صاف فضا۔ نعرہ نہیں، قومی ترجیح

صاف فضا۔ نعرہ نہیں، قومی ترجیح
تحریر : احمد گھمن
لاہور، جو کبھی اپنے باغوں، خوشبو اور روشنیوں کے باعث ’’ دلِ پاکستان‘‘ کہلاتا تھا، آج دھوئیں، گرد اور زہریلی فضا کے بوجھ تلے دم توڑتا دکھائی دیتا ہے۔ نومبر 2025کی صبحیں دھند نہیں، بلکہ اسموگ کی دبیز چادر اوڑھے جاگتی ہیں۔ سورج کے کرنوں کو فضا چُرا لیتی ہے اور شہریوں کو دن کے اجالے میں بھی اندھیرے کا احساس ہوتا ہے۔ماحولیاتی اداروں کی حالیہ رپورٹوں کے مطابق لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) 2025کے آغاز ہی میں 465کی خطرناک حد عبور کر چکا ہے۔ فضائی ذرات (PM2.5)کی مقدار عالمی ادارہ صحت کے مقررہ معیار سے بیس گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ محض اعداد نہیں، بلکہ ایک ایسے شہر کی چیخ ہے جو ہر سانس کے ساتھ زہر پی رہا ہے۔لاہور میں آلودگی کے اس عذاب کے کئی محرکات ہیں۔ زرعی فضلہ جلانے کا سلسلہ ابھی تک نہیں رُک سکا۔ پنجاب اور بھارتی سرحد کے پار امرتسر کے کھیتوں سے اٹھنے والا دھواں سرحد عبور کر کے لاہور کی فضا میں شامل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی شہر کی 65لاکھ سے زائد گاڑیاں روزانہ لاکھوں ٹن کاربن مونو آکسائیڈ فضا میں گھولتی ہیں۔صنعتی علاقوں میں قائم درجنوں کارخانے اب بھی بغیر فلٹر کے کام کر رہے ہیں۔ شاہدرہ، سندر اور مناواں کے صنعتی زون لاہور کی فضا کے لیے زہرِ قاتل بن چکے ہیں۔
پنجاب حکومت کا ناکام ’’ واٹر گن‘‘ پراجیکٹ نمائش برائے عوامی نظارہ: حیران کن طور پر گزشتہ ہفتوں میں حکومتِ پنجاب نے اسموگ کے تدارک کے نام پر ایک ایسے پراجیکٹ کا اعلان کیا جسے عوامی حلقوں میں طنزیہ انداز میں ’’ واٹر گن‘‘ کہا جانے لگا۔ اس مہم کا مرکزی خیال یہ تھا کہ بڑے پیمانے پر پانی کے چھڑکائو سے فضائی ذرات کم ہو جائیں گے۔ مگر عملی تجربے نے اس دعوے کو شرمندہ کر دیا۔ واٹر گن کے تین روزہ مظاہرے کے دوران نہ تو فضا نمایاں طور پر صاف ہوئی اور نہ ہی ذرات کی سطح میں کوئی دیرپا کمی دکھائی دی البتہ شہریوں کے بجلی اور پانی کے وسائل پر غیر ضروری دبائو بڑھ گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام سائنسی بنیادوں پر کمزور اور سیاسی نمائش کے زمرے میں آتا ہے۔ ایک ماہر ہوا شناس نے کھلے الفاظ میں کہا: ’’ چھڑکائو عارضی طور پر ذرات کو نیچے دھکیل دیتا ہے مگر وہ دوبارہ فضا میں اٹھ جاتے ہیں، مسئلے کا حل تو ماخذ پر قابو پانے میں ہے، نمائش میں نہیں‘‘۔ یہ نااہل پالیسی عوامی رائے میں ایک اور ثبوت ہے کہ عارضی اور دکھاوے کی کارروائیاں مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں، بلکہ مسئلے کی سنگینی کو چھپا دیتی ہیں جب تک حقیقی اصلاحات نافذ نہ کی جائیں۔ حکومتِ پنجاب کی جانب سے سموگ کنٹرول کے لیے دیگر اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ سکول بند، ورک فرام ہوم پالیسی اور بھٹوں کی عارضی بندش، مگر یہ اقدامات عارضی مرہم سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق جب تک مستقل بنیادوں پر عوامی ٹرانسپورٹ کے فروغ، صنعتی اخراج کی نگرانی، شجرکاری اور کسانوں کے لیے متبادل ذرائع فراہم نہیں کیے جاتے، سموگ کا مسئلہ ہر سال شدت اختیار کرتا رہے گا۔
دوسری جانب ہسپتالوں میں مریضوں کا ہجوم بڑھ چکا ہے۔ سانس کی بیماریوں، آنکھوں کی جلن اور دل کے امراض میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق نومبر کے آغاز سے اب تک لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں سموگ سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں 60فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
عوام میں بھی اضطراب اور بے بسی کی کیفیت ہے۔ ہر سال نومبر میں یہی منظر بند اسکول، ماسک زدہ چہرے، اور آسمان پر سیاہ دھند۔ لاہور کے شہری سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر کب تک یہ شہر زہریلی فضا کے قید خانے میں بند رہے گا؟یہ امر باعثِ افسوس ہے کہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، مگر لاہور کی فضا صاف نہیں ہوتی۔ وقت آ گیا ہے کہ ’’ صاف فضا‘‘ کو محض نعرہ نہیں بلکہ قومی ترجیح بنایا جائے۔
ورنہ آنے والی نسلیں شاید ہمیں یہی کہہ کر یاد رکھیں ’’ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے ہی شہر کو اپنی سانسوں سے مار دیا‘‘۔





