خلع کی بڑھتی ہوئی شرح ۔۔۔ کیا عورت آزادی چاہتی ہے؟؟

خلع کی بڑھتی ہوئی شرح ۔۔۔ کیا عورت آزادی چاہتی ہے؟؟
عقیل انجم اعوان
لاہور میں رواں سال چھ ہزار دو سو خواتین نے عدالتوں سے خلع لے کر ازدواجی تعلق ختم کیا۔ یہ تعداد نہ صرف تشویش ناک ہے بلکہ معاشرتی سطح پر ایک گہرے بحران کی علامت بھی ہے۔ خلع کے یہ اعداد و شمار محض چند گھروں کی کہانیاں نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارا خاندانی نظام بگاڑ کا شکار ہو چکا ہے۔ اس صورت حال کا تجزیہ مختلف پہلوں سے کیا جا سکتا ہے جن میں سماجی، قانونی، نفسیاتی اور معاشی عوامل نمایاں ہیں۔
پہلا پہلو معاشرتی رویوں کا ہے۔ ہمارے معاشری میں مرد کو اب بھی حاکم تصور کیا جاتا ہے جبکہ عورت کو تابع دار سمجھا جاتا ہے۔ شادی کو شراکت کے بجائے اطاعت کا رشتہ بنا دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جب عورت اپنی رائے یا خواہش کا اظہار کرتی ہے تو اسے ضد، گستاخی یا بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ مرد اپنی سماجی تربیت کے باعث عورت پر اختیار کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ یہی رویہ گھریلو تشدد، بدسلوکی اور نفسیاتی دبائو کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ خلع لینے والی زیادہ تر خواتین نے یہی کہا کہ وہ شوہروں کے رویوں اور تشدد سے تنگ آ کر عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوئیں۔
دوسرا پہلو معاشی حالات سے جڑا ہے۔ گزشتہ چند برس میں مہنگائی اور بے روزگاری نے خاندانوں کے اندر تنازعات کو بڑھایا ہے۔ جب گھر کا خرچ پورا نہ ہو تو تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مرد جب معاشی دبا برداشت نہیں کر پاتا تو اکثر یہ دبائو بیوی یا بچوں پر نکالتا ہے۔ عورت اگر معاشی طور پر خود مختار ہو جائے تو اسے تشدد یا بے احترامی برداشت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ اور کمائی کرنے والی خواتین خلع کی طرف زیادہ مائل نظر آتی ہیں کیونکہ وہ مالی انحصار سے آزاد ہو چکی ہیں۔
تیسرا عنصر نفسیاتی عدم توازن ہے۔ گھریلو جھگڑے اور تشدد کے پیچھے اکثر عدم برداشت، ذہنی دبائو اور رویوں کی خرابی ہوتی ہے۔ پاکستان میں شادی سے پہلے یا بعد میں ازدواجی تربیت یا کونسلنگ کا کوئی موثر نظام موجود نہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شادی ایک رسم ہے جو بس نبھانی ہوتی ہے۔ نہ شوہر جانتا ہے کہ عورت کے جذباتی تقاضے کیا ہیں اور نہ عورت یہ سمجھتی ہے کہ مرد کو کس طرح اعتماد میں رکھا جائے۔ اس کمی کا نتیجہ رشتے کی ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔
قانونی زاویے سے دیکھا جائے تو خلع کا قانون عورت کو ایک محفوظ راستہ فراہم کرتا ہے تاکہ وہ ظلم یا دبا کی صورت میں اپنی آزادی حاصل کر سکے۔ مگر یہی قانون ہمارے سماجی ڈھانچے کے سامنے اکثر کمزور ثابت ہوتا ہے۔ عدالتوں میں خلع کے مقدمات طویل ہوتے ہیں۔ عورت کو کئی مہینوں تک عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ خاندان اور معاشرہ بھی اسے الزام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کے باوجود اگر چھ ہزار سے زائد خواتین نے خلع کا فیصلہ کیا تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حالات واقعی ناقابل برداشت ہو چکے تھے۔
یہ مسئلہ صرف گھریلو سطح تک محدود نہیں۔ ریاستی اداروں کے پاس خاندانی تنازعات کے حل کے لیے کوئی موثر نظام نہیں۔ فیملی کورٹس کا دبائو بڑھ چکا ہے۔ لاہور کی عدالتوں میں روزانہ درجنوں کیس فائل ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین تشدد بے عزتی یا مالی عدم تعاون کی شکایت کرتی ہیں۔ پولیس کے پاس بھی گھریلو تشدد کے مقدمات کے حل کے لیے مخصوص تفتیشی عملہ نہیں۔ زیادہ تر کیس یا تو صلح پر ختم ہوتے ہیں یا بغیر نتیجے کے بند کر دئیی جاتے ہیں۔ اس طرح عورت کے پاس واحد راستہ خلع ہی بچتا ہے۔
تعلیم کا زاویہ بھی اہم ہے۔ جن علاقوں میں خواتین کی تعلیم کا تناسب زیادہ ہے وہاں خلع کے کیس بھی نسبتاً زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تعلیم عورت کو شعور دیتی ہے وہ اپنے حقوق پہچانتی ہے ظلم کو برداشت کرنے کے بجائے قانونی راستہ اختیار کرتی ہے۔ دوسری طرف دیہی یا کم تعلیم یافتہ علاقوں میں عورت ظلم سہنے کو تقدیر سمجھتی ہے۔ اس فرق سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ اب خاموش رہنے کے بجائے عمل کر رہا ہے۔سوشل میڈیا کے اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ چند برسوں میں خواتین نے اپنی بات کہنے کے لیے نئے پلیٹ فارمز حاصل کیے ہیں۔ وہ اب یہ جان چکی ہیں کہ تشدد، ذہنی اذیت یا زبردستی کے رشتے کو قانونی طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ مختلف سوشل گروپس، یوٹیوب چینلز اور آن لائن کونسلنگ سروسز نے خواتین میں آگاہی پیدا کی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ایک نیا رجحان بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ کیسز میں معمولی اختلافات کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جس سے خاندانی نظام مزید کمزور ہوتا ہے۔
