ColumnRoshan Lal

اینٹی سموگ گنز بمقابلہ سموگ

اینٹی سموگ گنز بمقابلہ سموگ
تحریر : روشن لعل
رواں برس جولائی میں پنجاب حکومت کے خیر خواہ میڈیا کی طرف سے یہ خبر، خوشخبری بنا کر پیش کی گئی کہ گزشتہ کئی برس سے سردیوں کی آمد پر لاہور یوں کی سانسوں میں زہر گھولنے والے سموگ کا مقابلہ کرنے کے لیے چین سے اینٹی سموگ گنز درآمد کی جارہی ہیں۔ جولائی کے آخری ہفتے کے دوران سامنے آنی والی اس خبر کی تصدیق پنجاب حکومت کے ترجمانوں نے اگست کے پہلے ہفتے میں کی۔ اس خبر کو سامنے لانے اور اس کی تصدیق کے وقت ، اینٹی سموگ گنز کے پنجاب لائے جانے کی بے پناہ تشہیر کی گئی۔ اس کے بعد جب ستمبر کے آخری ہفتے میں یہ سموگ گنز لاہور پہنچیں تو میڈیا پر رونمائی کے دوران، ان کی خریداری کو وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز کا عظیم کارنامہ قرار دیا گیا۔ پاکستانی45ملین روپے کے عوض خریدی گئی فی اینٹی سموگ گن کی تین مرحلوں میں کروڑوں روپے کی لاگت سے کی جانے والی تشہیر کی وجہ سے عوام میں یہ امید پیدا ہوئی کہ انہیں اس مرتبہ گزشتہ برسوں کی طرح سموگ کا عذاب برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ امید پوری ہونے کی بجائے ، سموگ کی اکتوبر میں آمد پر، لاہوریوں کو سخت مایوسی ہوئی کیونکہ جو سموگ گنز کروڑہا روپے کی لاگت سے خریدی گئیں اور جن کی تشہیر پر مزید کروڑوں روپے خرچ کیے گئے ، وہ سموگ کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس کے سامنے بے بسی کا مظاہرہ کرتی نظر آئیں۔ گزشتہ کئی برس سے، اکتوبر کی آمد کے ساتھ ہی سموگ بھی شہریوں کے لیے عذاب بن کر نازل ہو جاتا تھا مگر اس مرتبہ لاہوریوں کو سموگ کے عذاب کے ساتھ اینٹی سموگ گنز کی درآمد پر کی گئی نمائش کا مذاق بھی برداشت کرنا پڑا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے سموگ گنز کی چین سے درآمد کے باوجود لاہور میں سموگ کا گزشتہ برسوں کی طرح یا اس سے بھی زیادہ ظہور اس وقت سوشل میڈیا پر وزیر اعلیٰ کے حامیوں اور ناقدوں کے درمیان بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ مریم نواز کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان پر بلا جواز تنقید کی جارہی ہے کیونکہ انہوں نے اینٹی سموگ گنز کی درآمد کا فیصلہ چین میں ایک عرصہ سے ہونے والے ان کے استعمال کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا۔ مریم نواز کے ناقد اس بات کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ جب اینٹی سموگ گنز کی درآمد اور ان کی نمائش پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی لاہور اور صوبہ پنجاب کے شہریوں کو گزشتہ برسوں کی طرح سموگ کا عذاب برداشت کرنا پڑ رہا ہے تو پھر وزیر اعلیٰ پر کیوں تنقید نہ کی جائے۔
مریم نواز کے حامیوں کی یہ بات درست ہے کہ جب چین کے دارالحکومت بیجنگ میں سموگ ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر نمودار ہوا تو اس کے تدارک کے لیے سال 2012ء میں اس مشین کو استعمال کیا گیا جسے اب اینٹی سموگ گن کہا جاتا ہے۔ چین میں اینٹی سموگ گنز کے استعمال کے حوالے سے کی جانے والی یہ بات درست ہونے کے باوجود مکمل نہیں ہے۔ اس حوالے سے مکمل بات یہ ہے کہ جس مشین کو اب اینٹی سموگ گن کہا جارہا ہے اسے چین میں سموگ کے ظہور سے پہلے بھی استعمال کیا جارہا تھا۔ سموگ کے ظہور سے بہت پہلے چین کے طول و عرض میں جاری بڑے بڑے تعمیراتی پراجیکٹ پر ہونی والے کام کے دوران وہاں اڑنے والا گردو غبار نہ صرف مزدوروں بلکہ ارد گرد کی آبادیوں کے لیے بھی صحت کے مسائل پیدا کرتا تھا۔ دنیا میں قدیم زمانوں سے گردو غبار کے تدارک کے لیے پانی کا چھڑکائو کیا جارہا ہے لہذا، اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے چین کے سائنس دانوں نے ایسی گاڑی نما مشین تیار کی جو تعمیراتی منصوبوں کے مقامات پر کئی میٹر دور تک پانی کو پھوار کی شکل میں پھینک کر وہاں اڑنے والے گردو غبار سے پیدا ہونے والے مسائل کا تدارک کر سکے۔ اس مشین کو اینٹی سموگ گن نہیں بلکہ مسٹ کینن (Mist Cannon)کا نام دیا گیا تھا۔ چین میں جب سموگ کا مسئلہ ظاہر ہوا تو جو مشین وہاں پہلے سے گرد و غبار کے تدارک کے لیے استعمال کی جارہی تھی اسے اینٹی سموگ گن کا نام
