رانا سکندر حیات کا ایک اور انقلابی فیصلہ

رانا سکندر حیات کا ایک اور انقلابی فیصلہ
تحریر: رفیع صحرائی
صوبہ پنجاب کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے پہلی دفعہ رانا سکندر حیات کی صورت میں ایسا وزیرِ تعلیم ملا ہے جو ان تھک اور ہمہ وقت متحرک رہتا ہے۔ اساتذہ اور طلبہ کے مسائل کو سمجھتا ہے اور بیوروکریسی کی رپورٹس یا پالیسیوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے فیلڈ میں جا کر معاملات و مسائل کو خود دیکھتا اور فیصلے کرتا ہے۔ اسے اس کے لیے اپنی وزیرِ اعلیٰ کی طرف سے بھرپور اعتماد بھی حاصل ہے اور فری ہینڈ بھی ملا ہوا ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہی انہوں بورڈز امتحانات میں دیئے گئے پیپرز کی ری چیکنگ کے 78سالہ فرسودہ نظام میں انقلابی تبدیلی کر کے صوبے بھر کے اساتذہ، طلبہ اور والدین کے دل جیتے ہیں۔ اب انہوں نے ایک مرتبہ پھر لکیر کا فقیر بننے کی بجائے ایک انقلابی قدم اٹھا کر اساتذہ اور طلبہ کی نظر میں اپنا وقار اور مقام بلند کیا ہے۔ اساتذہ، طلبہ اور ان کے والدین کے سکولوں کے اوقاتِ کار میں تبدیلی کے مطالبے پر رانا سکندر حیات وزیرِ تعلیم پنجاب نے حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعد سکول اوقات صبح 45:8سے دوپہر 30:1کر دیئے ہیں۔ قبل ازیں یہ اوقات 45:8تا45:2تھے۔ یہ فیصلہ نہ صرف اساتذہ کی سہولت کا باعث ہے بلکہ طلبہ کے لیے بھی ایک بہتر، پرسکون اور تعلیمی لحاظ سے موثر ماحول فراہم کرے گا۔ یہ اقدام وزیرِ تعلیم کے علم دوست اور مشفقانہ رویّے کا عکاس ہے۔
قیامِ پاکستان سے آج تک پنجاب میں یہ اصول چلا آ رہا تھا کہ موسمِ گرما (16اپریل تا 15اکتوبر) میں سکولوں کے اوقاتِ کار ساڑھے پانچ گھنٹے ہوتے جبکہ موسمِ سرما (16اکتوبر تا 15اپریل) میں سکول کے اوقاتِ کار چھ گھنٹے کر دیئے جاتے۔ سردی کے موسم میں آدھا گھنٹہ ٹائم کیوں بڑھایا جاتا تھا۔ ہمیں تو آج تک اس لاجک کی سمجھ میں نہیں آئی۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ گرمی کے موسم میں ہمارے ہاں دن لمبے ہوتے ہیں۔ دن کا دورانیہ چودہ گھنٹے تک ہو جاتا ہے جبکہ موسمِ سرما میں یہ دورانیہ لگ بھگ دس گھنٹے ہوتا ہے۔ اب اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دن کے دورانیے کے حساب سے موسمِ سرما میں سکولوں کے اوقاتِ کار کم اور موسمِ گرما میں زیادہ ہوں لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔ ہم لوگ لکیر کے فقیر ہیں۔ انگریز نے جو قانون یا اصول بنا دیا آنکھیں بند کر کے ہم اس پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔ اس میں کسی قسم کی تبدیلی کو گناہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کے فائدے یا نقصان پر خود سے کبھی غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ شاید اسی لیے انگریز نے کہا تھا کہ برِصغیر کے لوگوں کی دماغی صلاحیت انگریزوں کے مقابلے میں آدھی ہے۔ اسی اصول کے تحت انہوں نے اپنے ملک میں امتحانات میں پاسنگ مارکس 66فیصد جبکہ برِصغیر میں ہمارے لیے 33فیصد رکھے تھے۔ ہم لوگ انگریز سے آزادی کے 78برس بعد بھی اس کے کہے کو سچ ثابت کرنے کے لیے پاسنگ مارکس 33فیصد پر انحصار کیے بیٹھے ہیں۔ عملی طور پر ہم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہم آدھی دماغی صلاحیتوں والے لوگ ہیں۔
محکمہ ریلوے میں بھی یہی نظام تھا کہ موسمِ گرما کے مقابلے میں موسمِ سرما میں ٹرینیوں کا وقت ایک گھنٹہ پہلے کر دیا جاتا تھا۔ لوگوں نے ریلوے حکام سے بار بار درخواست کی کہ اوقاتِ کار کی یہ تبدیلی نامناسب ہے۔ گرمیوں میں صبح پانچ بجے سورج طلوع ہونے کے ساتھ روانہ ہونے والی ٹرین جب سردی کے موسم میں صبح چار بجے روانہ ہوگی تو اس وقت سورج نکلنے میں سوا تین گھنٹے باقی ہوتے ہیں۔ مسافروں کے لیے بہت دشواری ہوتی ہے لیکن ریلوے حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تھی۔ ریلوے کی چند ٹرینیں پرائیویٹ ہوئیں اور انہیں جب سابقہ اصول کو فالو کرنیپر نقصان کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے اپنے اوقاتِ کار پر نظرثانی کرتے ہوئے پرانے اصول کو خیرباد کہہ دیا۔
اس وقت پنجاب بھر میں سرکاری سکولوں میں اوقاتِ کار صبح پونے نو بجے سے دن پونے تین بجے تک تھے۔ یعنی کل دورانیہ چھ گھنٹے بنتا تھا۔ سکول ٹائم کے بعد آج کل بچے اکیڈمی پڑھنے چلے جاتے ہیں۔ ساڑھے تین بجے تک اکیڈمی پہنچ کر جب چھ سات بجے وہ چھٹی کرتے ہیں تو شام کا اندھیرا چھا چکا ہوتا ہے۔ آگے فوگ اور سموگ کا موسم بھی آ رہا ہے۔ اس موسم میں چار بجے سے اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ ایسے میں دور دراز کے دیہات سے سکول پہنچنے والے طلبہ خصوصاً طالبات کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ روشنی کم یا اندھیرا ہونے کی وجہ سے طلبہ حادثات کا شکار ہو جاتے۔ شام کے وقت سردی بڑھنے کی وجہ سے سفر کر کے بیمار بھی ہو جاتے۔ بچے بھوک اور پڑھائی کی وجہ سے بہت زیادہ تھک چکے ہوتے خصوصاً پرائمری کلاسز کے بچے تو باقاعدہ نیند کے خمار میں ہوتے۔ ان بچوں کو آرام کی سخت ضرورت ہوتی۔ مگر آرام نہیں کر سکتے تھے کہ انہیں ابھی سکول سے ملا ہوا ہوم ورک بھی کرنا ہوتا۔ بہت سے بچوں نے کسی ٹیسٹ یا امتحان کی تیاری کرنا ہوتی جس کی وجہ سے وہ بالکل ہی نڈھال ہو جاتے۔ وہ پوری توجہ سے پڑھ نہیں پاتے تھے۔
اگر آپ کسی مزدور کو دیکھیں تو وہ صبح سے شام تک نو دس گھنٹے کام کرنے کے بعد بھی اتنا نہیں تھکتا جتنا پانچ، چھ گھنٹے کے تدریسی عمل کے بعد بچے اور اساتذہ تھک جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسمانی مشقت کی نسبت ذہنی مشقت زیادہ تھکا دینے والا کام ہے۔ اب پونے تین بجے کی بجائے ڈیڑھ بجے چھٹی کی صورت میں بچ جانے والے سوا گھنٹے میں طلبہ اکیڈمی بھی پڑھ سکتے ہیں۔ وقت پر گھر بھی پہنچ سکتے ہیں اور تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد تازہ دم ہو کر ہوم ورک اور ٹیسٹ یا امتحان کی تیاری بھی کر سکتے ہیں۔ بہت خوب رانا سکندر حیات!۔ آپ واقعی اپنے منصب کا حق ادا کر رہے ہیں۔




