ColumnQadir Khan

کیس نمبر زیرو

کیس نمبر زیرو
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
’’ مرد کو درد نہیں ہوتا ‘‘۔ یہ ایک فلم کا معروف مکالمہ ہے۔ حالیہ دنوں پاکستان کے قریبا تمام پرائیوٹ چینلز پر خواتین ہراسانی، سمیت حساس موضوعات کو اہمیت دی جا رہی ہے، تو دوسری جانب جسٹس عائشہ ملک کی جانب سے ایک تاریخی فیصلہ ڈاکٹر سیما حنیف کیس میں بھی آیا اور خواتین کے حقوق کے لئے یہ ایک آئیڈیل فیصلہ قرار پایا۔ میرے دوست ملک احمد نواز اعوان ایڈوکیٹ نے خواتین کے حقوق کے پس منظر میں جسٹس عائشہ ملک کے فیصلے کو سرہاتے ہوئے جن مثبت خیالات کا اظہار کیا تو مجھے خود سے کہنا پڑا کہ بس کر دیں، سر رولائیں گے کیا؟۔
وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسیت (FOSPAH)کی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ تیرہ سال میں جہاں خواتین کی طرف سے 2016ء شکایات درج ہوئیں، وہیں مردوں کی طرف سے 855شکایتیں آئیں۔ یہ تناسب تقریباً ایک تہائی ہے، جو ہر لحاظ سے اہم ہے۔ 2023-24ء کی رپورٹ میں جب کل 823معاملات درج ہوئے تو ان میں سے 230معاملات مردوں کے ذریعے درج کئے گئے۔ یہ 28فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔ حکومتی شعبے میں یہ تناسب 20فیصد ہے جبکہ نجی شعبے میں 31فیصد تک جاتا ہے۔ لیکن یہ تعداد سچ نہیں کہتی۔ ایک طرف سے جو سماجی دبائو اور معاشرتی رہنمائی موجود ہے وہ مردوں کو اپنی شکایات درج کرانے سے روکتی ہے۔ ایک جامع سروے جس میں 65سے زیادہ افراد شامل تھے، اس میں ایک حیران کن دریافت سامنے آئی۔ 85فیصد لوگ مان تو لیتے ہیں کہ مرد جنسی ہراسگی کے شکار ہو سکتے ہیں، لیکن 70 فیصد یہ مانتے ہیں کہ معاشرہ مرد شکاریوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ یہ تناقض سمجھاتا ہے کہ کیوں 65فیصد سے زیادہ لوگ کہتے ہیں کہ مرد ہراسگی کی شکایات ’’ کم ‘‘ درج کراتے ہیں یا ’’ کبھی‘‘ درج نہیں کراتے۔ ہراسگی کے راستے میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ خود مردوں کے ذہن میں بیٹھی ہوئی ہے۔ 80فیصد مردوں کو فیصلہ ہونے کا ڈر ہے۔ 75فیصد کو اپنی مردانگی کے بارے میں تشویش ہے۔ 70فیصد شرم اور شرمندگی کا سامنا کرتے ہیں۔
یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں طاقت اور کمزوری کی تعریف نے مردوں کو قید کر رکھا ہے۔ 2010ء میں جب ’’ کارمند جگہ میں خواتین سے ہراسگی کے خلاف تحفظ کا قانون‘‘ پاس ہوا تو اس کا عنوان ہی ایک مسئلہ تھا۔ قانون کے متن میں دونوں جنس شامل ہیں، لیکن عنوان صرف خواتین کے بارے میں ہے۔ یہ کوئی چھوٹا سا مسئلہ نہیں ہے۔ اس سے قانون کی تشریح، نفاذ، اور عوام کی سمجھ میں خلل پڑتا ہے۔ جب کسی مرد کو ہراسگی کا سامنا ہو تو وہ یہ سوچتا ہے کہ یہ قانون تو خواتین کے لیے ہے، میں اس کا استعمال کیسے کر سکتا ہوں۔ 2022 ء میں اس قانون میں ترمیم کی گئی۔ لیکن اس ترمیم میں بھی نام نہیں بدلا گیا۔ حالانکہ اس میں جنسی تبعیض کی تعریف کو وسیع کیا گیا۔ لیکن ہماری ذہنی ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہم اب بھی سوچتے ہیں کہ یہ خواتین کا قانون ہے۔
Pakistan Demographic and Health Survey 2017-18کے اعدادوشمار صرف خواتین کے بارے میں ہیں۔ 28فیصد خواتین 15۔49سال کی عمر میں جسمانی تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔ 6فیصد نے جنسی تشدد کا سامنا کیا ہے۔ 34فیصد ہمراہ خواتین نے جسمانی، جنسی یا جذباتی تشدد کا سامنا کیا ہے۔ لیکن اس سروے میں مردوں کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟ کچھ نہیں۔ کیا اس لیے کہ مردوں کے ساتھ کوئی تشدد ( نفسیاتی دبائو) نہیں ہوتا؟ یا اس لیے کہ ہم نے مردوں کے تشدد کو دیکھنے کے لیے نظریں بند کر رکھی ہیں؟۔
یہ سوال نہایت اہم ہے کیونکہ جب ایک قاضی صرف ایک نقطہ نظر سے سوچتا ہے تو وہ تمام نقطہ نظر کو نہیں دیکھ سکتا۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے خواتین کے حقوق میں بہت ترقی پسند ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے جو فیصلے دئیے ہیں وہ اہم ہیں۔ خلع کے بارے میں نفسیاتی تشدد کو تسلیم کرنا اہم ہی۔ ازدواجی حالت میں تبعیض کو ختم کرنا ضروری تھا۔ لیکن کیا ہم نے مردوں کے حقوق کے لیے کوئی بھی ایسا فیصلہ دیکھا ہے؟ کیا کوئی ایسا موقع آیا ہے جب کسی ملزم کے خلاف جھوٹی شکایت کی بنیاد پر سخت فیصلہ ہوا ہو؟، کیا کسی مرد کے وراثت کے حقوق کے بارے میں کوئی خصوصی فیصلہ ہوا ہے؟، یہ خلا نظریاتی نہیں ہے، یہ حقیقی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مردوں کے حقوق سے متعلق کوئی بھی بل موجود نہیں ہے۔ کوئی بھی جھوٹی الزام تراشی سے بچائو کا قانون نہیں ہے۔ کوئی جامع مرد ہراسگی سے تحفظ کا قانون نہیں ہے۔ قانون سازوں کی نظر میں مردوں کو کوئی حفاظت کی ضرورت نہیں ہے۔ یا ہو سکتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہوں کہ مردوں کو حفاظت کی بات کرنا عورتوں کے حقوق کی تنقیص ہے۔
لیکن یہ حقیقت میں ایک غلط فہمی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ مردوں کو بھی حقوق کی ضرورت ہے تو ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ خواتین کے حقوق کم اہم ہیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ انسان ہر جنس کا حق ہے۔ یہ ایک صفر سے ایک کا کھیل نہیں ہے جہاں ایک کا فائدہ دوسرے کا نقصان ہو۔ جب ہم حقیقی مساوات کی بات کرتے ہیں تو ہم تمام انسانوں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ایک خاتون اگر کہے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے تو فوری طور پر قانونی تحفظ ملتا ہے۔ لیکن ایک مرد اگر یہی بات کہے تو پہلے سوال یہ ہوتا ہی کہ تم مرد ہو کر کیسے؟ یہ سوال ہی بتاتا ہے کہ ہم نے مردانہ شکار ہونے کو معاشرے میں ایک عیب بناتے بنایا ہے۔ کسی مرد کی کہانی نہیں ہے۔ کیا اس لیی کہ مردوں نے انصاف حاصل نہیں کیا؟ یا اس لیے کہ ہم ان کی کہانیوں کو قابلِ اشاعت نہیں سمجھتے؟۔
اگر ہم سچ میں مساوات میں یقین رکھتے ہیں تو ہمیں اپنے قوانین کو مرد اور خاتون دونوں کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے عدالتوں میں مختلف نقطہ نظر کو جگہ دینی ہوگی۔ ہمیں اپنے عوام کو سمجھانا ہوگا کہ ہراسگی کی کوئی جنس نہیں ہوتی۔ ہمیں اپنے سماج میں یہ تبدیلی لانی ہوگی کہ مرد جب اپنا درد بیان کرے تو اسے ’’ کمزور‘‘ نہ سمجھا جائے بلکہ ’’ بہادر‘‘ سمجھا جائے۔ یہ تبدیلی صرف مردوں کے لیے نہیں، بلکہ یہ ایک صحت مند معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ انصاف صرف ایک جنس کے لیے نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم عدل و انصاف کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں تمام انسانوں کے لیے یہ یقین دہانی کرنی ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button