ColumnQadir Khan

استنبول مذاکرات کے ناکام کیوں ہوئے ( حصہ دوم )

استنبول مذاکرات کے ناکام کیوں ہوئے ( حصہ دوم )
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
پاکستان کے وزیر اطلاعات نے جو الزام لگایا کہ طالبان حکومت جنگی معیشت پر پروان چڑھتی ہے اور وہ افغان عوام کو ایک غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے، اس میں کافی وزن ہے۔ افغان طالبان کی معیشت تقریباً مکمل طور پر بیرونی امداد پر منحصر ہے اور جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں عالمی برادری نے افغانستان کو تنہا کر دیا ہے۔ ایسے میں خوارج کا وجود ان کے لیے ایک فائدے کا سودا ہے کیونکہ اس کے ذریعے وہ پاکستان سے رعایتیں حاصل کر سکتے ہیں، بین الاقوامی برادری کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں، اور خود کو ایک اہم کھلاڑی کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ استنبول مذاکرات میں جب بات آخری مرحلے میں پہنچی تو کابل کے دھڑے نے اچانک امریکہ کو ضامن بنانے کا مطالبہ کیا، جو دراصل ڈالروں کے بہائو کو بحال کرنے کی کوشش تھی۔ استنبول مذاکرات کی ناکامی کی ایک اور بڑی وجہ امریکی ڈرون کا معاملہ تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان تحریری ضمانت دے کہ افغان فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی، لیکن پاکستان نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ معاہدہ توڑا نہیں جا سکتا۔ ابتداء میں پاکستانی مذاکرات کار اس معاملے پر لچک دکھاتے نظر آئے اور کہا کہ امریکی ڈرونز پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں۔ اس واپسی نے مذاکرات کو موثر طریقے سے ختم کر دیا اور قطر و ترکی کے ثالث بھی حیران رہ گئے۔
استنبول مذاکرات کی ناکامی نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو ایک نئے اور خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے مذاکرات کی ناکامی کے بعد سخت لہجے میں کہا کہ اگر معاملہ حل نہ ہوا تو یہ کھلی جنگ کا باعث بنے گا۔ انہوں نے دھمکی دی کہ پاکستان کو افغان طالبان حکومت کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے اپنے ہتھیاروں کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بیانات محض خالی دھمکیاں نہیں بلکہ اس امر کا اشارہ ہیں کہ پاکستان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور وہ فوجی آپشن پر بھی غور کر سکتا ہے۔ خواجہ آصف نے افغان طالبان پر یہ بھی الزام لگایا کہ وہ اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے جنگ کے ڈھول بجا رہے ہیں اور افغانستان کو ایک نئی تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
یہ سوال کہ کیا افغانستان ایک نئی جنگ کا میدان بننے جا رہا ہے، آج کے حالات میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان نے گزشتہ چار دہائیوں میں مسلسل جنگیں دیکھی ہیں اور یہاں کی عوام تباہی اور بربادی کی ہر شکل سے واقف ہیں۔ سوویت یونین کی یلغار، خانہ جنگی، طالبان کا پہلا دور، امریکی قبضہ، اور پھر طالبان کی واپسی – افغانستان نے یہ سب دیکھا ہے۔ اب جب افغان طالبان دوبارہ اقتدار میں ہیں اور امن کا ایک موقع ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ تنازع ایک نئی جنگ کو جنم دے گا۔ اس کا جواب آسان نہیں لیکن موجودہ صورتحال خطرے کی تمام گھنٹیاں بجا رہی ہے۔
افغان طالبان کے لیے بھی صورتحال آسان نہیں۔ وہ اگر پاکستان کے مطالبات مان لیں اور ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں تو انہیں اپنے اندر بغاوت کا خطرہ ہے، اور اگر وہ کارروائی نہیں کرتے تو پھر پاکستان کے ساتھ جنگ کا خطرہ ہے۔ دونوں صورتوں میں افغان طالبان کے لیے مسائل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ایک واضح موقف اختیار کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ لیکن یہ گریز کتنے دن چل سکتا ہے یہ ایک بڑا سوال ہے کیونکہ پاکستان کا صبر ختم ہوتا جا رہا ہے اور اگر کوئی حل نہ نکلا تو فوجی تصادم ناگزیر ہو سکتا ہے۔
علاقائی ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریں اور دونوں کو مذاکرات کی میز پر واپس لائیں۔ قطر اور ترکی نے یہ کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور دیگر مسلم ممالک کو آگے آنا چاہیے اور دونوں فریقوں کو سمجھانا چاہیے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ مزید مسائل پیدا کرتی ہے۔ چین کا بھی ایک اہم کردار ہو سکتا ہے کیونکہ چین پاکستان کا قریبی اتحادی ہے اور افغانستان میں بھی اس کے اقتصادی مفادات ہیں۔ چین اگر چاہے تو دونوں کے درمیان ایک پل کا کام کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ افغان طالبان پر دبائو بنایا جانا چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مفاد میں ہے کیونکہ افغانستان سے دہشت گردی کا خطرہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ القاعدہ، داعش، اور دیگر دہشت گرد گروہ افغانستان میں موجود ہیں اور وہ وہاں سے اپنی سرگرمیاں چلا رہے ہیں۔ اگر افغان طالبان نے ان گروہوں پر قابو نہیں پایا تو یہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کی افغانستان میں دلچسپی کم ہو چکی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان چھوڑ دیا ہے اور وہ اب افغانستان کے معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ یورپی ممالک اپنے اندرونی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور انہیں افغانستان کی فکر نہیں۔ افغان طالبان کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اگر وہ واقعی افغانستان میں امن و استحکام چاہتے ہیں تو انہیں دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی۔ یہ کارروائی محتاط انداز میں ہو سکتی ہے تاکہ اندرونی بغاوت کا خطرہ نہ ہو، لیکن کچھ تو کرنا ہوگا۔ افغان طالبان یہ نہیں سوچ سکتے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو پناہ دیتے رہیں گے اور پاکستان خاموش رہے گا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ اس کا صبر ختم ہو چکا ہے اور اگر سفارتی راستے ناکام رہے تو وہ دوسرے آپشنز پر غور کرے گا۔
استنبول مذاکرات کی ناکامی ایک سنگین ترقی ہے لیکن یہ آخری موقع نہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا دروازہ بند نہیں ہوا اور اگر دونوں فریق سنجیدگی دکھائیں تو ابھی بھی حل نکل سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ افغان طالبان اپنا رویہ تبدیل کریں اور تحریری ضمانتیں دینے کے لیے تیار ہوں۔ یہ ضمانتیں محض کاغذی نہیں ہونی چاہئیں بلکہ عملی اقدامات کے ساتھ ہونی چاہئیں تاکہ پاکستان کو یقین ہو کہ افغان طالبان واقعی سنجیدہ ہیں۔
خطے کے مستقبل کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن قائم ہو۔ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں اور ان کی تقدیریں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ افغانستان میں امن کے بغیر پاکستان میں امن ممکن نہیں اور پاکستان کی سلامتی کے بغیر افغانستان کی ترقی ممکن نہیں۔ تاریخ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جب یہ دونوں ملک آپس میں لڑتے ہیں تو دونوں کو نقصان ہوتا ہے اور فائدہ صرف بیرونی طاقتوں کو ہوتا ہے۔ آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ بھارت پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوری سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button