Column

گورنر جنرل کی پسندیدہ گالی

کالم: صورتحال
تحریر: سیدہ عنبرین
گورنر جنرل کی پسندیدہ گالی
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی آنکھیں بند ہوتے ہی وہ سب خواب چکنا چور ہو گئے، جو پاکستان کی آزادی سے وابستہ تھے کہ آزاد خوشحال پاکستان ہوگا، جہاں تمام پاکستانی سر اٹھا کر فخر سے جی سکیں گے، جہاں میرٹ ہوگا، ملاوٹ نہ ہو گی، قابلیت پر آگے بڑھنے کے موقعے ہونگے، اقربا پروری نہ ہوگی، کیس دیکھا جائیگا فیس نہ دیکھا جائیگا، حقدار کو حق ملے گا، حقوق غضب نہ ہونگے، انصاف ہوگا، استحصال نہ ہوگا، کوئی وکیل کرنے کا مشکل سے سوچتا تھا، وہ نہ جانتا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب جج کرنا پڑے گا، مزید ترقی کی منازل طے ہونگی، تو جج کے سامنے گریڈ چودہ کا اہلکار تن کر کھڑا ہوگا اور کہے گا جائو میں تمہارا فیصلہ نہیں مانتا، تم انصاف دینے بیٹھے ہو اپنا انصاف اپنے پاس رکھو، میں انتظام چلانے پر مامور ہوں، پس میرا نظام چلے گا۔
فرض کر لیجئے کسی آزاد اور خودمختار ملک میں جہاں اسلام بھی ہو اور جمہوریت بھی ہو، کوئی اہلکار جج کا حکم ماننے سے انکار کر دے اور اسے با آواز بلند کہے ’’ یہاں لکھا تمہارے حکم کو‘‘ تو جج اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے جواباً اپنے ماتحتوں کو طلب کر کی انہیں حکم دے کہ توہین عدالت کرنے والے اس شخص کی بیلٹ اتار دی جائیگی ، اس کے کالے جوتے، کالی قمیض، خاکی پتلون اور برائون بیلٹ اتار کر امانتاً رکھ لی جائے، اسے سفید شلوار قمیض اور قینچی چپل میں یہاں سے رخصت کر دیا جائے۔
جج صاحب کے حکم پر عمل درآمد ہو جاتا تو کوئی قیامت نہ آتی، عدالت اور منصف کی کرسی کا وقار بلند ہو جاتا، معطل ہونے والے شخص کیلئے کوئی اور بڑی عدالت حرکت میں آتی، اس کی اتری ہوئی قمیض پتلون اسے پہنا دیتی، اس کی بیلٹ اور جوتے اس کے ہاتھ تھما دیتی اور نیا فیصلہ جاری کرتی کہ معطل شدہ نظام کے کل پرزے کو بلا تا خیر بحال کیا جاتا ہے، اسی رات ٹی وی کے تمام ٹاک شوز میں یہی واقعہ موضوع بحث ہوتا، دانشور حلق پھاڑ پھاڑ کر پہلی عدالت کے فیصلے کے بخئیے ادھیڑ دیتے اور دوسری عدالت کو انصاف قائم کرنے کے پورے نمبر دیتے، صبح کے قومی اخبارات میں شائع ہونے والے کالم اور مضامین قوم کے علم میں اضافہ کرتے ہوئے بتاتے کس طرح پہلی عدالت نے نظام کا پہیہ روکنے کی مذموم کوشش کی، کچھ یہ بتاتے کہ عقل مندوں نے عقل سے کام لیا اور چلتے نظام کو پٹری سے اتارنے کی کوشش ناکام بنادی، اس انداز میں چلتے نظام کو پٹری پر رکھنے کی کوششیں نئی نہیں بہت پرانی ہیں۔
قائداعظمؒ کے بعد پاکستان قائداعظمؒ کے وارثوں کے ہتھے چڑھ گیا، انہوں نے جس طرح پاکستان چلایا اس کی ایک جھلک تاریخ میں تو محفوظ ہے، لیکن تاریخ کے یہ سبق نصاب سے تو خارج ہیں مگر دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں، نظام دو ہاتھوں میں رہا، ایک گول ٹوپی والا تھا، دوسرا ترچھی ٹوپی والا، جناح کیپ والے نظام کو محمد علی جناحؒ کے ساتھ ہی قبر میں اتار دیا گیا اور گول پوٹی والوں نے پہلی باری لینے کا فیصلہ کیا، اس نظام کا سب سے اہم پرزہ گورنر جنرل پاکستان غلام محمد تھا، دنیا کی جمہوری تاخیر میں وہ پہلا اور آخری گورنر جنرل تھا، جو مفلوج ہونے کے بعد بھی کافی عرصہ اس عہدے پر متمکن رہا اور اپنے انداز میں نظام چلاتا رہا۔ ایک انگریز خاتون اس کی پرائیوٹ سیکرٹری تھی جو دراصل اس کا سب کچھ تھی، مغرور گورنر جنرل اپنے ہاتھ سے لقمہ اپنے منہ میں ڈالنے کے قابل نہ رہا تو یہی خاتون اپنے ہاتھ سے اسے کھانا کھلاتی، اس کی یہتی ہوئی رالیں صاف کرتی، اس کا لباس تبدیل کرتی اور اسے بائو بنا کر دفتر میں اس کی کرسی ہٹا کر اس کی جگہ اس کی وہیل چیئر فٹ کر دیتی، گورنر جنرل صاحب کے سامنے آنے والی فائلوں پر کیا لکھا ہوتا وہ انہیں پڑھ کر سناتی، گورنر جنرل احکامات زبانی جاری کرتے، ان کی زبان سے کیا حکم جاری ہوتا، ان کی پرائیویٹ سیکرٹری کے علاوہ کوئی نہ سمجھتا، فائلوں پر احکامات دینے کے بعد جناب غلام محمد کا کانپتا ہوا ہاتھ پکڑ کر ان کے دستخط کرانے کے بعد احکامات جاری کر دئیے جاتے، غلام محمد صاحب کو قسمت کا دھنی ہونے کے باعث ولایتی عہدہ تو مل گیا، لیکن انہوں نے ولایتی عہدے کی ولایتی عادات کے ساتھ ساتھ اپنے دیسی طرز زندگی اور اس کی خصوصیات کو اپنی شخصیت میں خاص جگہ دی، جن میں پنجابی کی شہرہ آفاق گالیاں قابل ذکر، وہ کسی شخص کا پوچھنا چاہتے تو اس کے نام سے قبل پنجابی کی ایک ثقیل گالی بکتے ہوئے کہتے فلاں کہاں ہے، اسی طرح وہ جب اپنے کسی ماتحت افسر کیلئے کوئی حکم جاری کرتے تو اس حکم سے پہلے اس کے لیے اپنی پسندیدہ اور اس شخص کیلئے مخصوص گالی کا انتخاب کرتے، کچھ عرصہ بعد ان کی بیماری بڑھ گئی اور وہ گالیاں بکنے کے قابل بھی نہ رہے، لیکن ان کی گالیاں بکنے کی خواہش بدرجہ اتم ان میں موجود تھی، انہوں نے اپنی ذہانت سے اس کا حل دریافت کیا جو اس دور کے کسی بھی ذہین و فطین افسر کے دماغ میں نہ آسکتا تھا، انہوں نے ایک بڑا چارٹ تیار کرایا جس پر مختلف گالیاں تحریر کرائی گئیں۔ جب وہ کسی ماتحت افسر یا کارکن کو گالی بکنا چاہتے تو اسے طلب کر کے اپنی سیکرٹری کو سمجھاتے جو ان کا مدعا سمجھنے کے بعد اس تجویز کردہ گالی پر انگلی رکھ کے گالی کیلئے منتخب شخص کو بتائیں کہ گورنر جنرل صاحب اس وقت آپ کو کون سی گالی کا حقدار سمجھ رہے ہیں۔ انہوں نے اس گالی گلوچ کے طریقہ کار میں وقت کے ساتھ ساتھ مختلف تبدیلیاں کیں، ایک موقع پر انہوں نے گالیوں کی سنگینی میں اضافہ کرنے اور ان کی تاثیر دوگنی کرنے کیلئے ایک چارٹ پر وہ تمام انسانی عضو بنوائے جن کا استعمال وہ گالی گلوچ میں کیا کرتے تھے، وہ اشارے سے واضع کرتے کہ کون سا انسانی عضو کس عضو میں کس کے لیے داخل کر کے وہ کون سی گالی کا لطف لینا چاہتے ہیں، گالی گلوچ تفریح کی آخری منزل یہ تھی کہ وہ کسی بھی انداز میں اپنا ماضی الضمیر بیان کرنے میں شدید مشکلات کا شکار ہو گئے، تو جب بھی انہوں نے اپنا یہ شغف نہ چھوڑا، انہوں گالیوں کے نمبر مقرر کے دئیے اور جب وہ کسی کو کوئی گالی دینا چاہتے تو اس گالی کے نمبر کی طرف اشارہ کر دیتے۔ جس شخص کو گالی دینے کیلئے طلب کیا جاتا وہ صاحب کی ادا سے سمجھ جاتا صاحب نے اس کے لیے کیا گالی تجویز کی ہے۔ وہ سر جھکا کر گالی کو سنتا اور شکریہ کہہ کر کمرے سے نکل جاتا، آج اگر گورنر جنرل غلام محمد زندہ ہوتے تو نظام کو طلب کر کے بائیس نمبر کی گالی دیتے، جس میں لکھا تھا نظام کی ماں کی فلاں جگہ میں فلاں چیز، یہ مرحوم کی پسندیدہ گالی تھی، جس کی مزید تشریح ممکن نہیں۔

جواب دیں

Back to top button