Column

ملکی ترقی کیلئے وزیراعظم کا وژن

ملکی ترقی کیلئے وزیراعظم کا وژن
وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ طور پر سعودی عرب میں منعقدہ ’’ فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو‘‘ کی 9ویں کانفرنس کے دوران اہم اور بصیرت افروز خطاب کیا، جس میں انہوں نے پاکستان کی موجودہ معیشت کی صورت حال، قدرتی آفات کے اثرات اور حکومت کے اصلاحاتی اقدامات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ شہباز شریف کا یہ بیان نہ صرف ایک جامع حکومتی وژن کا عکاس تھا، بلکہ ان کے عزم و حوصلے کی بھی نمایاں مثال تھا کہ کس طرح پاکستان عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان اب ان غلطیوں سے سیکھ چکا اور اس کی سمت درست ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور اقتصادی تاریخ میں متعدد مواقع پر حکومتی غلطیوں نے ملک کو شدید مشکلات میں ڈال دیا، لیکن شہباز شریف کا یہ کہنا کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا اور آگے بڑھے، ایک مثبت پیغام ہے کہ حکومت اصلاحات اور نئے اقدامات کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پرعزم ہے۔وزیراعظم نے کرپشن کے خاتمے کے لیے حکومت کی کوششوں پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ مختلف شعبوں میں اصلاحات کی جارہی ہیں۔ خصوصاً ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کو کامیاب اقدام قرار دیا گیا، جس سے کرپشن میں کمی آئی ہے۔ یہ ایک قابل ستائش قدم ہے کیونکہ پاکستان میں کرپشن کا مسئلہ ایک سنگین چیلنج ہے اور ڈیجیٹل حکومتی نظام اس چیلنج سے نمٹنے کا ایک موثر طریقہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ایف بی آر کی اصلاحات اور ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے حکومت نے ٹیکس کی وصولی کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے، جو ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے بھی دیگر اقدامات کیے جارہے ہیں، تاکہ دنیا بھر کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی لیں۔ شہباز شریف نے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر بھی بات کی، خصوصاً سیلاب اور قدرتی آفات کے حوالے سے۔ پاکستان اس وقت دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ یہ حقیقت عالمی سطح پر تسلیم کی جارہی ہے کہ پاکستان کو شدید سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس صورت حال میں متاثرین کی بحالی کے لیے زیادہ فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے اور قرضوں کے بجائے پاکستان کو خودانحصاری پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے وزیراعظم کی بات میں وزن ہے کیونکہ مسلسل قرضوں کا بوجھ پاکستان کی معیشت کو مزید کمزور کررہا ہے اور ایک مستحکم معیشت کے لیے خودانحصاری ضروری ہے۔ پاکستان کی معیشت کا اہم جزو زرعی شعبہ ہے اور وزیراعظم نے زرعی شعبے میں جدت لانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی جیسے آرٹیفشیل انٹیلیجنس (AI)کے استعمال پر زور دیا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان نوجوانوں کو جدید زرعی ٹیکنالوجی سے آگاہ کر رہا ہے اور اس کے لیے چین سے تربیت حاصل کی جارہی ہے۔ یہ ایک بہت اچھا قدم ہے کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے بلکہ کسانوں کی زندگی کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ زرعی شعبے میں انویسٹمنٹ اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال پاکستان کے لیے نہ صرف معاشی ترقی کا دروازہ کھول سکتا ہے، بلکہ اس سے کسانوں کی زندگی میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔ پاکستان کو اپنے زرعی شعبے کو جدید بنانے کے لیے عالمی سطح پر جدت کی ضرورت ہے اور وزیراعظم کا اس جانب توجہ مرکوز کرنا ایک خوش آئند اقدام ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ امن، خوشحالی اور ترقی ہماری ترجیح ہے اور اس کا یہ پیغام تھا کہ پاکستان اپنے ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کررہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن اگر حکومت اور عوام کے ارادے پختہ ہوں، تو کوئی بھی چیلنج ناکامی کا سبب نہیں بن سکتا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا یہ کہنا کہ کسی بھی کام کے لیے پختہ ارادہ کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے، حوصلہ افزا بیان ہے۔ یہ بات پاکستان کے عوام کے لیے بھی اہم پیغام ہے کہ اگر ہم سب مل کر کام کریں تو ہم اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں پاکستان کی ترقی کے لیے جو اقدامات اور ویژن پیش کیا ہے، وہ یقیناً ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ملک کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے، مختلف شعبوں میں اصلاحات اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت ہے۔ کرپشن کے خاتمے، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور زرعی شعبے میں جدت لانے جیسے اقدامات سے پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔
غزہ: جنگ بندی معاہدہ اور اس کی پامالی
کچھ روز قبل اعلان کیے جانے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت، جسے عالمی ضابطے، قواعدِ انسانی اور اقوامِ متحدہ کے تحت طے پانے والی معاہداتی ذمے داریوں کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے، یہ توقع تھی کہ دونوں فریقین ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں کو معطل رکھیں گے۔ مگر حالیہ اطلاعات بتاتی ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اسرائیلی فورسز نے رفح، خان یونس، نصیرات کیمپ اور دیرالبلاح سمیت غزہ کے متعدد علاقوں میں شدید بمباری کی، جنگی طیارے اور دیگر عسکری ذرائع استعمال کیے گئے اور اس کے نتیجے میں 11بچوں سمیت 104فلسطینی شہید ہوئے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ ایسے اقدامات نہ صرف انسانی نقصان کا باعث بنتے بلکہ امن معاہدوں کی سالمیت، بین الاقوامی ضابطوں اور حقِ انسانی کے احترام کو بھی بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ جب جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، تو عام شہری بالخصوص بچے، خواتین اور بزرگ ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ مختلف ذرائع بتاتے ہیں کہ غزہ میں معاہدے کے بعد بھی اسرائیلی کارروائیوں نے کئی بار بچوں کی جان لی ہے اور روزانہ اوسطاً کئی بچے شہید یا معذور ہورہے ہیں۔ مثلاً، UNICEFکے مطابق معاہدے کے بعد صرف دس روز میں کم از کم 322بچے مارے گئے اور 609زخمی ہوئے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ امن کی امنگ محض کاغذی نہیں بلکہ حقیقی تحفظ کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے معاہدے کی رو سے طے کی گئی ’ یلو لائن‘ جیسی حدود کو بہانے کے طور پر استعمال کیا ہے تاکہ کارروائی کرے۔ دوسری جانب، اے این اے ایس ایل اور دیگر ذرائع نے کہا ہے کہ کارروائیوں کا بہانہ ٹھوس نہیں بلکہ محض ایک حربے کے تحت کیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں یہ سوال اٹھنا لازم ہے کہ کیا جنگ بندی صرف کاغذ پر رہ گئی، یا واقعی اُس کا احترام کیا گیا؟ معاہدوں کی موثریت کا پیمانہ صرف لفظ نہیں بلکہ کارروائی میں ہوتا ہے۔ جنگ بندی کے نفاذ، نگرانی اور نتیجہ خیزی کا انحصار صرف فریقین پر نہیں بلکہ ثالث، ضامن ملکوں اور عالمی اداروں پر بھی ہے۔ مثلاً، پاکستان نے اس حوالے سے اپنی مذمت جاری کی اور کہا کہ یہ اقدام بین الاقوامی قانون اور امن معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف مذمت کافی ہے؟ کیا ثالث ممالک نے وہ موثر اقدامات کیے جن سے معاہدہ کی پاسداری، شہریوں کا تحفظ اور افرادی نقصان کے ازالے کی راہ ہموار ہو؟ غزہ میں محاصرہ، امداد کی بندش، اسپتالوں پر حملے، نقل و حرکت پر پابندی اور بنیادی سہولتوں کا فقدان بھی بحران کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں، جنگ بندی نہ ہونا یا اُس کی خلاف ورزی کرنا، صرف عسکری مسئلہ نہیں بلکہ انسانی بحران بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، UNICEFنے کہا کہ بچّوں کو خوراک، صاف پانی، دوائیں اور رہائش تک رسائی نہیں ہے۔ لکھے گئے معاہدوں، جنگ بندی کے ضابطوں اور ثالثی کی ذمے داریوں کا مطلب صرف کاغذی یقین دہانی نہیں کہ ہم ہاتھ اٹھا کر کہہ لیتے ہیں کہ جنگ ختم ہوگئی، بلکہ اس کا مطلب ہے، کارروائیوں کی خود مختاری، تلافی، انصاف اور ذمے داری کا تعین ہونا چاہیے۔ جنگ کا سب سے زیادہ بوجھ عام لوگ اٹھاتے ہیں، اس لیے شہری علاقوں، اسپتالوں، اسکولوں اور امدادی مراکز کی حفاظت لازمی ہے۔ ان ضابطوں کا اطلاق وقت پر ہو، معاہدوں کی خلاف ورزی پر فوری ردعمل ہو اور ثالث ادارے فعال ہوں۔ محض جنگ بندی کا اعلان کرنا کافی نہیں؛ اس کی روح، یعنی بے گناہوں کی جانیں بچانا، شہری معیشت بحال کرنا، امداد کی روانی یقینی بنانا اہم ہے۔ اگر یہ اصول اچھی طرح نافذ نہ ہوں، تو جنگ بندی محض لفظ بن کر رہ جائے گی، اور شہری خاص طور پر بچے، ان معاہدوں کے بیچ بے یار و مددگار رہ جائیں گے۔ اس وقت جو منظر نظر آرہا ہے، وہ ہمیں بتا رہا ہے کہ امن کا وعدہ معمولی نہیں بلکہ تاریخی ذمے داری ہے اور اسے پورا کرنا انسانی ضابطے کا تقاضا ہے۔

جواب دیں

Back to top button