قطر میں ناکامی کیوں ہوئی

کالم :صورتحال
قطر میں ناکامی کیوں ہوئی
تحریر:سیدہ عنبرین
مسلم امہ کے ملک اپنے مسائل کے حل کیلئے سعودی عرب کی طرف دیکھنے میں حق بجانب تھے۔ تیل کی دولت سے مالا مال ملک کی صرف ایشیا میں نہیں بلکہ امریکہ و یورپ کیلئے بہت اہمیت تھی، تیل سب کی ضرورت تھا اور ان ممالک کی فیکٹریوں میں تیار ہونے والا اسلحہ اسلامی ملکوں کی ضرورت تھا، یوں امریکہ اور یورپ مسلمانوں کے روحانی مرکز کے قریب ہوتے چلے گئے، اتنے قریب کہ انہوں نے بعض اسلامی ممالک سے زیادہ سعودی عرب کی قربت حاصل کر لی، اس کی ایک وجہ بادشاہت بھی ہو سکتی ہے، جہاں فرد واحد یا زیادہ سے زیادہ خاندان کے چند افراد اہم فیصلے کرنے پر قادر ہوتے ہیں، ان کے مقابلے میں جمہوری ممالک میں مختلف قسم کی جمہورتیں نافذ ہیں، کہیں صدارتی نظام تو کہیں پارلیمانی نظام، کہیں جمہوریت کے سر پر ڈکٹیٹر شپ سوار، تو کہیں جمہوری اداروں کے سربراہوں کا رویہ ڈکٹیٹروں کو مات کرتا نظر آتا ہے، جہاں جہاں بادشاہت ہے وہاں ون ونڈ آپریشن کچھ سہولتیں بھی مہیا کرتا ہے۔ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں میں بیوروکریسی رکاوٹیں کھڑی نہیں کرتی، نہ ہی اپنا حصہ وصول کرنے والے لائن بنائے کھڑے نظر آتے ہیں۔ عالمی طاقتیں اس نظام سے معاملات طے کرنے میں سہولت محسوس کرتی ہیں۔ سعودی عرب کے بعد قطر کو اہمیت حاصل ہوئی۔ قطر کے حکمران خاندان نے تیل اور گیس کے ذخائر سے مالی فوائد حاصل کرنے کے علاوہ اسے سفارتکاری کیلئے موثر انداز میں استعمال کیا اور مسلمان ممالک کے ساتھ ساتھ امریکہ، یورپ، افریقہ اور ایشیائی ممالک کو بھی اپنی اہمیت کا احساس دلایا۔ آج خطے میں ہر متحارب قوت کو ایک میز پر بٹھانے، مذاکرات کیلئے سہولتیں پہنچانے اور تصیفے تک لے جانے کا معاملہ درپیش ہو تو قطر کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جنہیں قطر کا بڑھتا ہوا سیاسی کردار اور قد کاٹھ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ قطر پر اسرائیل کا حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، قطر نے پاکستان اور افغانستان کے مابین تنازعے کو حل کرنے میں اہم کوششیں کیں، جبکہ اسرائیل، فلسطین جنگ بند کرانے اور قیام فلسطین کیلئے کی جانے والی قطری کوششیں بھی قابل تعریف ہیں۔
عالمی امن کیلئے جہاں قطر کی کوششوں کو سراہا جاتا ہے، وہا ں کہیں کہیں ایسی کوششیں بھی نظر آتی ہیں کہ کسی بھی بڑے الجھے ہوئے عالمی مسئلے کے حل کا کریڈٹ قطر کی جھولی میں نہ آئے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے پیچھے کچھ ایسے چہری ہیں جنہوں نے ان مذاکرات کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا، جس پر ان مذاکرات کیلئے پاکستانی ٹیم تبدیل کردی گئی۔ قطر میں پاکستانی ٹیم کی سربراہی وزیر دفاع کر رہے تھے، جبکہ اس ناکامی کے بعد مذاکرات کا دوسرا رائونڈ ترکیہ میں ہوا، جہاں پاکستانی ٹیم کی قیادت خاکی کرتے نظر آئے، جن کی کوششوں سے تلخی میں کمی آئی اور کم از کم ایسے فریم ورک پر اتفاق ہو گیا جس سے حالات میں بہتری آنے کی توقعات کی جاسکتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ کریڈٹ جنرل شہباز اور ان کی ٹیم کا ہے جنہیں یقیناً وزارت خارجہ کی معاونت حاصل ہو گی۔
پاکستان اور افغانستان میں موجود بگاڑ کو سمجھنے کیلئے کچھ واقعات پر نظر ڈالیں تو معاملہ با آسانی سمجھ آتا ہے۔ اسرائیل نے ایران پر حملے کا جواز پیش کیا کہ وہاں ان کے دشمن موجود تھے، اسرائیل نے قطر کے اندر حملہ کرنے کے بعد کہا کہ قطر میں ان کے مجرم موجود تھے، ہم نے انہیں نشانہ بنایا، بھارت نے پاکستان میں مختلف شہروں میں میزائل برسائے، ان کا موقف تھا بھارت میں تخریب کاری کرنے والوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، جو سراسر جھوٹ تھا۔ پاکستان نے کابل پر بمباری کرنے کے بعد کہا ہمارے دشمن کابل میں تھے، ہم نے انہیں نشانہ بنایا گیا۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا کہ جو چاہے اپنے ملزمان، اپنے مجرمان کے بہانے کسی بھی ملک پر چڑھ دوڑے یا دنیا کے تمام ممالک کو کسی بین الاقوامی قانون یا ضابطے کی طرف جانا ہوگا۔ جاری روش خطرناک تو ہے ہی، یہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے، ہم آج خود کو اسرائیل کے حملوں سے محفوظ سمجھ رہے لیکن جارح جب چاہے کوئی بہانہ بنا سکتا ہے۔
نیوکلیئر صلاحیت حاصل کرنے سے قبل ہم سوچ رہے تھے نیوکلیئر پاکستان اب اسلامی امہ کو لیڈ کریگا، کشمیر اور فلسطین کے فیصلے اب ہم کرائیں گے، یہ خواب پورا نہیں ہو سکا، ہم اپنے فیصلوں میں دوسروں کے محتاج نظر آتے ہیں۔
ہمارے فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں، بعض مرتبہ تو ایسا ہوا کہ نیوکلیئر پاکستان سے بعض معاملات طے ہو گئے، لیکن ہمارے سامنے صف آراء قوتوں نے ہمارا کوئی لحاظ نہ کیا۔ اقتصادی طور پر بے حال ملکوں کی کسی طور بھی نہیں سنی جاتی، خواہ وہ ہائیڈروجن بم بھی بنا لیں۔
متحارب ممالک کے مذاکرات میں عجب شرائط رکھی جارہی ہیں۔ بھارت پاکستان سے کہتا ہے ہمیں لکھ کر دیا جائے کہ اگر بھارت میں کوئی تخریب کاری ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار پاکستان ہوگا، وہی اس کا تدارک کریگا۔ ہم افغانستان سے کہتے ہیں ہمیں لکھ کر دیں پاکستان میں اگر کوئی تخریب کاری ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار افغانستان ہو گا، وہی اس کا تدارک کریگا۔ اسرائیل کہتا ہے اسے ایران سے خطرہ ہے، ایران لکھ کر دینے کو تیار ہے، اس کی طرف سے کسی بھی ملک پر حملہ نہیں ہوگا جو اس پر حملے کا ارادہ نہیں رکھتا یا اس کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط نہیں کرتا یا انہیں حملے کیلئے سہولتیں نہیں دیتا۔ ایران کا لکھا کوئی لینے پر، اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ ہر ملک ہر قسم کی تخریب کاری سے بچنے کیلئے ایک متفقہ اصول اپنا سکتا ہے ، اس پر عمل کر سکتا ہے، دنیا کا کوئی قانون اسے اس پر عمل درآمد سے نہیں روک سکتا۔ وہ یہ ہے کہ جس ملک میں جس کونے سے تخریب کاروں یا ان کی پناہ گاہوں کی اطلاع ملے اسے نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ اپنی سرحدوں کے اندر کسی تخریب کار چڑیا کے پر مارنے کی گنجائش نہ چھوڑی جائے اور اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کیلئے دوسروں کو الزام نہ دیا جائے۔
قطر میں پاکستان اور افغانستان کے مابین مذاکرات اس ایک نکتے پر پہنچ کر ناکام ہو گئے، ہم افغانستان سے کہہ رہے تھے ہمیں لکھ کر دیں آپ کی سرحدوں سے ہمارے ملک میں کوئی تخریب کار نہیں آئینگے، انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں لکھ کر دیں کہ آپ کی طرف سے ہماری سرحد کے اندر کوئی ڈرون حملے نہیں ہونگے۔ ہمارے مذاکرات کاروں نے اسلام آباد سے پوچھا، یہاں سے جواب دیا سوری یہ نہیں ہو سکتا۔ جواب میں افغانوں نے کہا تو پھر ہم بھی آپ کو سوری ہی کہتے ہیں۔





