CM RizwanColumn

کچے ڈاکو، پکے دہشتگرد سب جائز؟

جگائے گا کون؟
کچے ڈاکو، پکے دہشتگرد سب جائز؟
تحریر : سی ایم رضوان
ریاست پاکستان کی وہ سابقہ پالیسی دفن ہو چکی ہے کہ جس کے تحت ضیاء دور میں افغانستان کے حق میں روس کے خلاف جہاد کیا گیا تھا اور اس مقصد کے لئے مجاہدین تیار کر کے افغانستان بھیجنے کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ کشمیر جہاد کے نام پر بھی عسکری جتھوں کی تیاری کا سلسلہ کب کا ختم ہو چکا۔ سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کا سلسلہ بھی ڈیڑھ سال ہو گیا سختی سے بند کر دیا گیا ہے۔ اب کسی سیاسی جماعت کو خصوصی لاڈ پیار نہیں کیا جا رہا کیونکہ یہ دور کسی اور کا نہیں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی آرمی چیف شپ کا دور ہے وہ صرف ملک اور قوم کے مفاد اور جمہوریت کے فروغ اور سیدھی سادھی پاکستان دوست خارجہ اور سفارتی پالیسی پر کار بند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ایک ڈیڑھ سال کے دوران ان کی اس پالیسی پر سختی سے عمل درآمد کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کا امیج آسمان کی بلندیوں پر چلا گیا ہے۔ بھارت اور افغانستان جیسے دشمن دبک کر بیٹھ گئے ہیں۔ اندرون ملک عسکری جتھوں کی سرپرستی چھوڑنے کے بعد یہاں جو روزانہ کی بنیاد پر ہمارے دلیر سپاہی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جا رہے تھے وہ سلسلہ بھی بند ہو گیا ہے۔ اب افغانستان کے حکومتی طالبان بھی استنبول مذاکراتی عمل میں ڈرامہ بازی میں ناکام ہو کر زچ ہو گئے ہیں اور مجبوراً چھ نومبر تک جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہو گیا ہے کہ ریاست پاکستان اب پاکستان کے معاملات میں کبھی کمپرومائز نہیں کرے گی۔ اسے یہ بھی محسوس ہو گیا ہے کہ اب اسے پاکستان بہت مارے گا لیکن پاکستان کے اندر موجود کچھ سیاسی عناصر اب بھی طالبان کے ساٹھ مذاکرات اور ان کے ساتھ نرمی کی پالیسی اپنائے جانے کی کبھی پوری نہ ہونے والی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ریکارڈ پر ہے کہ پی ٹی آئی کے ایک مرکزی رہنما جنید اکبر نے گیارہ اکتوبر 2025ء کو بیان دیا تھا کہ ہم طالبان سے بات چیت کے حامی ہیں۔ بات چیت کے ذریعے سے ہی حل نکل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ خیبر پختونخوا کوئی پنجاب نہیں ہے۔ یہاں عوام کی بات سے ہی معاملات آگے بڑھیں گے۔ پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صوفی محمد کی تحریک میں کس کا ہاتھ ہے سب کو پتہ ہے۔ نصیر اللہ بابر نے خود کہا تھا کہ ہم نے دہشت گردوں کو ٹریننگ دی۔ 22 بڑے آپریشنز کا کیا اثر ہوا؟ چودہ ہزار چھوٹے بڑے آپریشنز میں دہشت گردی بڑھ گئی یا کم ہوئی۔ ایسے واقعات سے اداروں اور عوام کے مابین فاصلے بڑھتے ہیں۔ جنید اکبر نے یہ بھی کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں پرو اسٹیبلشمنٹ بنوں، اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے درمیان فاصلے کم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ جنید اکبر کے یہ سارے دلائل اس ایک حقیقت کے مقابل ختم ہو جاتے ہیں کہ جب اسٹیبلشمنٹ نے ماضی کی پالیسی ہی چھوڑ دی ہے اور اب کوئی غلطی نہیں کی جا رہی تو ان کی پی ٹی آئی حکومت کو بھی ملک کے حق میں ریاست کی پالیسی کے مطابق چلنا چاہئے۔
یاد رہے کہ اسی سال جون میں ریاست پاکستان نے فیصلہ کیا تھا کہ ملک سے افغان مہاجرین کو نکال دیا جائی کیونکہ ملک میں جرائم اور دہشت گردی جیسی قباحتوں میں ہمارے یہ چالیس سالہ افغان مہمان اکثریتی تعداد میں ملوث ہوتے ہیں لیکن اس ملک دوست کام میں بھی بعض مقامی سیاسی عناصر رکاوٹیں ڈالنے کی ناکام کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر جولائی 2025میں ہائیکورٹ نے پروف آف رجسٹریشن ( پی او آر) کارڈ رکھنے والے افغان مہاجرین کے انخلا پر حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا بھی مسترد کر رکھی ہے، جسٹس انعام امین منہاس نے ریمارکس دیئے کہ 30 جون تک افغانیوں کو وطن واپس جانا تھا، اس کے بعد مہاجرین کو کوئی پروٹیکشن نہیں دی جا سکتی۔ یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی او آر کارڈ ہولڈر افغان شہریوں کو واپس نہ بھجوانے سے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کی درخواست پر سماعت جسٹس انعام امین منہاس نے کی تھی۔ درخواست گزار کی جانب سے عمر اعجاز گیلانی عدالت میں پیش ہوئے اور حکومتی اقدامات کو کیس کے فیصلے تک روکنے کی استدعا کی تھی۔ جسٹس انعام امین منہاس نے استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جو پالیسی ہے عدالت اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔ فاضل جج نے کہا کہ 30جون تک افغان شہریوں کو اپنے وطن واپس جانا تھا، حکومت کہہ رہی ہے ہم نے مہاجرین کا کنٹریکٹ سائن نہیں کیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے تھے کہ 30جون کے بعد افغان شہریوں کو کوئی پروٹیکشن نہیں دی جا سکتی، عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔
ادھر کے پی کے میں مقامی حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے اور ان کی ساتھ فرینڈلی برتائو کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف گزشتہ روز سندھ حکومت کی جانب سے کچے کے ڈاکوں کی سرینڈر پالیسی 2025 کی تقریب پولیس لائن شکار پور میں ہوئی، جہاں کچے کے 72ڈاکوئوں نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ تقریب میں ڈاکوئوں کا جمع کرایا گیا جدید اسلحہ بھی رکھا گیا جس میں کلاشنکوف، راکٹ لانچر، اینٹی ائیر کرافٹ گن سمیت دیگر جدید ہتھیار بھی شامل تھے۔ ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوئوں کی سروں کی مجموعی قیمت 6 کروڑ روپے سے زائد تھی۔ بدنام زمانہ ڈاکو نثار سبزوئی کے خلاف مختلف تھانوں میں 82مقدمات درج ہیں جبکہ اس کے سر کی قیمت 3 ملین روپے مقرر تھی۔ اسی طرح لادو تیغانی پر 93ایف آئی آرز جبکہ سر کی قیمت 2ملین روپے رکھی گئی تھی۔ سوکھیو تیغانی کے خلاف 49مقدمات اور حکومت کی جانب سے 6ملین روپے انعام مقرر تھا۔ سونارو تیغانی کے خلاف 26 مقدمات جبکہ سر کی قیمت 6ملین روپے مقرر تھی۔ جمعو تیغانی کے خلاف 24مقدمات جبکہ اس کے سر کی قیمت 20 لاکھ روپے مقرر تھی۔ ملن عرف واحد علی عرف واجو تیغانی کے خلاف 29مقدمات جبکہ اس کے سر کی قیمت30لاکھ روپے مقرر تھی۔ گلزار بھورو تیغانی کے خلاف 14مقدمات جبکہ اس کے سر کی قیمت 30لاکھ روپے مقرر تھی۔ غلام حسین عرف نمو تیغانی کے سر کی قیمت 3لاکھ روپے مقرر تھی۔ نور دین تیغانی کے خلاف مختلف تھانوں میں 6مقدمات جبکہ اس کے سر کی قیمت 15لاکھ روپے مقرر تھی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ سندھ ضیا لنجار نے کہا ہے کہ پولیس اور رینجرز کو پالیسی دی گئی تھی کہ علاقے میں امن ہو، ڈاکو ہتھیار ڈالیں، برادریوں کے سربراہوں کے بغیر یہ کام ممکن نہیں تھا، سرینڈر کرنے والوں کو اچھا شہری بننے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوئوں کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا، آج کے بعد کوئی ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ نہیں ہو گی، سرینڈر کرنے والوں سے قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔وزیر داخلہ سندھ نے یہ بھی کہا کہ سندھ حکومت کچے کے لوگوں کو نوکریاں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کارڈ، بچوں کو تعلیم اور کچے کے علاقے میں راستے بنا کر دینا چاہتی ہے۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ امن و امان کی صورت حال بہتر ہو رہی ہے، گھوٹکی کا کچے کا علاقہ ابھی تک کلیئر نہیں ہو سکا اور 2012میں شروع ہونے والی ہنی ٹریپ کی کارروائیاں ابھی تک جاری ہیں۔
ضیا لنجار کی بات سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ ایک طرف وہ یہ کہہ رہے ہیں ہتھیار ڈالنے والے ان ڈاکوئوں کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا، ساتھ ہی وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان ڈاکوئوں کو شریف شہری بننے کا موقع ملے گا۔ یہ بھی شنید ہے کہ ان ڈاکوئوں کی پولیس حوالگی کی اس تقریب میں ان خطرناک ڈاکوئوں کے لئے ریڈ کارپٹ بچھایا گیا۔ اس سے پاکستان کے کروڑوں شہریوں کی یقینی طور پر دل آزاری ہوئی ہے جو ان ڈاکوئوں کے مظالم اور خطرناک بیانات کی عبرتناک ویڈیوز ماضی قریب و بعید میں دیکھ چکے ہیں جبکہ ریاست پاکستان کی پالیسی ان دنوں تو یہی ہے کہ امن دشمنوں کو کوئی معافی نہیں اور اس پالیسی کا رزلٹ بھی درست آ رہا ہے کہ ملک میں اب کوئی دہشت گردی اور سکیورٹی اہلکاروں کے قتل کی واردات نہیں ہو رہی۔ ان حالات میں کچے کے ڈاکوئوں اور پکے دہشتگردوں کو جائز کرنے کے ارادے اور کوششیں سمجھ سے بالاتر ہیں۔

جواب دیں

Back to top button