Column

استنبول:پاکستان، افغانستان مذاکرات کامیاب

استنبول:پاکستان، افغانستان مذاکرات کامیاب
تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تاریخ کے مختلف ادوار میں نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی، سیاسی، مذہبی اور نسلی رشتوں کے باوجود باہمی اعتماد کی فضا اکثر مجروح ہوتی رہی ہے۔ 1947ء میں پاکستان کے قیام کے فوراً بعد افغان حکومت نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی، جس سے تعلقات میں سرد مہری کی ابتدا ہوئی۔ بعد ازاں ’’ ڈیورنڈ لائن‘‘ کے مسئلے، پناہ گزینوں کے بحران، سرحد پار دہشت گردی اور مختلف عسکری گروہوں کی پشت پناہی کے الزامات نے ان تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔
1990 ء کی دہائی میں افغان خانہ جنگی اور طالبان کے کنٹرول نے دونوں ممالک کے تعلقات میں نئی جہت پیدا کی۔ 2001 ء کے بعد، نائن الیون کے واقعات کے نتیجے میں افغانستان میں امریکی مداخلت نے خطے کو ایک نئے تنازع میں دھکیل دیا، جہاں پاکستان کو دو دہائیوں تک عالمی دبائو، دہشت گردی کے اثرات اور داخلی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم 2021ء میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد خطے میں ایک نئے سفارتی عمل کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔ پاکستان اور افغانستان دونوں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پائیدار امن کے بغیر خطے میں ترقی، تجارت اور خوشحالی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔
25 سے 30اکتوبر2025ء تک ترکی اور قطر کی ثالثی میں استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم مذاکرات ہوئے، جن کا مقصد 18۔19اکتوبر 2025ء کو دوحہ میں طے پانے والے سیزفائر معاہدے کو مضبوط بنانا تھا۔ دونوں فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق کیا اور اس کے نفاذ کے مزید طریقہ کار پر غور کے لیے 6نومبر 2025ء کو اعلیٰ سطحی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا۔
ترکی اور قطر، جو گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں امن کے عمل کے ضامن کے طور پر سامنے آئے ہیں، نے دونوں ممالک کی ’’ فعال شرکت‘‘ کو سراہا اور پائیدار امن کے لیے اپنی حمایت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
اعلامیے کے مطابق، تمام فریقین نے جنگ بندی برقرار رکھنے اور اس پر عمل درآمد کے لیے ایک مونیٹرنگ و ویریفکیشن میکنزم تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہی، جس کا مقصد امن کی بحالی اور خلاف ورزی کی صورت میں سزا کے طریقہ کار طے کرنا ہے۔ یہ نکتہ اہم ہے کیونکہ ماضی میں امن معاہدے عموماً نگران نظام کے بغیر ختم ہو گئے۔
یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ دونوں فریقین نے پہلی بار ایک منظم، باقاعدہ اور بین الاقوامی سطح پر تصدیق شدہ طریقہ کار اپنانے کی حامی بھری ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اب دونوں ممالک جنگ کے بجائے امن کی ضرورت کو ترجیح دے رہے ہیں۔
اگرچہ اعلامیہ ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن اس پر تنقیدی زاویہ سے غور کرنا ضروری ہے۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیزفائر اکثر عارضی ثابت ہوتے رہے ہیں۔ اصل مسئلہ نیت، بھروسے اور عمل درآمد کا ہے۔ جب تک دونوں ممالک اپنے اندرونی گروہوں پر موثر کنٹرول حاصل نہیں کرتے، اس طرح کے معاہدے کاغذی وعدوں سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔
مزید یہ کہ افغانستان کی موجودہ حکومت کو عالمی سطح پر مکمل سفارتی تسلیم حاصل نہیں، جس سے بین الاقوامی ثالثی کی حیثیت محدود ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود ترکی اور قطر کی شمولیت نے معاہدے کو ایک معتبر سیاسی اور اخلاقی حیثیت دی ہے۔
اگر یہ سیز فائر طویل المدت ثابت ہوتا ہے تو اس کے اثرات صرف پاکستان اور افغانستان تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے خطے میں استحکام، تجارتی راہداریوں کی بحالی اور انسانی ترقی کے نئے دروازے کھولے گا۔ وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے بھی یہ پیش رفت خوش آئند ہوگی، کیونکہ امن کی فضا میں سی پیک (CPEC)اور تھری برادرز ٹریڈ روٹ جیسے منصوبے حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں۔
پاکستان، افغانستان مذاکرات ایک نئی پیشرفت ہیں، جو ماضی کے تلخ تجربات کے باوجود امید کی نئی کرن پیدا کرتے ہیں۔ اگر دونوں ممالک اس سیز فائر کو سیاسی عمل اور عوامی اعتماد کی بنیاد بنا لیں تو خطے میں امن کا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جس کی تمنا عشروں سے کی جا رہی ہے۔
ترکی اور قطر کی ثالثی نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ ڈائیلاگ، سفارت کاری اور باہمی احترام ہی تنازعات کے حل کا پائیدار راستہ ہیں۔ اب یہ پاکستان اور افغانستان کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع کو جنگ کے زخم بھرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں یا اسے بھی تاریخ کے ناکام تجربات کی فہرست میں شامل کر دیتے ہیں۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا اللہ پاکستان بیرونی خطرات سے محفوظ رکھے، آمین۔

جواب دیں

Back to top button