Column

دراندازی ناکام: 25دہشت گرد ہلاک، 5جوان شہید

دراندازی ناکام: 25دہشت گرد ہلاک، 5جوان شہید
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی حالیہ کارروائیاں، جو 24اور 25اکتوبر 2025ء کو افغانستان سے پاکستان میں فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کی دراندازی کے خلاف کی گئیں، ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ پاکستان کو سرحدوں پر مسلسل دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے۔ اس کامیاب کارروائی میں 25دہشت گرد ہلاک ہوئے، جن میں 4خودکُش بمبار بھی شامل تھے۔ لیکن اس کے ساتھ، ان حملوں میں پاکستان کے 5بہادر سپوتوں کی شہادت بھی ہوئی، جن کی قربانیاں نہ صرف ان کی حب الوطنی کی مظہر ہیں، بلکہ یہ پورے ملک کے عزم کو مضبوط کرنے کا سبب بھی بنی ہیں۔ ان کارروائیوں نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے، خاص طور پر افغانستان کے ساتھ تعلقات اور دہشت گردوں کے خلاف افغان حکومت کی ذمے داریوں کے حوالے سے۔ پاکستان کی سرحدوں پر ہونے والی حالیہ دہشت گردی کی کارروائیاں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے سنگین مسئلہ بن چکی ہیں۔ افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت کے تحت، فتنہ الخوارج جیسے دہشت گرد گروہ پاکستان کی سرحدوں میں دراندازی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے پورے ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ افغانستان سے دہشت گردوں کی یہ دراندازی خاص طور پر اس وقت تشویش کا باعث بنی، جب دونوں ممالک کے درمیان ترکیہ میں مذاکرات جاری ہیں۔ ان واقعات نے ایک مرتبہ پھر اس بات کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے کہ افغانستان اپنی سرحدی نگرانی کو مزید موثر بنائے اور دہشت گردوں کو اپنی سرزمین کے ذریعے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے سے روکے۔پاکستان کے حکام کی طرف سے بار بار یہ مطالبہ کیا جاچکا کہ افغان حکومت اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے سے روکے۔ دوحہ معاہدے کے تحت افغان حکومت پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ طالبان اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائیاں کرے، تاکہ پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ روکا جاسکے۔ تاہم، افغان حکومت کی طرف سے اس معاملے میں ایک واضح اور مضبوط حکمت عملی کا فقدان نظر آرہا ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے حالیہ کارروائیوں میں دہشت گردوں کی دراندازی کو نہ صرف ناکام بنایا، بلکہ ان کے خاتمے کے لیے انتہائی جرأت مندانہ قدم اٹھایا۔ اس آپریشن میں جہاں 25دہشت گرد ہلاک ہوئے، وہیں 5پاکستانی فوجی بھی شہید ہوگئے، جن میں سپاہی نعمان الیاس کیانی، سپاہی محمد عادل اور حوالدار منظور حسین شامل ہیں۔ یہ شہادتیں پاکستان کی فوج کی قربانیوں کی ایک اور مثال ہیں۔ ان بہادر سپوتوں کی قربانیاں نہ صرف سرحدوں کی حفاظت کی غماز ہیں، بلکہ پاکستان کے عزم و ارادے کو بھی تقویت دیتی ہیں کہ ملک سے دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔ شہیدوں کے اہل خانہ کے لیے یہ لمحے غم و اندوہ کا باعث ہیں، لیکن ان کی قربانیاں قوم کے لیے ایک نیا جذبہ اور عزم پیدا کرتی ہیں۔ پاکستانی فوج کی یہ قربانیاں ایک پیغام ہیں کہ دشمن چاہے جتنا بھی طاقتور ہو، پاکستان کی فوج اپنی سرحدوں کے دفاع کے لیے ہمیشہ تیار رہے گی۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کے لیے دہشت گردوں کی سرپرستی کے حوالے سے کئی سوالات اٹھے ہیں۔ طالبان نے کئی مرتبہ پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزامات کو مسترد کیا ہے، تاہم زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ پاکستان کا واضح موقف ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی ناقابل قبول ہے۔ ان دہشت گرد گروپوں میں خاص طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) شامل ہے، جو افغان سرزمین پر پناہ گزین ہیں اور پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔پاکستان نے افغان طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں، تاہم افغان طالبان کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے۔ استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی وفد نے افغان طالبان کو واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ پاکستان کے مفادات کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ طالبان کا ردعمل اگرچہ نرگسیت کے عناصر پر مبنی ہے، لیکن یہ بات واضح ہوچکی کہ افغان طالبان نے اپنی پالیسیوں میں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے سنجیدگی دکھانی ہوگی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا عمل جاری ہے، لیکن افغان طالبان کی طرف سے عدم تعاون اور دہشت گردوں کی سرپرستی کے باعث اس عمل میں پیش رفت مشکل دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کو اپنی سرحدوں کی سیکیورٹی مزید مستحکم بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ دہشت گرد دوبارہ دراندازی کی کوشش نہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ، پاکستان کو عالمی سطح پر افغان حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے اپنی سفارتی حکمت عملی کو مزید موثر بنانا ہوگا، تاکہ افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کے مسئلے کا حل نکالا جاسکے۔ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید درستی کی ضرورت ہے، تاکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے دہشت گردی کا قلع قمع اور خطے میں امن قائم کر سکیں۔ افغان حکومت کو اپنے وعدوں پر عمل کرنا ہوگا اور دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کو اپنی داخلی سیکیورٹی کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کا موثر طریقے سے مقابلہ کر سکے۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی قربانیاں اور دہشت گردوں کے خلاف ان کی کامیاب کارروائیاں اس بات کا واضح پیغام دیتی ہیں کہ ملک اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔ تاہم، افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائیوں کا فقدان پاکستان کے لیے سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کا موقف واضح ہے کہ دہشت گردوں کی سرپرستی ناقابل قبول ہے اور اس پر فوری قابو پایا جانا چاہیے۔ اگر افغان حکومت اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی تو پاکستان کو اپنے تحفظ کے لیے مزید سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔
ڈینگی وائرس، سنگین چیلنج
محکمہ صحت سندھ کی حالیہ رپورٹ نے ایک بار پھر توجہ دلائی ہے کہ ڈینگی وائرس اب بھی پاکستان کے لیے ایک سنگین عوامی صحت کا مسئلہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق صرف اکتوبر 2025ء کے دوران سندھ بھر میں 439نئے مصدقہ کیسز رپورٹ ہوئے، جس کے بعد رواں سال کے مجموعی کیسز کی تعداد 1083تک پہنچ گئی ہے۔ وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو کے مطابق کراچی ڈویژن سب سے زیادہ متاثرہ ہے، جہاں 188کیس رپورٹ ہوئے جب کہ حیدرآباد ڈویعن میں 154، میرپورخاص میں 83، سکھر میں 10، شہید بینظیر آباد میں 3اور لاڑکانہ میں 1کیس سامنے آیا۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ڈینگی کا خطرہ صرف چند علاقوں تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ پورے صوبے میں پھیل رہا ہے۔ اگر قومی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ مسئلہ سندھ تک محدود نہیں۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی ڈینگی کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ لاہور، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ جیسے بڑے شہروں میں ہر سال بارشوں کے بعد ڈینگی کے وار تیز ہوجاتے ہیں۔ ہر بار مہمات اور اسپرے کے دعوے کیے جاتے ہیں، مگر جیسے ہی بارشیں بڑھتی ہیں، نکاسیِ آب کے ناقص نظام، کوڑے کے ڈھیر، کھلے گٹروں اور غیر منظم شہری منصوبہ بندی کے باعث مچھر کی افزائش کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ انسدادِ ڈینگی کے لیے محض اسپرے یا وقتی صفائی مہمات کافی نہیں۔ ہمیں ڈیٹا پر مبنی حکمتِ عملی، شہری سطح پر مربوط کوآرڈینیشن اور مسلسل نگرانی کے نظام کی ضرورت ہے۔ محکمہ صحت، مقامی حکومتوں، تعلیم اور شہری ترقی کے اداروں کے درمیان موثر تعاون کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں تیزی سے بڑھتی آبادی اور غیر منصوبہ بند آبادیاں ڈینگی کے پھیلائو کی بنیادی وجوہ میں سے ایک ہیں۔ بارش کے پانی کی نکاسی نہ ہونے اور کچرے کے ناقص انتظام کے باعث مچھر کی افزائش کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف، شہریوں میں احتیاطی تدابیر سے متعلق آگاہی کی بھی کمی ہے۔ عوامی سطح پر تعلیم، گھروں اور اسکولوں میں آگاہی مہمات اور میڈیا کے ذریعے مستقل پیغامات ہی ڈینگی کے خلاف دفاعی دیوار بن سکتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ ڈینگی کا مقابلہ علاقائی نہیں، قومی ترجیح ہونی چاہیے۔ ایک مربوط نیشنل ڈینگی کنٹرول فریم ورک تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو تمام صوبوں کے درمیان معلومات کے تبادلے، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور فوری ردعمل کے نظام کو یقینی بنائے۔ اگر اب بھی ہم نے اس وائرس کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو ڈینگی صرف شہری صحت کا مسئلہ نہیں رہے گا بلکہ ایک قومی وبا کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ یہ وقت وقتی اقدامات کا نہیں، بلکہ مسلسل اور مربوط عمل کا ہے، تاکہ آئندہ نسلیں اس خطرے سے محفوظ رہ سکیں۔

جواب دیں

Back to top button