دے کر سموگ سے نمنٹنے کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔ اس مشین کو بنانے والی چینی کمپنیوں نے اسے بیرونی دنیا میں برآمد کرنے کے لیے اس کی پیداوار میں اضافہ کے ساتھ اس کی مارکیٹنگ بھی شروع کردی۔ اس مشین کے چین میں استعمال اور بیرونی دنیا کو برآمد کے بعد یہ باتیں سامنے آئیں کہ جو مشین گرد غبار کے تدارک کے لیے کارگر ثابت ہوئی وہ سموگ کے خاتمہ کے لیے مکمل کارآمد نہیں ہے، کیونکہ سموگ اور گرد و غبار، آلودگی کی دو مختلف قسمیں ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ گرد و غبار صرف مٹی ، دھول اور پتھروں کو توڑنے سے اڑنے والے باریک ذرات پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ سموگ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سرد موسم میں ہائیڈروکاربن اور نائٹروجن جیسے نامیاتی و غیر نامیاتی اجزا ،تیزابی بخارات، اڑتی ہوئی راکھ اور پتھر اور ریت کے باریک ذرات کا مرکب سورج کی روشنی کے ساتھ کیمیائی عمل کرتا ہے۔ اس کیمیائی عمل پذیری کے دوران ہوا میں معمول کی گیسوں کے ساتھ ساتھ زہریلے مواد کی بھی بھرمار ہوجاتی ہے۔ چین میں تحقیق کے دوران یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اینٹی سموگ گن قرار دی گئی مشین صرف گردو غبار کو تو سطح زمین پر بٹھا سکتی ہے لیکن کیمیائی عمل پذیری کی وجہ سے وجود میں آنے والا سموگ ختم کرنے کی بجائے اس مشین کا پانی مزید کیمیائی عمل پذیری کرتے ہوئے پانی گرائے جانے والے مقام پر کچھ دیر بعد مزید سموگ کا باعث بن جاتا ہے۔
اینٹی سموگ گن قرار دی گئی مشین کے سموگ کے تدارک کے لیے کما حقہ موثر ثابت نہ ہونے سے متعلق تحقیق ، پنجاب حکومت کے چین سے یہ مشین درآمد کرنے سے بہت پہلے منظر عام پر آچکی تھی۔ ایسا ہونے کے باوجود اگر حکومت پنجاب نے قرضوں کی دلدل میں گرے ہوئے اپنے صوبے میں ملک کا قیمتی زرمبادلہ خرچ کرتے ہوئے نام نہاد اینٹی سموگ گنز درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تو ایسی حکومت کو تنقید سے ماورا تصور نہیں کیا جانا چاہیے۔ چین سے درآمد شدہ اینٹی سموگ گنز کے غیر موثر ثابت ہونے کے باوجود بھی ہمارے کئی بڑے بڑے اینکر پرسن، یو ٹیوبر اور میڈیا ہائوسز کچھ بولنے کی بجائے منہہ پر تالے لگائے بیٹھے ہیں۔ اینٹی سموگ گنز کا سموگ کے تدارک میں غیر موثر ثابت ہونے کا معاملہ سوشل میڈیا پر زیر بحث تو ہے، لیکن وہاں بھی کوئی ٹھوس بات کرنے کی بجائے اکثر لوگ بحث کے دوران ایک دوسرے کو گالیاں دیتے نظر آتے ہیں۔
اینٹی سموگ گنز کی درآمد کے معاملے پر ایک دوسرے کو گالیاں دینے کی بجائے یہ بحث اس قابل غور نکتہ کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے کہ اگر پانی کی پھوار سموگ کا مسئلہ کسی حد تک حل کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے توکیا اینٹی سموگ گنز کی بجائے لاہور میں مقامی طور پر کچھ ایسا موجود ہے جسے فضا میں پانی کی پھوار پھینکنے کے لیے استعمال کیا جاسکے، جی، ایسا کچھ لاہور میں کہاں موجود ہے اور اس کا ذکر آئندہ کسی تحریر میں کیا جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button