Column

سیاست میں مذہبی کارڈ کا استعمال

سیاست میں مذہبی کارڈ کا استعمال
تحریر : رفیع صحرائی
آج کل مولانا فضل الرحمان حکومت پر بہت تپے ہوئے ہیں۔ چھبیسویں ترمیم کی منظوری کے وقت انہوں نے پارٹی کے ووٹ اس ترمیم کے حق میں دلوائے تھے مگر اس کے بعد بھی اقتدار سے ان کی دوری برقرار ہے۔ انہیں وفاق یا مقتدرہ سے کوئی خاص لفٹ نہیں مل رہی۔ وہ اس وقت فرسٹریٹڈ بھی نظر آ رہے ہیں، غصے میں بھی ہیں اور ناراض بھی۔ ان جیسے سمجھ دار اور سنیئر سیاست دان سے ان الفاظ کی توقع نہیں تھی جو انہوں نے مریم نواز شریف کے لیے استعمال کیے۔ وہ وفاق سے ناراضی کا غصہ مریم نواز شریف پر نکال رہے ہیں حالانکہ پنجاب میں وہ سیاسی سٹیک ہولڈر بھی نہیں ہیں۔ جب مریم نواز شریف کی طرف سے آئمہ مساجد کے لیے وظیفے کا اعلان کیا گیا تو انہوں نے فوراً ہی اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے دس ہزار روپے فی مہینہ وظیفے کو انتہائی کم قرار دیتے ہوئے غضبناک ہو کر کہا کہ میں دس ہزار روپے مریم نواز کے منہ پر مارتا ہوں۔ ان جیسے زیرک سیاستدان سے ادھوری معلومات کی بنیاد پر اتنی بڑی اور تلخ بات کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے اپنے کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے اس قدر کچی اور پھیکی بات کی ہے۔ تب تک پنجاب حکومت نے محض وظیفے کا اعلان کیا تھا۔ دس ہزار روپے کا کہیں ذکر ہی نہیں کیا گیا تھا۔ کسی نے انہیں دس ہزار بتایا ہو گا اور انہوں نے بغیر تصدیق کیے اس افواہ کو آگے پھیلا دیا۔ جوش میں ہوش کھونا اسی کو کہتے ہیں۔ جھوٹی بات آگے پھیلانے پر ہی مولانا نے اکتفا نہیں کیا بلکہ دس ہزار روپے منہ پر مارنے کی بات کر کے انہوں نے اپنے غیرسنجیدہ اور اخلاقی لحاظ سے کمزور ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے۔ خصوصاً خاتون کا احترام تو انہیں ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے تھا۔ مریم نواز شریف ان کی بیٹی کی طرح ہیں۔ بیٹیوں کے لیے اس طرح کے الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے۔ بعد ازاں جب انہیں پتا چلا کہ وظیفے کی مجوزہ رقم دس ہزار نہیں، بلکہ پچیس ہزار روپے ہے تو اپنی غلطی تسلیم کرنے اور اس پر معذرت کرنے کی بجائے انہوں نے ملتان میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پچیس ہزار روپے بھی منظور نہیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔ ان کا ووٹ بنک بھی وہیں ہے۔ پنجاب نے ان کی سیاسی حیثیت کو کبھی بھی قبول نہیں کیا۔ خیبرپختونخوا میں ان کا مذہبی اثر تو کافی ہے لیکن سیاسی لحاظ سے پی ٹی آئی نے انہیں اور ان کی جماعت جمعیت العلمائے اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں ان کا بھی کچھ نہ کچھ قصور تو ہو گا۔ وہ 2013ء کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف کی مدد سے خیبر پختونخوا میں اقتدار میں آنا چاہتے تھے مگر کسی ان فیئر گیم کا حصہ بننے کی بجائے نواز شریف نے پی ٹی آئی کو حکومت کا حق دار سمجھتے ہوئے اس کی حکومت بننے دی۔ اس کے بعد مولانا کی سیاست کا مسلسل زوال شروع ہو گیا۔ پی ٹی آئی نے اسے پھر ابھرنے نہیں دیا۔ جب عمران خان نے نئے انتخابات کے لیے ترپ کا پتا سمجھ کر کے پی اسمبلی تڑوا دی تو نگران حکومت مولانا فضل الرحمان کو سونپ دی گئی مگر ایک سال سے بھی زائد عرصہ تک چلنے والی نگران حکومت نہ تو مولانا کی ساکھ بحال کر سکی اور نہ ہی پی ٹی آئی کی مقبولیت کم کر سکی۔ عام انتخابات میں مولانا کی پارٹی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ خود مولانا اپنی سیٹ بھی نہ بچا سکے۔
