پاکستان کی قومی اور غذائی سلامتی

پاکستان کی قومی اور غذائی سلامتی
تحریر : فرخ بصیر
قومی سلامتی کسی بھی ملک کی بنیاد ہوتی ہے، جو نہ صرف بیرونی خطرات سے تحفظ فراہم کرتی ہے بلکہ اندرونی استحکام کو بھی یقینی بناتی ہے۔ جغرافیائی، معاشی اور سماجی چیلنجز سے نبرد آزما پاکستان جیسے ملک میں قومی سلامتی کا تصور روایتی فوجی طاقت سے آگے بڑھ کر معاشی، غذائی اور ماحولیاتی عوامل کو بھی شامل کرتا ہے۔ غذائی سلامتی، جو قومی سلامتی کا ایک اہم جزو ہے، اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہر شہری کو مناسب مقدار اور معیار کی غذا دستیاب ہو,عالمی بھوک انڈیکس 2024ء میں اس وقت پاکستان 109ویں نمبر پر ہے جواس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ غذائی عدم تحفظ آج کے وقت میں ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے۔ دیکھا جائے تو قومی سلامتی کا روایتی تصور بیرونی جارحیت اور دہشت گردی جیسے خطرات پر مرکوز ہوتا ہے، لیکن جدید دور میں یہ معاشی استحکام، توانائی اور غذائی تحفظ پر مبنی ہے، آج کا پاکستان جنوبی ایشیا کا ایک اہم ملک ہے جو اپنی مغربی اور مشرقی سرحدوں پر بھارت اور افغانستان جیسے ہمسایوں کی وجہ سے فوجی چیلنجز کا شکار ہے۔ تاہم اندرونی طور پر غذائی عدم تحفظ بھی ہماری قومی سلامتی کو کمزور کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں 8.4ملین افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جو سماجی بے چینی اور سیاسی عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی 2022 میں غذائی سلامتی کو ایک کلیدی عنصر قرار دیا گیا ہے، کیونکہ بھوک اور غربت سے پیدا ہونے والے مسائل دہشت گردی اور قبائلی تنازعات کو ہوا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بلوچستان اور خیبر پختونخوا جیسے علاقوں میں غذائی کمی کی وجہ سے نوجوانوں میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، جو انہیں انتہا پسندی کی طرف مائل کر سکتی ہے,اسی طرح قومی سلامتی صرف فوج کی طاقت نہیں بلکہ عوام کی بنیادی ضروریات کی تکمیل بھی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی آبادی کا 45فیصد زراعت پر انحصار کرتا ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلیاں، سیلاب اور خشک سالی ہماری غذائی پیداوار کو شدت سے متاثر کر رہی ہیں۔ انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA)کی 2025 ء کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں گندم اور چاول جیسی بنیادی فصلوں کی پیداوار پانی کی کمی، مٹی کی خرابی اور موسمیاتی دبائو کی وجہ سے محدود ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں غذائی عدم تحفظ کے حالیہ اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔ یونیسف کی 2025ہیومینٹیرین ایکشن پلان رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 17.7فیصد بچے شدید غذائی کمی کا شکار ہیں ہے۔ عالمی غذائی رپورٹ کے مطابق، 5سال سے کم عمر بچوں میں 37.6 فیصد کے قد چھوٹے رہ گئے ہیں اور 40فیصد کی نشوو نما متاثر ہوئی ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان کا سکور اس وقت 16.5 فیصد غذائی کمی، 33.6فیصد کوتاہ قد بچے، 10فیصد کمزور اور 5.8فیصد بچوں کی اموات کی شرح ظاہر کرتا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی 11ستمبر 2025ء کی میڈیا اپ ڈیٹس کے مطابق پاکستان میں 5سال سے کم عمر بچوں میں سے ایک تہائی کوتاہ قد، 10فیصد کمزور اور ایک چوتھائی کم وزن کے پیدا ہوتے ہیں۔
یہ اعداد و شمار نہ صرف ہماری انسانی ترقی کو روک رہے ہیں بلکہ قومی معیشت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں کیونکہ غذائی قلت کا شکار بچے بالغ ہونے پر معاشرے کیلئے اتنے منفعت بخش نہیں ہوتے جتنے ہونے چاہئیں۔ غذائی سلامتی قومی سلامتی کا لازمی جزو ہے، کیونکہ بھوک سماجی انتشار کا باعث بنتی ہے۔ پاکستان کی نیشنل فوڈ سکیورٹی پالیسی 2018ء اس بات کی توثیق کرتی ہے کہ غذائی تحفظ معاشی اور سیاسی استحکام کی بنیاد ہے، ایک مطالعہ کے مطابق، غذائی عدم تحفظ تنازعات کو ہوا دیتا ہے، جیسا کہ سندھ اور پنجاب میں پانی کی کمی سے پیدا ہونے والے تنازعات۔ قومی سلامتی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ غذائی بحران بیرونی طاقتوں کو مداخلت کا موقع دیتا ہے، جیسے افغانستان میں غذائی مسائل نے علاقائی عدم استحکام کو بڑھایا۔ پاکستان میں غذائی کمی کی وجہ سے ہجرت اور شہری غربت بڑھ رہی ہے، جو دہشت گرد تنظیموں کے لیے آسان بھرتی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی قرضے، عالمی شعور اور قدرتی آفات بھی قومی سلامتی کو کمزور کرتے ہیں۔ غذائی تحفظ کے بغیر فوجی طاقت بھی کمزور ہو جاتی ہے، کیونکہ بھوک زدہ فوج اور عوام استحکام کی ضمانت نہیں دے سکتے۔
ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں غذائی سلامتی شامل ہے اور نیشنل فوڈ سکیورٹی پالیسی 2018ء کے تحت، زرعی تحقیق، بیج قوانین اور کیڑے مار ادویات کے قوانین کو مضبوط بنایا گیا ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ اور تحقیق (MNFSR)غذائی انفارمیشن اور ابتدائی وارننگ سسٹم (FSIEWS)کو فعال کر رہی ہے اور پاکستان ایگریکلچرل سائنس ٹاسک فورس (PAFST) 2025میں قومی غذائی تحفظ کو مضبوط بنانے کے لیے لانچ کیا گیا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے کچھ حد تک بہتری تو آئی ہے مگر ان پالیسیوں پر عمل درآمد ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
پاکستان کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں، حالیہ سیلاب سے فصلوں کی بڑے پیمانے پر تباہی نے بھی ہماری فوڈ سکیورٹی کو کمزور کیا ہے جبکہ آبادی (2.4فیصد سالانہ) کا تیزی سے اضافہ غذائی طلب بڑھا رہا ہے جس کی وجہ سے فوڈ سپلائی پیچھے رہ گئی ہے پھر مہنگائی اور گندم اور چینی کی درآمدات پر انحصار قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ علاقائی عدم مساوات، جیسے بلوچستان میں 50فیصد سے زائد غذائی کمی، سماجی تقسیم بڑھا رہی ہے، اوپر سے سیاسی عدم استحکام اور بدعنوانی جیسے مسائل حکومتی پالیسیوں کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں چنانچہ ان چیلنجز کی وجہ سے 2026ء تک غذائی عدم تحفظ مزید بڑھ سکتا ہے۔ اس سنگین صورتحال کا تدارک کرنے اور غذائی و قومی سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے سب سے پہلے ہمیں زرعی تحقیق میں سرمایہ کاری بڑھانی ہو گی، زیادہ پیداوار والے بیج، ڈرپ ایریگیشن سسٹم، سماجی ترقی کے پروگراموں کو وسعت اور انکی نگرانی کو بہتر بنانے کے علاوہ موسمیاتی مزاحمت کے لیے اپنے آبی ڈھانچے کو مضبوط، نئے ڈیمز، ذخائر اور شجر کاری پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ نئی نسل میں تعلیم اور آگاہی مہموں سے غذائی عادات بہتر بنانا ہو گی اور بالخصوص سارک( SAARC)پلیٹ فارم کو پھر سے سرگرم کر کے علاقائی تعاون سے غذائی تجارت اور تحفظ کو یقینی بنانا ہو گا، جس سے نہ صرف ہماری فوڈ بلکہ نیشنل سیکورٹی کو بھی مستحکم کرنے میں مدد ملے گی، پاکستان کی قومی اور غذائی سلامتی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ مضبوط غذائی نظام استحکام کی ضمانت دیتا ہے۔
حالیہ اعداد و شمار اور چیلنجز کی باوجود اگر حکومت، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی شراکت دار مل کر کام کریں تو پاکستان مکمل غذائی تحفظ حاصل کر سکتا ہے جو نہ صرف ہمیں ایک صحت مند قوم بنائے گا بلکہ ایک محفوظ پاکستان کی بنیاد بھی رکھے گا اور ہم سب پھر سے ملکر یہ گیت فخر سے گا سکیں گے کہ
آئو بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
فرخ بصیر







