ColumnQadir Khan

سندھ سرنڈر پالیسی ؟

سندھ سرنڈر پالیسی ؟
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
دریائے سندھ کے کناروں پر، جہاں دلدل اور جنگل ملتے ہیں، وہاں ایک ایسا علاقہ ہے جہاں قانون کی بجائے ڈاکوئوں کا حکم چلتا ہے۔ شکارپور، کشمور، گھوٹکی اور سکھر کے یہ علاقے،کچا اب ایک عجیب و غریب ڈرامے کا مرکز بن گئے ہیں۔سندھ سرنڈر پالیسی۔ نام سنتے ہی لگتا ہے کہ کوئی ہالی ووڈ ڈیکلریشن ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسا ڈھونگ ہے جو عوام کو ماہ ہزار مرتبہ دکھایا جا چکا ہے۔ اکتوبر 2025ء میں جب شکارپور میں 72ڈاکوئوں نے ہتھیار ڈالے، تو ایسے لگتا تھا کہ کسی شاہی مہمان کا استقبال ہو رہا ہو، نہ کہ مسلح ڈاکوئوں کا سمجھوتہ۔ دو سو سے زیادہ ہتھیار جمع ہوئے، آر پی جی سیون سے لے کر بھاری مشین گنیں۔ انعامات کی کل رقم؟ ساٹھ ملین روپے۔ واہ وہ!
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ڈاکو راج کا خاتمہ ہے، یا محض ایک اور پردہ پوشی؟ کچے کی بدنام زمانہ داستان کو سمجھنے کے لیے، ہمیں ایک سادہ حقیقت پر نظر ڈالنی ہوگی۔ یہ ڈاکو کوئی عام چور اچکے نہیں۔ یہ منظم مافیا کے باعزت شراکت دار ہیں، جن کے پاس فوجی تربیت ہے اور جدید ترین ہتھیار ہیں۔ 2024ء میں تنہا 306افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا، اور ایک ارب روپے سے زائد رقم ان کی جیبوں میں گئی۔ یہ کوئی چھوٹی موٹی سرگرمی نہیں، بلکہ ایک باقاعدہ منظم کاروبار ہے۔
اب اس سرنڈر پالیسی کی نیت سننے کے بعد سب کچھ اور بھی مضحکہ خیز لگتا ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوں کے بچوں کو تعلیم ملے گی، انہیں نوکری دی جائے گی، اور وہ معاشرے میں باعزت زندگی گزاریں گے۔ کیا خوبصورت خیال! لیکن حقیقت سنیں، یہ ڈاکو کون ہیں؟ نثار سبزوئی، جس کے خلاف 82مقدمات ہیں؟ سوکھیو تیغانی، جو 49مقدمات میں مطلوب ہے؟ یہ لوگ کیسے معصوم بن گئے کہ ایک سرکاری وعدے پر ہتھیار ڈال دیں؟ یہ وہ سردار ہیں جنہوں نے اپنی پناہ گاہوں کو قلعوں میں تبدیل کر رکھا ہے۔ ڈرون فوٹیجز دکھاتی ہیں کہ انہوں نے خندقیں کھود رکھی ہیں، مٹی کی دیواریں تیار کی ہیں، اور فرار کے تنگ راستے بنائے ہیں۔ یہ اپنی چھوٹی سلطنتوں کے روح برتن ہیں۔
سرنڈر پالیسی دراصل ایک سیاسی تماشہ ہے، جو ہر چند سال بعد دوبارہ پیش کیا جاتا ہے۔ جب الیکشن قریب ہوں، یا کوئی سیاسی دبائو ہو، تو بس ایک نئی پالیسی کا اعلان کر دو۔ کچھ ڈاکوں کو ہتھیار ڈلوائو، میڈیا کو بلائو، اور واہ واہ کروائو۔ لیکن اصل کھیل کبھی نہیں بدلتا۔ یہ وہی جاگیردارانہ نظام ہے جو چار دہائیوں سے کچے کو اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہے۔ اس سرپرستی کا نظام اتنا مضبوط اور پیچیدہ ہے کہ اسے توڑنا تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ ڈاکو تنہا نہیں رہتے ۔ ان کے پیچھے ایک مکمل ڈھانچہ ہے جو انہیں ہتھیار، محفوظ پناہ گاہیں، اور سیاسی سرپرستی فراہم کرتا ہے۔ جاگیردار انہیں اپنی طاقت کا حصہ سمجھتے ہیں، اور یہ ڈاکو بدلے میں سیاسی خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہ ایک معاہدہ ہے، ایک سمجھوتہ ہے، جہاں سوائے کچے کے عوام کے سب کے اپنے فوائد ہیں۔