ایک اہم پہلو ریاستی پالیسی کی کمزوری ہے۔ حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے مختلف قوانین تو بنائے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ گھریلو تشدد کے خلاف بل 2021ء میں منظور ہوا مگر اب بھی زیادہ تر کیسز میں پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے ہچکچاتی ہے۔ پناہ گاہیں کم ہیں قانونی مدد حاصل کرنا مشکل ہے اور معاشرتی دبا اس سب پر حاوی ہے۔ اگر ریاست واقعی خاندانی نظام کو بچانا چاہتی ہے تو اسے قانونی تحفظ کے ساتھ ساتھ سماجی شعور بیدار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ مردوں کے لیے بھی نفسیاتی اور سماجی معاونت کا کوئی نظام موجود نہیں۔ جب مرد اپنی ذمہ داریوں یا ذہنی دبائو سے نبردآزما نہیں ہو پاتا تو وہ جارحانہ رویہ اختیار کرتا ہے۔ اگر اسے بروقت کونسلنگ یا رہنمائی فراہم کی جائے تو کئی گھر ٹوٹنے سے بچ سکتے ہیں۔ مغربی ممالک میں ازدواجی کونسلنگ ایک عام عمل ہے وہاں اختلافات کو بات چیت اور تربیتی نشستوں کے ذریعے حل کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق لاہور کی فیملی عدالتوں میں روزانہ قریباً پچاس سے ساٹھ خلع کے کیس فائل ہوتے ہیں۔ ان میں اکثریت ایسی خواتین کی ہے جو شادی کے دو سے پانچ سال کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کرتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہی کہ شادی کے ابتدائی برس سب سے نازک مرحلہ ہیں جہاں سمجھ بوجھ، برداشت اور موافقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر جوڑے ابتدائی جھگڑوں کو حل کرنے کے بجائے علیحدگی کو آسان راستہ سمجھ لیتے ہیں۔
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ خلع کے بڑھتے کیس دراصل ایک معاشرتی منتقلی کا اظہار ہیں۔ عورت اب محض تابع دار نہیں بلکہ فیصلہ کرنے والی فرد کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ یہ تبدیلی مثبت بھی ہے اور منفی بھی۔ مثبت اس لیے کہ عورت اپنے حقوق سے آگاہ ہو رہی ہے۔ منفی اس لیے کہ برداشت اور سمجھوتے کے اصول کمزور ہو رہے ہیں۔ ایک مضبوط معاشرہ اس وقت بنتا ہے جب آزادی اور ذمہ داری میں توازن قائم رہے۔
ریاستی سطح پر خاندانی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ بنیادی اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے شادی سے قبل تربیتی کورسز کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ دونوں فریق رشتے کی نوعیت کو سمجھ سکیں۔ دوسرے فیملی کونسلنگ سینٹرز کو ہر ضلع میں فعال کیا جائے تاکہ تنازعات عدالتوں تک پہنچنے سے پہلے حل ہو جائیں۔ تیسرے، گھریلو تشدد کے خلاف قانون پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے تاکہ خواتین کو تحفظ کا احساس ہو۔ اور چوتھے، مردوں کے لیے نفسیاتی رہنمائی پروگرام شروع کیے جائیں تاکہ وہ جذباتی دبائو کو مثبت انداز میں سنبھال سکیں۔
یہ کہنا غلط نہیں کہ خلع کے بڑھتے رجحان نے ہمارے سماجی ڈھانچے کی کمزوریاں بے نقاب کر دی ہیں۔ یہ محض مرد یا عورت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی ناکامی ہے۔ جب ادارے خاندان اور ریاست اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے تو معاشرہ اس طرح کے بحرانوں کا شکار ہوتا ہے۔
اگر ہم واقعی اس رجحان کو کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں الزام تراشی کے بجائے حل تلاش کرنا ہوگا۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ عورت کا خلع لینا بغاوت نہیں بلکہ ایک ردعمل ہے۔ یہ ردعمل اس ماحول کے خلاف ہے جہاں تشدد بے احترامی اور عدم مساوات کو معمول بنا دیا گیا ہے۔ جب تک ہم اس ماحول کو تبدیل نہیں کرتے عدالتوں کے باہر خلع کی قطاریں بڑھتی رہیں گی۔
یہ وقت ہے کہ ریاست، معاشرہ، مذہبی رہنما اور تعلیمی ادارے سب مل کر خاندانی نظام کی از سر نو تشکیل کریں۔ اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے تو آنے والے برسوں میں یہ مسئلہ صرف لاہور تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پورے ملک میں خاندانی استحکام کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔





