Column

ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ ۔۔ بھارت کا ایک سیاہ کارنامہ

ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ ۔۔ بھارت کا ایک سیاہ کارنامہ
تحریر : محمد ساجد قریشی الہاشمی ( سابق انجینئرنگ منیجر، ریڈیو پاکستان)
کہا جاتاہے کہ دھاندلی اور انصاف کے مروجہ اصولوں سے ہٹ کرکیے گئے فیصلوں کی سزاقوموں کو غیر معینہ عرصے تک بھگتناپڑتی ہے اور اس کی قیمت ان کی کئی نسلوں کو اداکرناپڑتی ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کے عوام بھی ایسے ہی غیرجمہوری اور غیر اخلاقی فیصلوں کی سزا گزشتہ 78سالوں سے بھگت رہے ہیں۔ برصغیرپاک وہند پرسو سالہ حکمرانی نے بعد جب انگریزوں نے یہاں سے اپنا بستر گول کرنے کی ٹھانی تو انہوں نے3 جون1947 ء کو تقسیم ہندکے منصوبے کا اعلان کیا جس کے تحت ہندوستان کی مسلم اورہندواکثریت کے علاقوں کو اپنی اپنی متعلقہ مملکت میں شامل ہوناتھا لیکن ہندوستا ن میں موجود 586ریاستوں کے حکمرانوں کو اپنی رعایا کی مرضی ومنشاکے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند بنایاگیا۔ ریاست جموں وکشمیر کے عوام نے اپنے اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے 19جولائی 1947ء کو سرینگر میں اپنی واحد نمائندہ سیاسی جماعت آ ل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے اجلاس میں بحیثیت مجموعی پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظورکی اور مہاراجہ سے اس سلسلے میں مناسب اقدامات کرنے کی سفارش کی گئی لیکن مہاراجہ نے مسلم اکثریت کے اس جمہوری فیصلے کو قبول کرنے کے بجائے لیت ولعل سے کام لیناشروع کردیا کیونکہ وہ مذہباً ہندو تھا اور وہ درپردہ بھارتی نمائندوں کے ساتھ سازش کے تانے بانے بننے میں مصروف تھا جس نے بالآخر ریاست جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کی خواہشات کا خون کرتے ہوئے 26اکتوبر1947 ء کو ایک نام نہاد الحاق کی دستاویز بھارتی نمائندوں کے حوالے کردی جس کو بنیا د بناکر27اکتوبر1947 ء کو بھارت کی فوج نے زمینی اور فضائی راستوں سے ریاست میں داخل ہوکر ڈوگرہ فوجوں کے ساتھ مل کر ظلم وستم کا بازار گرم کر دیا۔ ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ کا یہ سیاہ ترین دن تھا جس کی نظیر اقوام عالم کی تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوگیا بلکہ اس کے پیچھے بھارتیہ ہندو کانگریس، وائسرائے ہند اور مہاراجہ کشمیر کے خفیہ رابطے کار فرما تھے ۔ بھارت کے پاس ریاست جموں و کشمیر میں داخلے کا کوئی زمینی راستہ نہیں تھا سوائے ضلع گورداسپورکے ، جسے مسلم اکثریت کا ضلع ہونے کی وجہ سے پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھالیکن صرف اس کی ایک تحصیل پٹھانکوٹ میں ہندواکثریت کو بنیاد بناکرپورے کا پورا ضلع بھارت کے حوالے کردیا جس سے اسے ریا ست جموں و کشمیر میں براہ راست زمینی رسائی میسر آگئی۔ یہ وائسرائے ہند، مہاراجہ کشمیر اور حدبندی کمشن کے سربراہ ہی تھے جنہو ں نے جمہوری اصولوں اور اخلاقی روایات کی دھجیاں بکھیریں اور ان کے ان غیر اخلاقی اور غیر جمہوری فیصلوں نے ریاست کے عوام کو مسلسل کرب اور اذیت میں مبتلاکردیا۔ ان تینوں کی اس بددیانتی کی سزاپوری کشمیری قوم کاٹ رہی ہے اور گزشتہ78 سال سے اس کی قیمت ادا کرتی چلی آرہی ہے لیکن ابھی تک ان کی آزمائش ختم ہونے میں نہیں آرہی ۔
قائداعظم ؒ نے ان کے ان ارادوں کو بھانپ کر پاکستان کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف، جنرل ڈگلس گریسی کو ریاست میں پاکستان کی فوج داخل کرنے کا حکم دیا لیکن باضابطہ فوجوں کی تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ملکوں کی افواج کے مشترکہ سربراہ فیلڈ مارشل کلاڈ آرچنیلیک نے اس حکم پر بروقت عملدرآمد نہ ہونے دیا گوکہ بعد میں اجازت دے دی گئی لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی اور اسی تاخیر ی حربے کے نتیجے میں بھارتی فوج کو ڈوگرہ سپاہیوں کے ساتھ مل کر پوری ریاست میں پھیل جانے اور لوٹ مار اور قتل وغارت کا بھرپور موقع ملا جس کے سدباب کے لیے ریاست کے پاکستان سے ملحقہ قبائلی عوام اور ریاست کے سابقہ فوجیوں نے مل کر بھارت کی فوجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں پسپا کرکے ریاست کا ایک حصہ آزاد کروا کر وہاں ریاست جموں و کشمیر کی انقلابی حکومت قائم کرکے سرینگر کی طرف پیشقدمی شروع کردی جب یہ فوجی دستے سرینگر کے قریب پہنچ گئے اور قریب تھا کہ سرینگر ایئر پورٹ پر ان کا قبضہ ہوجاتا لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کا دروازہ جا کھٹکھٹایا جس نے فوری طورپر جنگ بندی کروادی اور5جنوری1949 ء کو ایک قرارداد کے ذریعے ریاست جموں وکشمیر کی قسمت کا فیصلہ ریاست کے عوام سے ایک استصواب کے ذریعے کروانے کا ڈول ڈالا گیا لیکن78 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اس قرارداد پر عمل درآمد کی نوبت ہی نہیں آئی۔ بھارت کی ہی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ معاملہ ہنوز حل طلب ہے اور کشمیری عوام اپنی آٹھ نسلیں گزر جانے کے باوجود اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے عملدرآمد کے منتظر ہیں۔
بھارت کشمیری عوام کو ان کے جائز اور قانونی حق، حق خودارادیت سے باز رکھنے کے لیے ریاستی ظلم و تشدد جاری رکھے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا بھی مرتکب ہوا ہے۔ اب دنیا کی جمہوری اور امن پسند اقوام کا یہ فرض ہے کہ وہ کشمیری عوام کو بھارت کے ظلم و جبر سے نجات دلوا کر ان کے جائز اور قانونی حق، حق خودارادیت کے حصول کے لیے راہ ہموار کریں کیونکہ یہ دو ملکوں کے درمیان زمین کا جھگڑا نہیں ہے بلکہ یہ 20ملین انسانوں کے بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے جسے دنیا کی ایک ایسی قوم نے سلب کیا ہوا ہے جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتی ہے لیکن اس کے ان ہی غیر جمہوری ہتھکنڈوں کی وجہ سے کشمیری عوام کی زندگی مسلسل عذاب سے گزر رہی ہے اور جیسے جیسے یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے کشمیری عوام کے مصائب میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کے ساتھ ساتھ اقوام عالم میں بھارت کی ساکھ بھی متاثر ہوتی جارہی ہے اور اس کے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہاہے!!!
ہر بشر اس شہر شعلہ بار کا دیتا رہا امتحان
نوک پر نیزے کی رکھ کے اپنے سر کا امتحان
اور میرے ہی لئے خوف و خطر کا امتحان
زندگی گردش شام سحر کا امتحان
( مشتاق کشمیری)

جواب دیں

Back to top button