’’ سموگ گنز‘‘ آلودگی کا خاتمہ یا وسائل کا ضیاع؟

’’ سموگ گنز‘‘ آلودگی کا خاتمہ یا وسائل کا ضیاع؟
تحریر : امتیاز احمد شاد
لاہور کی فضا ہر سال سردیوں کے آغاز پر ایک گھنے زرد دھند کے غلاف میں لپٹ جاتی ہے۔ یہ دھند صرف قدرتی مظہر نہیں بلکہ انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی کا نتیجہ ہے جسے عام طور پر سموگ کہا جاتا ہے۔ شہری سانس لینے میں دشواری، آنکھوں کی جلن اور صحت کے سنگین مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ ایسے میں صوبائی حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک نیا تجربہ شروع کیا ہے جسے ’’ اینٹی سموگ گن‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان مشینوں کو ٹرکوں پر نصب کر کے شہر کی فضا میں باریک پانی کی بوندیں چھوڑی جاتی ہیں تاکہ دھول اور معلق ذرات زمین پر بیٹھ جائیں۔ بظاہر یہ منصوبہ جدید اور موثر دکھائی دیتا ہے، لیکن اس کی حقیقی افادیت اور مالیاتی پہلو کئی سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، حکومت پنجاب نے پندرہ اینٹی سموگ گنیں متعارف کرائی ہیں۔ ایک یونٹ کی تیاری پر تقریباً ساڑھے چار کروڑ روپے خرچ آئے ہیں، جب کہ وہ ٹرک جن پر یہ نصب کی گئی ہیں، ان کی قیمت لگ بھگ ایک کروڑ اسی لاکھ روپے فی ٹرک بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے ہر یونٹ روزانہ تین لاکھ ساٹھ ہزار لیٹر کے قریب پانی فضا میں چھڑکتا ہے تاکہ آلودہ ذرات کو نیچے لایا جا سکے۔ اگر پندرہ مشینیں روزانہ اس رفتار سے چلیں تو مجموعی طور پر دو کروڑ سے زیادہ لیٹر پانی روزانہ استعمال ہوگا۔ یہ اعداد و شمار اس وقت زیادہ تشویش پیدا کرتے ہیں جب یاد رکھا جائے کہ لاہور پہلے ہی پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ مشینیں ڈیزل پر چلنے والے ٹرکوں پر نصب ہیں اور ان کے ساتھ جنریٹر بھی استعمال ہوتے ہیں جو خود فضا میں آلودگی پیدا کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہی آلہ جسے فضا صاف کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، کسی نہ کسی حد تک آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ کئی ماہر ماحولیات نے اسے ’’ دکھاوے کی صفائی‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کے بقول یہ گنیں فوری طور پر ہوا میں بڑے ذرات کو تو کم کر دیتی ہیں لیکن وہ باریک ذرات، جنہیں ’’ پی ایم ٹو اعشاریہ پانچ‘‘ کہا جاتا ہے اور جو پھیپھڑوں اور خون میں داخل ہو سکتے ہیں، ان پر کوئی خاص اثر نہیں ڈال سکتیں۔
ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت کے مطابق ان گنوں کے استعمال کے بعد شہر کے فضائی معیار میں وقتی بہتری دیکھی گئی اور آلودگی کا درجہ نمایاں طور پر کم ہوا۔ تاہم آزاد ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بہتری وقتی ہے اور اس کے سائنسی ثبوت کمزور ہیں۔ درحقیقت ان گنوں سے فضا صاف دکھائی ضرور دیتی ہے، مگر آلودگی کی جڑیں جوں کی توں موجود رہتی ہیں۔ گاڑیوں کا دھواں، فیکٹریوں کے اخراج، تعمیراتی مٹی اور فصلوں کے جلانے کا دھواں وہ بنیادی وجوہ ہیں جن پر قابو پائے بغیر کسی بھی مشین سے پائیدار تبدیلی ممکن نہیں۔
پانی کے استعمال کا پہلو بھی اس منصوبے کو متنازع بنا رہا ہے۔ لاہور کے زیرِ زمین پانی کی سطح ہر سال کئی فٹ نیچے جا رہی ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اس رفتار سے پانی صرف فضا صاف کرنے میں استعمال ہوتا رہا تو مستقبل قریب میں پینے کے پانی کا سنگین بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر اینٹی سموگ گن اگر روزانہ لاکھوں لٹر پانی فضا میں چھوڑتی ہے تو یہ شہر کے آبی وسائل پر ناقابلِ تلافی دبائو ڈالے گی۔
سیاسی سطح پر حکومت پنجاب اسے ایک مثبت اور جدید قدم کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ عوامی صحت کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات ناگزیر تھے، اور یہ منصوبہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ تاہم، ناقدین کے مطابق یہ فیصلہ کسی جامع ماحولیاتی پالیسی یا طویل المدتی حکمت عملی کا حصہ نہیں بلکہ ایک وقتی دکھاوے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ان کے خیال میں وسائل کا اتنا بڑا حصہ اگر فضائی آلودگی کے بنیادی اسباب پر خرچ کیا جاتا تو زیادہ دیرپا نتائج حاصل ہو سکتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حقیقی بہتری تب ممکن ہوگی جب گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھوئیں پر سخت نگرانی کی جائے، تعمیراتی سرگرمیوں اور زرعی فضلے کے جلانے پر قابو پایا جائے، اور شہر میں شجر کاری کے منصوبوں کو فروغ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ شہریوں میں شعور بیدار کرنا بھی ناگزیر ہے تاکہ وہ اپنی روزمرہ زندگی میں ایسے رویے اپنائیں جو آلودگی میں کمی کا باعث بنیں۔
اینٹی سموگ گنز اگرچہ وقتی طور پر فضا میں موجود دھول کو کم کر سکتی ہیں، مگر ماحولیاتی ماہرین متفق ہیں کہ یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ اس منصوبے نے ایک طرف فضا صاف کرنے کی امید جگائی ہے تو دوسری طرف وسائل کے ضیاع اور موثریت کے سوال کھڑے کیے ہیں۔ جب ایک مشین پر ساڑھے چار کروڑ روپے خرچ ہوں اور وہ روزانہ لاکھوں لیٹر پانی استعمال کرے تو یہ سوال ناگزیر ہے کہ کیا یہ وسائل واقعی بہترین مقصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں؟
لاہور جیسے شہر کے لیے اصل چیلنج صرف دھند کو ختم کرنا نہیں بلکہ دھند پیدا کرنے والے عوامل کو جڑ سے ختم کرنا ہے۔ اگر حکومت، صنعت، اور عوام مل کر دیرپا اور سائنسی بنیادوں پر پالیسیاں اپنائیں تو ہی وہ دن آئے گا جب لاہور کی فضا واقعی صاف اور سانس لینے کے قابل ہو گی۔ فی الحال، اینٹی سموگ گن ایک تجربہ ضرور ہے، مگر اسے کامیابی کہنا ابھی قبل از وقت معلوم ہوتا ہے۔





