پنجاب میں گندم کے ذخائر، آٹا مہنگا کیوں؟

پنجاب میں گندم کے ذخائر، آٹا مہنگا کیوں؟
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
انسان ٹماٹر کے بغیر تو زندہ رہ سکتا ہے روٹی کے بغیر اس کا زندہ رہنا مشکل ہے۔ بظاہر دیکھا جائے تو کے پی کے کے ساتھ پنجاب میں بھی عوام کو روٹی مہنگی دستیاب ہے نان بائیوں کا کہنا ہے انہیں آٹا مہنگا میسر ہے لہذا روٹی کی قیمت میں اضافہ ضروری ہے۔ نان بائیوں نے 28اکتوبر کو ( آج ) ہڑتال کی کال دے دی ہے۔ کے پی کے میں نان بائیوں نے روٹی کا وزن ایک سو بیس گرام سے کم کرکے نوے گرام کر دیا ہے۔ کے پی کے صوبے میں گندم وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے، لیکن وہاں کے باسیوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ناکافی ہے، جس کے پیش نظر پنجاب سے گندم وہاں بھیجا جانا معمول ہے۔ پنجاب سے کے پی کے میں گندم کی سپلائی بند ہے، جس سے صوبہ کے پی کے عوام روٹی مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں۔ کے پی کے میں ایک سو پچاس روپے کلو آٹا فروخت ہو رہا ہے۔ تعجب ہے پنجاب کی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے بین الصوبائی سطح پر گندم اور آٹے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ پنجاب کے پاس وافر مقدار میں گندم موجود ہے، جس کی مالیت سو ارب روپے ہے ۔ کے پی کے بعد پنجاب کے عوام بھی ان متاثرین میں شامل ہیں جہاں نان بائیوں نے اپنے طور پر روٹی اور نان کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ کے پی کے کو 53لاکھ میٹرک ٹن گندم ضرورت ہے جبکہ مقامی طور پر گند م کی پیدا وار 15لاکھ میٹرک ٹن ہے، گویا اس طرح صوبے کو گندم کے معاملے پر پنجاب پر کافی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ برس گندم کی خریداری میں لیت و لعل کیا ان کا موقف تھا یوکرین سے سستی گندم کی درآمد سے مقامی طورپر گندم کی خریداری ممکن نہیں۔ ہمیں یاد ہے وزیراعظم شہباز شریف نے نگران دور میں کے پی کے دورے کے دوران یہ اعلان کیا تھا وہ عوام کو اپنے کپڑے بیچ کر سستے داموں آٹا فراہم کریں گے شائد وزیراعظم اپنا وعدہ بھول گئے ہیں ورنہ وہ تو عوام کی خدمت کے لئے دن رات کوشاں رہنے والے وزیراعظم ہیں۔ وفاقی حکومت شائد بڑے بڑے زمینداروں کو گندم پر سبسڈی دیتی ہے، لیکن آئی ایف ایم کے چارٹر کے مطابق جو ملک امیروں کو سبسڈی دیں انہیں قرضہ نہیں مل سکتا۔ چنانچہ آئی ایم ایف پاکستان میں گندم کی امدادی قیمت کے تحت سرکاری سطح پر خریداری کو سبسڈی قرار دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کے نزدیک گندم کی امدادی قیمت سے ستر فیصد بڑے زمیندار استفادہ کرتے ہیں، اس لیے بڑے زمینداروں کا سبسڈی پر کوئی حق نہیں ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے کے پی کے کو پنجاب سے گندم کی سپلائی بند ہے کہیں ایسا تو نہیں وہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے ؟۔ عجیب تماشہ ہے کے پی کے میں چینی لوگوں کو دو سو دس روپے کلو مل رہی ہے، جبکہ وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے اس نے چینی سستی کر دی ہے۔ گو افغانستان سے تجارت بند ہونے سے بہت سی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ قدرتی امر ہے، لیکن پاکستان گندم افغانستان سے تو درآمد نہیں کرتا، بلکہ یہاں سے گندم وہاں سمگل کی جاتی ہے۔ افغانستان سے ہمیں ٹماٹر اور خشک میوہ جات ضرور آتے ہیں، جن کے بغیر انسانی زندگی کو خطرات لاحق نہیں ہو سکتے، البتہ آٹا اور چینی انسان کی بنیادی ضروریات ہیں۔ کے پی کے میں گندم کے بحران کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے، جہاں سے گندم افغانستان کی طرف سمگل کرنے میں بڑی آسانی ہے۔ روس افغان جنگ کے دوران گندم، چینی اور گھی کی سمگلنگ کرنے والوں نے اربوں ڈالر کمائے ۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے وفاقی حکومت نے افغانستان بارے درست موقف اختیار کیا ہے جب تک سکیورٹی معاملات درست نہیں ہوں گے پاک، افغان بارڈر بند رہے گا۔ پاکستان کی حکومت ماضی میں اس طرح کے موقف اختیار کرتی تو شائد اب تک معاملات بہت حد تک بہتر ہونے کی امید تھی۔ اس سلسلے میں ہم وفاقی حکومت کی ساتھ ملکی اداروں کو اس بات کا کریڈٹ دیئے بغیر نہیں رہ سکتے جن کی قربانیوں سے وطن عزیز کی سرحدیں محفوظ ہیں۔ مسلح افواج کے بہادر سپوت جانوں کے نذرانے پیش کرکے دہشت گردی کا جوان مردی سے مقابلہ کر رہے ہیں، جس سے ہمارا ملک الحمدللہ محفوظ ہے۔ کے پی کے میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے بعد امید کی جا سکتی ہے وہ اداروں کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بھرپور تعاون کو یقینی بنائیں گے، تاکہ دہشت گردی کے ناسور کا مکمل خاتمہ ہو سکے۔ ہم یہ نہیں کہتے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اپنے قائد عمران خان سے ہدایات نہ لیں، تاہم انہیں دہشت گردی کے خاتمے کی حد تک تمام اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔ وزیراعلیٰ کا یہ کہنا اب فیصلے سڑکوں پر ہوں گے ہمیں اچھا نہیں لگا، انہیں تحمل مزاجی اور بردباری سے اپنے معاملات اور صوبے کے عوام کو دہشت گردی کے چنگل سے نکالنے کے لئے مل بیٹھ کر دہشت گردی کے خاتمے کا کوئی شافی حل نکالنا چاہیے نہ کہ جذبات کی لہر میں اپنی وزارت اعلیٰ کو چلائیں۔ ان کی وزارت اعلیٰ اسی وقت کامیابی سے ہمکنا ر ہو سکتی ہے جب وہ اپنے معاملات کو سوچ سمجھ کر اور جذبات کی لہر سے نکل کر چلائیں گے۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو اپنے قائد کی رہائی کے لئے پوری کوشش کرنی چاہیے آج ان کی وزارت اعلیٰ بانی پی ٹی آئی کی مرہون منت ہے۔ صوبے کے عوام کو گندم کی فراہمی کے لئے انہیں وفاقی حکومت سے بات چیت کرنی چاہیے اگر وہ اپنے صوبے کے عوام کو سستے داموں آٹا اور چینی فراہم کرنے کے ساتھ دہشت گردی سے محفوظ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو عوام انہیں ہمیشہ شاندار الفاظ میں یاد کریں گے، ورنہ اگر وہ اسی طرح جذبات کی لہر میں جلسوں میں خطاب کرتے رہے تو صوبے کے عوام کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ پی ٹی آئی کے پی کے میں تیسری مرتبہ راج کر رہی ہے۔ اب کی بار بھی عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہتی ہے تو وہاں کے رہنے والوں کو آئندہ انتخابات میں دوسرے آپشنز پر سوچنے کے لئے مجبور ہوں گے، لہذا پی ٹی آئی کو صوبے کے عوام کی مشکلات کا پورا ادراک ہونا چاہیے، جن کی روشنی میں وہاں کے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں آسانی ہو گی۔ ہم توقع کرتے ہیں پنجاب سے کے پی کے کو گندم کی سپلائی پر پابندی جلدازجلد اٹھا لی جائے گی، تاکہ وہاں کے عوام کی مشکلات کم ہو سکیں۔





