پاک، افغان مذاکرات ناکامی کے بعد

پاک، افغان مذاکرات ناکامی کے بعد
تحریر : امتیاز عاصی
آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ افغان طالبان تحریک طالبان کا کسی صورت میں ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ ترکیہ میں کئی روزہ بات چیت بے سود رہی، افغان طالبان تحریری طور پر کچھ لکھ کر دینے کو تیار نہیں تھے جو اس امر کا واضح ثبوت ہے افغان طالبان کی نیت ٹھیک نہیں۔ ایک طرف دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات ہو رہے تھے، دوسری طرف دہشت گردی کی کارروائیاں جاری تھیں۔ افغان طالبان کو شائد بھول ہے روسی افواج کو پاکستان ساتھ نہ دیتا تو ان کے لئے افغانستان سے نکالنا ممکن نہیں تھا۔ روس افغان جنگ کے آغاز سے اب تک غیرقانونی افغانوں کی آمد کا ہمارے ہاں آنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ہم سے اچھا تو ایران رہا جس نے ایک افغان پناہ گزینوں کو مہاجر کیمپ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی اور وہیں سے انہیں افغانستان واپس بھیجا گیا۔ دراصل ہماری افغان پالیسی ٹھیک ہوتی تو یہ سب کچھ نہیں ہوتا آج پوری قوم نتیجہ بھگت رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے افغانوں کو کرائے پر جگہ دینے والوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کی ہدایت دی ہے، جس کے نتیجہ میں خانیوال میں چند لوگوں کے خلاف غیر قانونی افغانوں کو پناہ دینے کی پاداش میں خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہے، جو احسن اقدام ہے۔ وزیراعلیٰ اس لحاظ سے تمام صوبوں سے سبقت لے گئی ہیں، افغانوں کی پہچان کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ استنبول میں دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کی ناکامی کے بعد دونوں ملکوں میں جنگ کے خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں پوری قوم کو متحد ہونا پڑے گا۔ کے پی کے میں لوگوں کو اعتماد میں لینا بہت ضروری ہے، پختون لوگوں اور افغان طالبان کی سوچ اور طرز زندگی میں بہت فرق ہے۔ کور کمانڈر پشاور نے وزیراعلیٰ سے ملاقات کرکے مبارکباد دی جو نیک شگون ہے۔ ہمیں اس وقت جتنا متحد ہونے کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا افغان طالبان کی پشت پر کون کھڑا ہے، جو ہمار ا ازلی دشمن ہے۔ گو بھارت نے شکست کے بعد دفاعی پوزیشن لے لی، مگر بھارتی حکومت کے دل میں شکست کا قلق بدستور موجود ہے، جسے وہ افغانستان کی طالبان حکومت کو پاکستان کے خلاف استعمال کرکے دور کرنے کو کوشاں ہے۔ ہمیں یاد ہے چیف آف وزیرستان اور شکئی سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر ملک فرید اللہ خان نے جنرل پرویز مشرف کو قبائل سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، مگر مشرف نہ مانے اور قبائلی علاقوں میں آپریشن کا آغاز کر دیا، جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اس وقت غیر قانونی افغان چاروں صوبوں کے شہروں اور دیہاتوں میں پھیلے ہوئے ہیں، جن کی شناخت ممکن نہیں، ان کی کئی نسلیں جوان ہو چکی ہیں، بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک ہیں، کاروبار ان کے پاس ہیں۔ ہری پور میں غیر قانونی افغانوں نے علاقے کے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ کے پی کے کی حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ افغان طالبان کے ساتھ ترکیہ میں مذاکرات کی ناکامی کے بعد ہمیں ذہنی طور پر ایک اور جنگ کے لئے تیار رہنا ہوگا، اس مقصد کے لئے پوری قوم تیار رہنا ہوگا۔ افغان طالبان کی حکومت کا جھکائو واضح طور پر بھارت کی طرف ہے، ان کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ افغانستان سے ٹرکوں پر بھارت جانے والے سامان کے بعد واپسی پر بھارت سے سامان لے کر افغانستان آنے کی اجازت دی جائے، جس کی اجازت نہیں دی گئی، جس کا افغان طالبان کو خاصا ملال ہے۔ ماضی قریب میں افغانستان سے غیر قانونی لوگوں کی آمد اور سمگلنگ میں رکاوٹ کے بعد افغانستان کی طالبان حکومت کو خاصی تکلیف پہنچی ہے، مگر کوئی ملک اپنے ہاں سے سمگلنگ کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان کو سب سے بڑا چیلنج افغان پناہ گزینوں کو یہاں سے نکالنے اور دوسرا غیر قانونی افغانوں کی آمد کو روکنا ہے، جس کے بغیر ہمارے ہاں امن و امان کی صورت حال کبھی بہتر نہیں ہو سکتی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے افغانوں کی نشاندہی کے لئے مساجد میں اعلانات کرانے کی ہدایت کی ہے، جو احسن اقدام ہے۔ عوام کو اس ضمن میں حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹھیک ہے افغانستان سے ہماری تجارت بند ہونے سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ ٹماٹر اور خشک میوہ جات کے بغیر انسان زندہ رہ سکتا ہے، مگر دہشت گردی میں زندہ رہنا ممکن نہیں۔ گو جنگ تو ہماری بہادر سپاہ نے لڑنی ہے اس مقصد کے لئے ان کی پشت پر کھڑا ہونا پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ خصوصا کے پی کے عوام اس وقت خاصی مشکل میں ہیں بعض علاقوں میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے لہذا سیاست دانوں کو اقتدار کی جنگ سے باہر نکلنا ہوگا اور قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کے ساتھ ان کی پشت پر کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے بھارت سے جب کبھی جنگ ہوئی پوری قوم یکجا ہوجاتی رہی ہے، لہذا افغانستان کی طرف سے ہونے والی دہشت گردی کو روکنے کے لئے بھی ہمیں اسی جوش و جذبے کا مظاہر کرنا ہوگا جیسا کے بھارت کے خلاف جنگ کے زمانے میں پوری قوم کرتی آرہی ہے۔ ہم وزیراعلیٰ پنجاب کے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لئے اقدامات کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے، تاہم اس کے ساتھ اگر یہ اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ مقامی پولیس نے غیر قانونی افغانوں کو نکالنے کے لئے اقدامات نہیں کئے تو انہیں ملازمت سے نکال باہر کیا جائے گا۔ ہم اگر جڑواں شہر راولپنڈی اسلام آباد کی بات کریں تو افغانوں کی بہت بڑی تعداد مقیم ہے جنہیں پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔ ہاں اگر پولیس صدق دل سے غیرقانونی افغانوں کے انخلا ء کے لئے اقدامات کرے تو یہ بات یقینی ہے کوئی ایک غیر قانونی افغان یہاں قیام نہیں کر سکتا۔ وزیراعلیٰ کے پی کے سہیل آفریدی کو جذبات سے باہر نکل کر صوبے کے عوام کی زندگیوں کو تحفظ دینے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے جو عسکری اداروں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں لہذا بانی پی ٹی آئی سے ہدایات ضرور لیں مگر وہ بھی دہشتگردی کے خلاف وزیراعلیٰ کو اقدامات کرنے سے کبھی نہیں روکیں گے۔ بس ہمیں ذہن نشین کرنا ہوگا ملک ہے تو ہم بھی ہیں۔





