاب حکومت نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے بانی کے خلاف مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جیل میں مقدمات کی سماعت کے دوران عمران خان میڈیا کے لوگوں سے بات چیت کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکال لیا کرتے تھے، اس دوران پارٹی رہنمائوں سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی، لیکن تازہ ترین احکامات کے بعد جب وہ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے، نہ تو ان کی ملاقات پارٹی رہنمائوں نہ ہی میڈیا کے لوگوں سے ہو سکے گی۔ مجھے یاد ہے میاں نواز شریف، مریم نواز اور شہباز شریف اپنی گرفتاری کے دوران میڈیا کے لوگوں سے بات چیت آسانی سے کر لیا کرتے تھے، جس سے اگلے روز اخبارات میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ ان کی خبریں شائع ہوتی تھیں۔ عمران خان سیاسی میدان میں طفل ناداں ثابت ہوئے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کے دوران قومی اخبارات کے مالکان سے ان کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے، نہ ہی میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے راہ و رسم قائم کر سکے۔ گو عمران خان کی کوریج پر کسی نہ کسی طریقہ سے قدغن ہے، البتہ بعض یوٹیوبر ان کی خبروں کو عوام تک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تعجب ہے بانی پی ٹی آئی سے حکومت اس قدر خوفزدہ ہے کہ پارٹی رہنمائوں سے ملاقات دور کی بات، ان کے اہل خانہ کو ملاقاتوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ عمران خان بھی بڑے مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، اگرچہ ان کے مخالفین ان کے خلاف اس بات کا پرچار کرتے ہیں کہ وہ قید و بند میں ہمت ہار چکے ہیاں۔ ایک بات واضح ہے قید و بند کی مشکلات ان کا حوصلہ پست نہیں کر سکیں۔ عجیب تماشہ ہے عمران خان کے ساتھ پی ٹی آئی کے بے شمار رہنما ملاقاتیں کر چکے تھے کہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے ساتھ ملاقات میں پرزن رول 265رکاوٹ بن گیا۔ عجیب تماشہ ہے عدالتوں کے احکامات کو بے وقعت کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ ملک کا وزیراعظم ایک سیاسی رہنما سے اس کی پارٹی کے رہنما کی ملاقات کرانے میں بے بس ہے۔ کے پی کے عوام اور سیاسی رہنمائوں کی اصول پسندی کو ہم داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے، وزیراعلیٰ کے الیکشن کے موقع پر کوئی قوت پی ٹی آئی کے اراکین کو توڑ نہیں سکی، جس کے نتیجے میں سہیل آفریدی بھاری اکثریت کے ساتھ اپنے صوبے کا وزیراعلی منتخب ہو گئے۔ گو سہیل آفریدی نوجوان ہیں، چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ کے مقابلے میں کم عمر ہیں، تاہم انہیں جذبات کی لہر سے نکل کر بیانات دینے ہوں گے، اگر وہ اسی روش پر چلتے رہے تو ان کے لئے مشکلات ہو سکتی ہیں۔ وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کا واحد مقصد صوبے اور عوام کی خدمت ہے اور خصوصا صوبے کو دہشت گردی کے عنصر سے پاک کرنا مقصود ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے انہیں ملکی اداروں کے ساتھ مل بیٹھنا ہوگا، جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وہ اپنے قائد کی رہائی کیلئے بھرپور کوشش کریں، جس انداز سے وہ جدو جہد کر رہے ہیں شائد اس میں کامیابی کے امکانات کم ہیں، لہذا اگر وہ دھیرے دھیرے چلتے رہے اور عوامی مسائل کو حل کرنے کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اداروں سے مل کر جدوجہد کو اپنا مطمع نظر بنائیں گے تو وہ دن دور نہیں جب وہ اپنی منزل پا لیں گے۔ اگر وہ اسی طرح جذبات کی لہر میں تقاریر کرتے رہیں گے تو معاملات سدھرنے کی بجائے بگڑنے کا امکان ہے۔ یہ بات تمام سیاسی جماعتوں کے علم میں ہے اقتدار کی کنجی کس کے پاس ہے، لہذا وزیراعلیٰ صاحب آپ کو قدم قدم سوچ کر رکھنا چاہیے، ورنہ اقتدار کانٹوں کی سیج ہے، جس سے عہدہ برآ ہونا کوئی آسان نہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی کی آدھی قیادت جیلوں میں ہے، پارٹی ورکرز کی بہت بڑی تعداد قید و بند میں ہے یا پھر مقدمات کا سامنا کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ صاحب آپ پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے، آپ کو صوبے کے عوام کے مسائل کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے، جس کا خاتمہ ہر ممکن ضروری ہے۔ وزیر اعلیٰ کو بانی پی ٹی آئی اور مقتدر حلقوں کے درمیان مصالحتی کردار ادا کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، تاکہ سیاسی درجہ حرارت کم ہونے میں مدد مل سکے۔