کچے کے لوگ اس ڈرامے کے واقعی شکار ہیں۔ وہ لوگ جو شام ڈھلتے ہی گھروں میں قید ہو جاتے ہیں، جن کے بچوں کا سکول جانا ایک خطرناک مہم بن گیا ہے، اور جن کے کاروبار بھتہ خوری کی نذر ہو رہے ہیں۔ انڈس ہائی وے اور موٹروے ایم فائیو رات کو نو گو ایریاز میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کوئی بھی مسافر بغیر مسلح اسکارٹ کے یہاں سے گزرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ اگر کوئی ہمت کر بھی لے تو یا تو اغوا ہو جاتا ہے یا پھر بھتہ دینے پر مجبور۔ کاند ھکوٹ کا ڈاکٹر سندر داس، جسے آر پی جی گولے کے ساتھ بھتے کی دھمکی ملی، کراچی میں فرار ہو گیا۔ لیکن کیا ہر کوئی کراچی بھاگ سکتا ہے؟ ان غریب لوگوں کے لیے یہ سرنڈر پالیسی کیا لے کر آئے گی؟ کیا ان کی سڑکیں محفوظ ہو جائیں گی؟ کیا انہیں بغیر خوف کے کام کرنے کی آزادی ملے گی؟۔
سرنڈر پالیسی کی سب سے عجیب بات اس کے عملی کردار میں ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ 282ڈاکوئوں نے سرنڈر کے لیے درخواست دی، اور 70کو منظوری دی گئی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ڈاکو واقعی اپنی سلطنتیں چھوڑ دیں گے؟ کیا یہ اپنی قبائلی اور جاگیردارانہ سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیں گے؟ ماضی کو دیکھیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پالیسیاں عارضی طور پر کام کرتی ہیں۔ کچھ ڈاکو ہتھیار ڈالتے ہیں، کچھ وقت کے لیے سستی رہتے ہیں، اور پھر جب سب کچھ بھول جاتے ہیں، تو وہ پھر سے واپس آ جاتے ہیں۔ یہ ایک سائیکل ہے، ایک لامختتم ڈرامہ۔
اب اس بحالی کے وعدوں کی بات کریں جو سرنڈر پالیسی میں دئیے گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ہتھیار ڈالنے والوں کے بچوں کو تعلیم ملے گی، انہیں نوکریاں دی جائیں گی، اور صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ سنیں، یہ تو ویسے ہی ہی جیسے کوئی کہے، آپ اپنا راکٹ لانچر دیں، ہم آپ کو سرکاری نوکری دیں گے۔ کیا سندھ حکومت کے پاس اتنی نوکریاں ہیں کہ وہ ہزاروں ڈاکوئوں کو ملازمت دے سکے؟ اور کیا یہ لوگ، جو برسوں سے لوٹ مار اور بھتہ خوری میں ملوث ہیں، اچانک سرکاری دفتروں میں کلرک بن جائیں گے؟ یا یہ صرف ایک سیاسی نعرہ ہے، جس کا مقصد عوام کو خوش کرنا ہے؟۔
یہاں ایک اور اہم حقیقت ہے جو سرنڈر پالیسی کو اور مزید مضحکہ بناتی ہے۔ جب یہ پالیسی سامنے آئی، تو سوال پیدا ہوتا ہے کیوں اب؟ چار دہائیوں سے کچا ڈاکو راج کی تابانی میں ڈوبا ہے، لیکن اب اچانک حل کی بات کیوں؟ کیا الیکشن قریب ہیں؟ کیا کوئی بڑا سیاسی دبائو ہے؟ یا پھر بس کوئی حکومتی پروپیگنڈا ہے؟ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے، تو اسے پہلے ان جاگیرداروں اور سیاسی رہنماں کو لگام ڈالنی ہوگی جو اس نظام کو چلا رہے ہیں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ جب تک ووٹ بینک اور سیاسی طاقت ان جاگیرداروں کے ہاتھ میں ہے، کوئی حکومت ان سے ٹکرانے کی ہمت نہیں کرے گی۔
تو آخری سوال یہ ہے کہ کیا یہ سرنڈر پالیسی کچے کے ڈاکو راج کو ختم کرے گی؟ جواب سادہ ہے، نہیں۔ یہ محض ایک اور ڈرامہ ہے، جس میں کچھ ڈاکو ہتھیار ڈالیں گے، کچھ تصویریں کھنچائی جائیں گی، میڈیا خبریں دے گا، اور پھر سب کچھ پہلے کی طرح ہو جائے گا۔ حقیقی حل تب آئے گا جب سیاسی سرپرستی کا جال توڑا جائے، جب جاگیردارانہ نظام کو ختم کیا جائے، اور جب قانون کی عملداری واقعی غریب اور طاقتور دونوں پر یکساں ہو۔ اب تک، کچا اپنی سیاہ داستان سناتا رہے گا، اور ہم سب ’’ عوام سے لے کر میڈیا تک‘‘ اس تماشے کے محض تماشائی بنے رہیں گے۔

جواب دیں

Back to top button