گزشتہ سال 26ویں ترمیم کی منظوری کے لیے مولانا نے حکومت اور اپوزیشن بالفاظِ دیگر صدر زرداری، شہباز شریف، بلاول اور محسن نقوی کو فٹ بال بنایا تو دوسری طرف بیرسٹر گوہر، اسد قیصر وغیرہ کو بھی ماتھا رگڑنے پر مجبور کر دیا۔ مولانا نے 26ویں ترمیم کے مسودے مکی کئی شقوں میں قطع برید کروانے کے بعد اس کی حمایت کر دی۔ اس کے لیے یقیناً ان سے کچھ وعدے بھی کیے گئے ہوں گے جو پورے نہیں ہوئے ہوں گے۔ اب ستائیسویں ترمیم بھی پیش ہونے جا رہی ہے۔ اس میں وہ تمام شقیں شامل ہوں گی جو مولانا نے چھبیسویں ترمیم کے مسودے میں سے نکلوا دی تھیں۔ مولانا کو اب ’’ پاسک دی وٹی‘‘ کی حیثیت حاصل نہیں رہی۔ وہ چاہیں بھی تو ستائیسویں ترمیم کی منظوری کو نہیں روک پائیں گے۔ علی امین گنڈاپور کے استعفے کے بعد کہیں نہ کہیں مولانا کو یہ امید بندھی ہو گی کہ چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں صادق سنجرانی جیسی مدد سے انہیں بھی کے پی کی حکومت مل سکتی ہے مگر مقتدرہ پی ٹی آئی کو مزید سیاسی شہادت دینے کے حق میں نہیں۔ وہاں کے لیے پالیسی یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو اس کے اپنے وزن سے گرنے دیا جائے۔
مولانا فرسٹریٹڈ ہیں۔ کے پی میں مخصوص نشستیں لینے کے بعد مزید ان کے ہاتھ کچھ نہیں آ رہا۔ اپنے صوبے کے معاملات اور اپنی حریف جماعت پی ٹی آئی کی کارکردگی پر تنقید کرنے کی بجائے مولانا فضل الرحمان نے پنجاب میں آئمہ کرام کو ریلیف دینے پر اعتراض کر دیا ہے۔ حالانکہ صوبہ پنجاب میں آئمہ مساجد نے انہیں کسی قسم کا حقِ نمائندگی نہیں دیا۔ نا ہی مولانا نے ان آئمہ سے کوئی مشورہ کیا ہے۔ وہ خود ذاتی حیثیت میں تو حکومتی مراعات حاصل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ وہ خود ایک مدت تک کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے شاہانہ مراعات سے لطف اندوز ہوتے رہے مگر آئمہ کرام کے لیے باعزت وظیفہ انہیں گوارا نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پنجاب کے آئمہ کرام چند ہزار روپے تنخواہ کی خاطر مسجد کمیٹیوں کے دستِ نگر ہی رہیں۔ یا پھر دیہات میں رہنے والے آئمہ کرام لوگوں کے گھروں سے روٹیاں اکٹھی کر کے اپنا اور خاندان کا پیٹ بھرتے رہیں۔ عجیب سی منطق ہے ان کی۔ اپنے لیے حکومتی خزانے کو جائز سمجھنے والے کو یہ مخالفت کرنا بنتا نہیں ہے۔ آج تک مولانا نے پنجاب کے آئمہ کرام کے حقوق یا مسائل کا کبھی ذکر تک نہیں کیا۔ اب مریم نواز شریف کی حکومت اگر ان کے معاشی حالات بہتر کرنا چاہتی ہے تو کسی کو صرف اپنی سیاسی دکان داری چمکانے کے لیے 65ہزار علمائے کرام کو اپنی سیاست اور انا کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔ اگر حکومت پنجاب مولوی حضرات کو غیرسیاسی رکھنا چاہتی ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟۔ مولانا صاحب کی بات کو پنجاب کے آئمہ حضرات بھی نہیں مانیں گے کیونکہ مولانا ان کے قائد یا نمائندہ نہیں ہیں۔ اب سیاست میں مذہبی کارڈ کا استعمال زیادہ موثر نہیں ہونے والا۔

جواب دیں

Back to top button