Column

روشن معیشت بجلی پیکیج، خوش آئند قدم

روشن معیشت بجلی پیکیج، خوش آئند قدم
پاکستان کی معیشت گزشتہ چند برسوں سے شدید دبائو کا شکار رہی ہے۔ توانائی کے بحران، مہنگائی، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور زرعی پیداوار میں سست روی نے ترقی کے پہیے کو روک رکھا تھا۔ ایسے میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے صنعتوں اور کسانوں کے لیے ’’ روشن معیشت بجلی پیکیج‘‘ کا اعلان، بلاشبہ ایک اہم پیش رفت ہے، جو نہ صرف توانائی کے شعبے میں نئی روح پھونکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بلکہ معیشت کے مختلف طبقات میں امید کی کرن پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔ وزیراعظم کے اعلان کے مطابق آئندہ تین سال تک ( نومبر 2025سے اکتوبر 2028) صنعتی اور زرعی شعبے کو اضافی بجلی 22روپے 98پیسے فی یونٹ کے رعایتی نرخ پر فراہم کی جائے گی۔ یہ رعایت اُس وقت دی جارہی ہے جب ملک میں صنعتی بجلی کے ریٹ 34روپے فی یونٹ اور زرعی شعبے کے لیے 38روپے فی یونٹ تک جاپہنچے ہیں۔ اس پیکیج کے تحت حکومت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس اضافی بجلی کے نرخوں کا بوجھ نہ تو گھریلو صارفین پر پڑے گا اور نہ ہی کسی دوسرے شعبے پر منتقل کیا جائے گا۔ یہ اعلان محض سبسڈی نہیں بلکہ ایک معاشی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد پیداواری لاگت میں کمی، برآمدات میں اضافہ اور مقامی صنعت کو مقابلے کے قابل بنانا ہے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں اس بات کا بھی حوالہ دیا کہ گزشتہ سال سردیوں میں متعارف کرائے گئے بجلی رعایتی پیکیج کے نتیجے میں صنعتی و زرعی شعبے نے 410گیگاواٹ اضافی بجلی استعمال کی۔ اس سے براہ راست صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوا، برآمدات کو سہارا ملا اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے۔ یہ تجربہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر صنعت و زراعت کو مناسب ریلیف فراہم کیا جائے تو وہ خود کفالت کی سمت بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستان کی توانائی پالیسی اکثر غیر تسلسل کا شکار رہی ہے۔ ایک حکومت پیکیج دیتی ہے، دوسری اسے منسوخ کر دیتی ہے۔ لیکن ’’ روشن معیشت بجلی پیکیج‘‘ کو تین سالہ پالیسی کے طور پر متعارف کرانے کا فیصلہ اس سمت میں ایک مثبت قدم ہے جو سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بڑھا سکتا ہے۔ پاکستان کی صنعتی ترقی کا دارومدار توانائی کے تسلسل پر ہے۔ جب بجلی مہنگی ہوتی ہے تو پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے، جس سے پاکستانی مصنوعات عالمی منڈی میں مقابلے سے باہر ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح زراعت میں بجلی کے نرخ کم ہونے سے ٹیوب ویل، واٹر پمپ اور جدید مشینی نظام زیادہ موثر طریقے سے چل سکتے ہیں، جس سے فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ممکن ہوتا ہے۔ یہ پیکیج نہ صرف صنعت کاروں اور کسانوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا بلکہ عوام کے لیے بھی بالواسطہ مثبت اثرات لائے گا۔ زیادہ پیداوار، روزگار میں اضافہ اور برآمدات کے ذریعے زرِمبادلہ میں بہتری آنے سے افراطِ زر پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ مہینوں میں معاشی استحکام کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی سربراہی میں پاکستان میں امن و امان کی بحالی اور بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ ان اقدامات کا براہِ راست اثر یہ ہے کہ اب عالمی مالیاتی ادارے اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کے حوالے سے زیادہ پُرامید نظر آرہے ہیں۔ توانائی کی دستیابی، کم نرخوں پر، کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ بنگلادیش اور ویت نام جیسے ممالک نے بجلی کی پالیسیوں میں استحکام لا کر اپنی برآمدات کو کئی گنا بڑھایا۔ پاکستان بھی اگر اس پیکیج کو موثر طریقے سے نافذ کرے تو چند سال میں برآمدات میں نمایاں اضافہ اور درآمدات پر انحصار میں کمی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ تاہم، ہر معاشی پالیسی کی طرح اس پیکیج کو بھی کچھ عملی چیلنجز درپیش ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے نظام کی پائیداری ہے۔ اگر حکومت اضافی بجلی کی فراہمی کا وعدہ کرتی ہے تو اسے گرڈ سٹیشنز کی بہتری، لائن لاسز میں کمی اور بجلی چوری کے خاتمے کے اقدامات بھی یقینی بنانے ہوں گے۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ پیکیج کے مالی اثرات کو بھی متوازن رکھا جائے۔ اگرچہ حکومت نے کہا ہے کہ اس کا بوجھ گھریلو صارفین پر نہیں پڑے گا، لیکن سبسڈی کی مد میں ادائیگی کے لیے حکومتی خزانے پر دبا بڑھ سکتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اس پروگرام کے لیے درآمدی ایندھن پر انحصار کم کیا جائے اور مقامی توانائی ذرائع ( سولر، ونڈ، ہائیڈرو) سے استفادہ بڑھایا جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا وژن واضح ہے پیداوار بڑھائو، برآمدات بڑھائو اور روزگار پیدا کرو۔ ان کی یہ حکمتِ عملی اس حقیقت پر مبنی ہے کہ معیشت کا حقیقی انجن صنعت اور زراعت ہیں۔ جب یہ دو شعبے ترقی کرتے ہیں تو ملک میں خوش حالی آتی ہے، قرضوں کا بوجھ کم ہوتا ہے اور روپے کی قدر مستحکم ہوتی ہے۔ اگر حکومت نے واقعی طے شدہ مدت میں صنعتی اور زرعی صارفین کو سستی بجلی فراہم کردی، تو یہ پروگرام پاکستان کی معاشی تاریخ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوسکتا ہے۔ ’’ روشن معیشت بجلی پیکیج ‘‘ بظاہر توانائی کے میدان میں ایک تکنیکی قدم معلوم ہوتا ہے مگر درحقیقت یہ قومی اعتماد کی بحالی اور اقتصادی خودمختاری کی جانب ایک عملی پیش رفت ہے۔ یہ پروگرام اس بات کی علامت ہے کہ حکومت اب معیشت کو پیداواری صلاحیت اور حقیقی ترقی کے راستے پر ڈالنے کا عزم رکھتی ہے۔ اگر یہ پیکیج ایمانداری سے نافذ ہو گیا، تو آنے والے برسوں میں نہ صرف صنعتوں کا پہیہ تیزی سے گھومے گا بلکہ پاکستان کی معیشت ایک بار پھر روشن راستے پر گامزن ہوگی۔
پاک فوج دشمن کیخلاف سیسہ پلائی دیوار
ڈی جی آئی ایس پی آر کی غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی، ٹوپی (صوابی) کے دورے نے نہ صرف فوج اور تعلیم کے تعلق کو مزید مستحکم کیا، بلکہ نوجوانوں کے مستقبل کے حوالے سے اہم نکات بھی اٹھائے۔ اس دورے میں سیکیورٹی کی صورتحال، پاک افغان سرحدی جھڑپوں اور سوشل میڈیا کے کردار پر گہری گفتگو کی گئی۔ سب سے اہم بات کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاکستان کی دفاعی حکمت عملی اور افغانستان میں خوارج کی موجودگی کے حوالے سے وضاحت پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف موثر اقدامات کیے اور آئندہ بھی پاک فوج اپنے وطن کی سالمیت کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔ یہ بیان نہ صرف پاکستان کے دفاعی اداروں کی طاقت کو اجاگر، بلکہ اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ پاک فوج کی قیادت کسی بھی صورت میں دشمن کی جارحیت کو نظرانداز نہیں کرے گی۔ پاکستان کی فوج ہمیشہ سے اپنے قومی مفادات کی حفاظت میں پیش پیش رہی ہے اور اس دورے کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے نوجوانوں کو یہ پیغام دیا کہ وہی ملک کے روشن مستقبل کے ضامن ہیں۔ بلاشبہ پاکستان کا مستقبل ان ہی نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے جو نہ صرف تعلیم میں مہارت حاصل کر رہے بلکہ قوم کی خدمت میں بھی بھرپور کردار ادا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال طلبہ کا شہدا و غازیانِ پاک افواج کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے، جو کہ ان کی ملک کے لیے محبت اور احترام کا اظہار ہے۔ اس کے ساتھ ہی، سوشل میڈیا کا کردار بھی اس دورے کے دوران زیر بحث آیا۔ ایک طرف جہاں سوشل میڈیا نے دنیا کو ایک دوسرے کے قریب کیا، وہیں اس کا غلط استعمال ڈس انفارمیشن اور پروپیگنڈے کو فروغ دے رہا ہے۔ اس صورتحال میں طلبہ نے اس بات پر زور دیا کہ ایسی مزید بامقصد نشستیں منعقد کی جانی چاہئیں تاکہ سچائی کا پرچار ہو سکے اور دشمن کے جھوٹے پراپیگنڈے کو ناکام بنایا جاسکے۔ یہ نہ صرف ایک تعمیری اقدام ہے بلکہ ایک ایسی ضرورت بھی ہے جو نوجوانوں کو حقیقت سے روشناس کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ پاکستان کا روشن مستقبل نوجوان نسل کی محنت اور پاک فوج کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک فوج اور عوام کا آپس میں مضبوط رشتہ قائم رہے گا، پاکستان اپنے دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button