
کروٹ
تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض)
ایک طرف عالمی حالات کسی قدر بے یقینی کا شکار ہیں تو دوسر ی طرف اندرونی طور پر بھی عدم استحکام ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا جبکہ بنیادی طور پر داخلی عدم استحکام خودساختہ ہی ہے وگرنہ ایسی بات قطعا نہیں کہ ارباب اختیار اس کو سمیٹ نہ لیں۔ بہرحال عالمی حالات ایسے ہیں کہ بظاہر تو یوں دکھائی دے رہا ہے کہ ایک طرف غزہ میں معاملات بہتری کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں لیکن درحقیقت فریقین میں بداعتمادی اتنی زیادہ اور دھوکے اس قدر ہیں کہ بظاہر نظر آنے والا سکون ،پس پردہ کس طوفان کا پیش خیمہ ہے ،کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ صیہونی کارپردازوں کے نزدیک یہی وہ وقت ہے جب وہ گریٹر اسرائیل کا اپنا دیرینہ خواب پورا کرسکتے ہیں تو دوسری طرف فلسطینی بھی سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور کسی بھی صورت،دھونس،جبر،دھاندلی ،لالچ و طمع و حرص کسی بھی طور پر اپنا وطن چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ عالمی طاقت کی حالت ایسی ہے کہ وہ تمام تر حقائق کو جانتے ہوئے بھی ،اپنا پورا دباؤ صرف کمزور پر ڈالتے دکھائی دیتے ہیں گو کہ گزشتہ دنوں حماس کو زرد لکیر کے دوسری طرف جہاں اسرائیلی فوج تعینات ہے ،ملبے میں دبی لاشوں ( جو بقول اسرائیل ان کے لئے اثاثہ جات ہیں) کو تلاش کرکے اسرائیل کے حوالے کرنے کی اجازت بھی دی جا چکی ہے کہ کسی طرح اسرائیل کی انا کو تسکین مل سکے یا کم ازکم اسرائیل کو دوبارہ جارحیت کا جواز نہ مل سکے۔ تاہم میری دانست میں یہ تمام اقدامات فقط اشک شوئی سے زیادہ نہیں کہ اسرائیل کا اب تک کا ریکارڈ اس امر کا گواہ ہے کہ اسرائیل کو غزہ کے مسلمانوں یا دنیا بھر میں کہیں بھی مسلمانوں پر جارحیت کرنے کے لئے کسی جواز کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ اسرائیل کا طرز عمل بہت حد تک امریکی طرز عمل سے مشابہ ہے کہ جواز بعد میں تلاشا یا گھڑا جا سکتا ہے لہذا قرین قیاس یہی ہے کہ اسرائیل مغویان کی دستیابی تک ہی خاموش رہے گا اور اس کی جارحیت ماضی کی طرح کسی بھی جواز کے بغیر دیکھنے کو ملے گی۔
رہی بات پاکستان کے اندرونی معاملات کی تو بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے داخلی معاملات جو انتہائی بہتر انداز سے سلجھائے جا سکتے ہیں، انہیں بلاوجہ طول دے کر، سیاسی عدم استحکام اور درجہ حرارت کو بڑھانے کی دانستہ کوششیں واضح نظر آ رہی ہیں۔ یہاں یہ کہنا بجا ہوگا کہ سابق و زیر اعلیٰ کے پی، علی امین گنڈا پور کی جانب سے معاملات کو قدرے قابو میں رکھا گیا تھا گو کہ اپنی اس کوشش میں علی امین گنڈا پور کی سیاسی شہرت خاصی داغدار ہوئی اور اس طرز عمل پر انہیں آخرکار گھر تو جانا ہی پڑا لیکن ان کی سیاست کس قدر متاثر ہوئی، اس کا اندازہ اگلے انتخابات میں واضح ہو گا۔ لمحہ موجود میں پاکستانی سیاسی افق پر صرف ایک سیاسی شخصیت اپنے نصف النہار پر ہے جبکہ باقی تمام سیاسی شخصیات کی حیثیت ثانوی بن چکی ہے خواہ وہ اسمبلی میں کتنی ہی نشستیں کیوں نہ رکھتے ہوں کہ پاکستانی عوام کو بخوبی علم ہے کہ یہ نشستیں کیسے اور کیونکر ان کا نصیب ہوئی ہیں، کس کے حق پر دن دیہاڑے ڈاکہ مارا گیا ہے، کس کا حق سلب کیا گیا ہے اور کس کس کو ’’ نوازا ‘‘ گیا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک صرف پاکستانی عوام ہی کو نہیں رہا بلکہ اس حقیقت کو عالمی مبصرین اور کئی ایک ادارے بخوبی جانتے ہیں کہ کس طرح پاکستان کا سیاسی نظام بروئے کار آ رہا ہے اور کس طرح عوامی مینڈیٹ کی تذلیل ہو رہی ہے، کیسے جمہور کو کچلا جارہا ہے اور کیسے جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ علی امین گنڈا پور کی جانب سے وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کے مضبوط شواہد سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح علی امین گنڈاپور نے دو مرتبہ عمران خان کی رہائی کے لئے نکالی جانے والی ریلیوں میں عوام کی بڑی تعداد کو دھوکہ دیا اور کیونکر مقتدرہ کی جانب سے علی امین کی حمایت کی گئی، بالخصوص اس وقت جب مقتدرہ کی طرف سے بیک وقت سیاسی عدم مداخلت کا دعویٰ بھی کیا جاتا رہا اور اسی سانس میں علی امین گنڈاپور کی وزارت اعلیٰ سے سبکدوشی یا سہیل آفریدی کے منصب وزارت اعلیٰ پر فائز ہونے کی مخالفت کی گئی۔ سیاسی عمل میں مقتدرہ کی جانب سے ایسے فعل کو ایک جمہوری معاشرے میں کیسے اور کیونکر قبولیت مل سکتی ہے اور ملے بھی کیوں، کہ سیاسی عمل کو حقیقی معنوں میں سیاسی ہی رہنا چاہئے اور جو کھیل تماشے سیاسی میدان میں لگتے ہیں، انہیں قواعد و ضوابط کے مطابق لگنا چاہئے لیکن پاکستان میں کیسے قواعد و ضوابط؟ پاکستان میں قواعد و ضوابط کا رجحان کب رہا ہے اور بالخصوص سیاسی میدان میں کب قواعد و ضوابط کے مطابق کھیل کھیلا گیا ہے؟ سیاسی میدان میں تو ہمیشہ سے غیر سیاسی کھلاڑیوں نے، فیلڈ سیٹ کی ہے، اپنی مرضی سے کھیل کھیلا ہے، منشا کے بغیر کسی بھی کھلاڑی کو کھیلنے کی تاحال اجازت نہیں ملتی تاہم آئوٹ ہونے کے بعد کھلاڑی عموما آزادانہ کھیلنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن اس کا مقصد بھی صرف امپائر تک رسائی ہی ہوتا ہے کہ کسی طرح معاملات طے پا جائیں۔ ایسی ہی صورتحال کسی حد تک علی امین کے ساتھ رہی لیکن علی امین معاملات کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھاتے ہی دکھائی دئیے کہ اس میں ان کا اپنا فائدہ بہرطور زیادہ تھا، اکیلے علی امین پر ہی کیا موقوف دیگر کئی ایک ایسے سیاسی کھلاڑی ہیں کہ علی امین کی اس پالیسی میں ان کا مفاد بھی پوشیدہ تھا لہذا عمران خان تاحال اسیر ہیں۔ نو منتخب وزیر اعلی سہیل آفریدی کے متعلق منتخب ہونے سے پہلے ہی واویلا شروع ہو چکا تھا کہ کسی نہ کسی طور وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان نہ ہو پائے کہ اس کے جارحانہ مزاج سے پس پردہ مشاق کھلاڑی بہرطور واقف تھے، اور نہیں چاہتے تھے کہ وہ اس منصب پر فائز ہو۔ سہیل آفریدی نے منتخب ہوتے ہی، جو مطالبہ کیا، وہ اپنے قائد سے ملاقات کا کیا، جو تادم تحریر پورا نہیں ہو سکا کہ وزیراعظم اتنے مصروف ہیں کہ وہ سہیل آفریدی کو ’’ پوچھ کر بتا ہی نہیں سکے‘‘ کہ اس کی ملاقات اس کے قائد سے ہو سکتی ہے یا نہیں۔ سہیل آفریدی ان حقائق سے بخوبی واقف ہیں اور انہیں نے بھی وزیراعظم کے جواب کا انتظار نہیں کیا بلکہ دوسرے قانونی راستے اختیار کئے کہ کسی طرح اس کی ملاقات اپنے قائد سے ہو سکے لہذا ہائیکورٹ سے اجازت نامہ ہاتھ میں لئے سہیل آفریدی اڈیالہ جل جا پہنچے، جہاں ماضی کی طرح سہیل آفریدی کو جیل کے باہر انتظار کروایا گیا لیکن اس کی ملاقات ، ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود، عمران خان سے نہیں کرائی گئی۔ دور جدید میں پاکستانی نجانے کیسے اعلیٰ عدالتوں کے حکم نامے کی خلاف ورزی کر لیتے ہیں اور نجانے کیسے اعلیٰ عدالتیں اس حکم عدولی پر خاموش رہتی ہیں، کسی اور ریاست میں ایسی مثالیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں کہ عدالتیں وہ آخری دروازہ ہوتی ہیں کہ اگر یہ در بھی نہ کھلے تو پھر معاشروں میں نفسا نفسی کے مظاہر عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔
عمران خان کی جدوجہد کو بھی دیکھا جائے تو وہ قانون کی بالا دستی کے حوالے سے ہی ہے، جس کی پاداش میں وہ مقدمات کی بھرمار کا سامنا کر رہا ہے۔ یہاں اگر یہ لکھا جائے کہ اس پر مقدمات کی بھرمار بوگس اور جھوٹے مقدمات کی ہے تو کئی ایک ن لیگی لٹھ لے کر پیچھے پڑیں گے کہ کہیں توشہ خانہ 1،توشہ خانہ 2، نو مئی اور عدت کیس کا حوالہ دیتے بھی شرمندگی محسوس نہیں کریں گے، لیکن اس حقیقت کا اعتراف نہیں کریں گے کہ عمران خان ایک بہتر معاشرے کی خاطر جدوجہد کر رہا ہے، جو یقینی طور پر آنے والی نسل کی خاطر ہے۔ وہ بذات خود تو اپنی عمر گزار چکا ہے اور گزشتہ اڑھائی سال کی سخت ترین قید، اپنی عمر کے آخری حصے میں، کاٹنا قطعا آسان نہیں اور نہ ہی موجودہ سیاسی اشرافیہ و کارکنوں کی جانب سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے، جو یا تو ہسپتال میں گزارتے رہے یا پھر جیل سے ملحقہ کوٹھیوں میں قید کاٹتے رہے ہیں۔ سہیل آفریدی کے ساتھ ورکنگ ریلیشن بنانے کے لئے، کیا یہ امر مشکل ہے کہ اسے اپنے قائد سے ملاقات کی اجازت دی جائے، جو اس کا حق ہے یا اسے اتنا زچ کیا جائے کہ وہ حقائق بیان کرنا شروع کر دے؟ کیا سہیل آفریدی کے ملاقات نہ کرنے سے، صورتحال میں نرمی کا کوئی امکان ہے، جو سہیل آفریدی کی ملاقات کے بعد زیادہ گرم ہو سکتی ہے؟ میری دانست میں، ہر دو صورتوں میں حالات سہل ہوتے دکھائی نہیں دیتے اور نہ درجہ حرارت کم ہوتا نظر آتا ہے، ملاقات ہونے کی صورت میں البتہ اس امر کو تقویت مل سکتی ہے کہ ہنوز پاکستان شتر بے مہار نہیں ہوا اور قانون کا کچھ نہ کچھ پاس ابھی موجود ہے بصورت دیگر درجہ حرارت ہر دو صورتوں میں بڑھنی کا بھرپور امکان موجود ہے، دیکھتے ہیں انا و ضد کے اس کھیل میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔





