Aqeel Anjam AwanColumn

ایف آئی اے، این سی سی آئی اے اور کرپشن کا نظام

ایف آئی اے، این سی سی آئی اے اور کرپشن کا نظام
تحریر :عقیل انجم اعوان
جب کسی ملک کے وہ ادارے جن پر عوام اپنی حفاظت انصاف اور شفافیت کے لیے انحصار کرتے ہیں خود قانون شکنی کے مرتکب پائے جائیں تو یہ صرف چند افراد کا نہیں بلکہ پورے نظام کا المیہ بن جاتا ہے۔ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA)کے اندر سامنے آنے والا حالیہ اسکینڈل اسی المیے کی ایک تازہ مثال ہے۔ اس واقعے نے واضح کر دیا ہے کہ ہمارے سرکاری نظام کے اندر اصلاحات و احتساب کے تمام وعدے اور شفافیت کے تمام بیانات کتنے کمزور ہیں۔ رپورٹس کے مطابق نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے کئی افسر جو کئی ہفتے سے لاپتہ تھے اب ایف آئی اے کی تحویل میں پائے گئے ہیں۔ ان میں سے چھ اہلکاروں کو لاہور کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک مشہور یوٹیوبر کے خلاف کارروائی کے دوران ان کے اہل خانہ سے بھاری رقوم وصول کیں۔ اس معاملے نے پورے نظامِ تفتیش پر ایک بڑا سوال کھڑا کر دیا ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جسے رواں سال ایف آئی اے کے سائبر ونگ کی جگہ بنایا گیا تاکہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بڑھتے ہوئے ڈیجیٹل جرائم سے نمٹا جا سکے۔ مگر محض چند مہینوں میں اسی ادارے کے اپنے افسران کرپشن میں ملوث پائے گئے۔ یہ صورتحال اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ ہم نے ادارے تو بنا لیے لیکن ان کے اندر جواب دہی اور خود نگرانی کے نظام کو کبھی سنجیدگی سے نہیں اپنایا۔ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے افسران پر لگے الزامات صرف مالی بدعنوانی کے نہیں بلکہ اختیارات کے ناجائز استعمال کے بھی ہیں۔ اگر وہ لوگ جن کے ذمے سائبر جرائم کی روک تھام ہو خود ان جرائم کا حصہ بن جائیں تو پھر شہری انصاف کے لیے کہاں جائیں؟ اس واقعے کا سب سے پہلا اور بنیادی پہلو یہ ہے کہ قانون کے محافظ اگر خود قانون شکن بن جائیں تو ریاست کے لیے سب سے بڑا چیلنج اعتماد کی بحالی بن جاتا ہے۔ عوام کسی حکومت پر تب ہی بھروسہ کرتے ہیں جب انہیں یقین ہو کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ مگر جب کسی افسر کو غیر قانونی طور پر غائب کیا جائے بغیر کسی عدالتی حکم کے حراست میں رکھا جائے اور پھر اچانک اس کی برآمدگی کی خبر آئے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے ہاں انصاف کا نظام صرف کمزور کے لیے ہے؟ اگر طاقتور اور بااختیار لوگ قانون کے تقاضوں کو نظرانداز کر سکتے ہیں تو پھر عام شہری کے لیے تحفظ کہاں باقی رہ جاتا ہے؟ یہ واقعہ صرف چند افراد کی بدعنوانی نہیں بلکہ اس ڈھانچے کی کمزوری کا مظہر ہے جو ان اداروں کے اندر موجود ہے۔ داخلی نگرانی کا کوئی موثر نظام نہ ہونے کے باعث افسران کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے اعمال پر کوئی نظر نہیں رکھتا۔ جب کسی ادارے میں احتساب محض کاغذی کارروائی رہ جائے تو وہاں کرپشن ایک معمول بن جاتی ہے۔ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے اندر بھی یہی ہوا۔ افسران نے اپنے اختیارات کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا اور یہ سب ایک عرصے تک چھپایا جاتا رہا۔ یہ معاملہ اس لحاظ سے بھی سنگین ہے کہ یہاں صرف مالی بدعنوانی نہیں بلکہ عوامی اعتماد کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ سائبر کرائم کے شعبے میں شہریوں کا ذاتی ڈیٹا، نجی معلومات اور رابطے موجود ہوتے ہیں۔ اگر انہی معلومات کا غلط استعمال ہونے لگے تو شہری اپنی آزادی اور سلامتی دونوں کھو دیتے ہیں۔ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے اس واقعے نے عوام کے ذہنوں میں یہ خدشہ پیدا کر دیا ہے کہ اگر یوٹیوبر کے اہل خانہ سے پیسے بٹورے جا سکتے ہیں تو کسی عام شہری کے ڈیٹا کو بھی غلط ہاتھوں میں پہنچنے سے کون روک سکتا ہے؟۔
پنجاب حکومت کی جانب سے یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ و ہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور ایک نیا صوبائی سائبر یونٹ بنانے پر غور کر رہی ہے۔ بظاہر یہ اقدام انتظامی بہتری کے لیے بتایا جا رہا ہے لیکن اس کا سیاسی پہلو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر نیا یونٹ محض اس لیے قائم کیا گیا کہ صوبائی حکومت اپنے ناقدین کے خلاف کارروائی میں آزادی حاصل کر لے تو یہ خطرناک رجحان ہوگا۔ سائبر قوانین کا مقصد عوامی تحفظ ہے سیاسی انتقام نہیں۔ یہاں ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم بار بار نئے ادارے تو بناتے ہیں مگر ان کی بنیاد مضبوط کیوں نہیں کرتے؟ ایف آئی اے کا پرانا سائبر ونگ ہو یا نئی نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی دونوں کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ تربیت کا فقدان، شفاف نظام کی عدم موجودگی۔ افسران کے لیے اخلاقی تربیت کا نہ ہونا، کرپشن اور سیاسی دباؤ کا اثر یہ سب عوامل مل کر کسی بھی نظام کو ناکام بنا دیتے ہیں۔ جب تک ان وجوہات کو دور نہیں کیا جائے گا چاہے نیا ادارہ بنے یا پرانا رہے نتیجہ وہی نکلے گا جو آج سامنے آ رہا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ریاست اپنی ترجیحات کا ازسرِنو تعین کرے۔ اگر حکومت واقعی سائبر کرائم کے تدارک میں سنجیدہ ہے تو اسے محض نئے ڈھانچے نہیں بلکہ نئے اصولوں کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے اندر ہونے والے تمام واقعات کی آزاد، شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئے۔ ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے جس میں صرف سرکاری اہلکار ہی نہیں بلکہ عدلیہ اور ٹیکنالوجی کے ماہرین بھی شامل ہوں۔ تحقیقات کے نتائج عوام کے سامنے لائے جائیں تاکہ شفافیت بحال ہو۔ دوسرا، اگر الزامات درست ثابت ہوں تو ملوث افسران کو کڑی سزا دی جائے۔ جب تک قانون کے نفاذ کرنے والے خود قانون کی زد میں نہیں آئیں گے کسی بھی ادارے میں نظم پیدا نہیں ہو سکتا۔ تیسرا، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے تمام پرانے کیسز کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے۔ اگر ان تحقیقات میں بدعنوانی یا جانبداری کا کوئی پہلو نظر آئے تو ان فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ جانچ کی جائے۔ یہ اقدام نہ صرف انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے گا بلکہ عوامی اعتماد کی بحالی میں بھی مدد دے گا۔ چوتھا، مستقبل کے لیے ایک نیا نگرانی کا نظام بنایا جائے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سائبر ایجنسیوں کے تمام آپریشنز پر بیرونی نگرانی رکھی جاتی ہے۔ ان کے ہر قدم کی جانچ آزاد کمیشن کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس طرز کا ایک شفاف ڈھانچہ ضروری ہے تاکہ اختیارات کا غلط استعمال روکا جا سکے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل جرائم تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ مالی دھوکے، ڈیٹا چوری، سوشل میڈیا بلیک میلنگ، فیک نیوز اور آن لائن ہراسانی جیسے جرائم اب عام ہیں۔ اس کے مقابلے کے لیے ایک مضبوط اور ایماندار سائبر ادارہ ناگزیر ہے۔ مگر یہ ادارہ صرف ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ دیانت داری، تربیت، نگرانی اور جواب دہی سے مضبوط ہوگا۔ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کا کیس ایک مثال ہے کہ اگر احتساب نہ ہو تو سب سے جدید ادارہ بھی کرپشن کی آماجگاہ بن سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے نظام میں ایک غلط روایت جڑ پکڑ چکی ہے کہ جب کوئی اسکینڈل سامنے آتا ہے تو چند دن میڈیا میں شور مچتا ہے کمیٹی بن جاتی ہے کچھ اہلکار معطل ہوتے ہیں اور پھر سب کچھ خاموشی میں دفن ہو جاتا ہے۔ یہی روایت اگر نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے معاملے میں بھی دہرائی گئی تو یہ ادارہ دوبارہ کبھی عوامی اعتماد حاصل نہیں کر سکے گا۔ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے اسکینڈل نے ریاست کے لیے ایک موقع پیدا کیا ہے کہ وہ خود کو درست سمت میں لے جائے۔ اگر حکومت نے یہ موقع گنوا دیا تو آنے والے دنوں میں نہ صرف یہ ادارہ بلکہ پورا قانونی نظام غیر موثر ہوتا جائے گا۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ سائبر کرائم کا مقابلہ صرف قانونی کارروائی سے نہیں بلکہ اخلاقی شفافیت اور ادارتی نظم سے کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایک افسر جان لے کہ اس کے ہر فیصلے کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے ہر قدم کی نگرانی ہو رہی ہے اور کسی بھی بدعنوانی پر فوری کارروائی ہوگی تو وہ اختیارات کے غلط استعمال سے گریز کرے گا۔ اسی طرح شہریوں کے لیے بھی ایک شفاف شکایتی نظام قائم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ کسی بھی زیادتی یا غیر قانونی کارروائی کی اطلاع بلا خوف دے سکیں۔ آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کا معاملہ ہمارے نظام کے لیے ایک امتحان ہے۔ یہ صرف ایک ادارے کی بدنامی نہیں بلکہ پوری ریاست کے نظم و اعتماد کا سوال ہے۔ اگر اس کیس کو غیر جانبداری سے نمٹایا گیا شفاف تحقیقات ہوئی اور ذمہ داروں کو سزا ملی تو یہ ایک مثبت موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ سب چند دن کا شور بن کر رہ گیا تو آنے والے برسوں میں عوام کا قانون پر یقین مزید کمزور ہو جائے گا۔ ریاست کے لیے اب یہی وقت ہے کہ وہ اپنے نظام کی اصلاح کرے۔ احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہو شفافیت نیچے تک پہنچے اور قانون سب کے لیے یکساں ہو۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے نہ صرف نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی بلکہ پورے نظام پر عوامی بھروسہ بحال کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ بھروسہ ایک بار پھر قائم ہو گیا تو پاکستان کے ڈیجیٹل مستقبل کے لیے یہ ایک نیا آغاز ہوگا۔ مگر اگر یہ موقع ضائع کر دیا گیا تو بدعنوانی، بداعتمادی اور غیر شفافیت کا دائرہ مزید پھیل جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button