ColumnImtiaz Aasi

پی ٹی آئی کی عوامی رابطہ مہم ، عوامی اجتماعات پر پابندی

پی ٹی آئی کی عوامی رابطہ مہم ، عوامی اجتماعات پر پابندی
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
مجھے یاد ہے ذوالفقار علی بھٹو چاروں صوبوں میں عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں نکلا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کے یہ دورے بڑے طوفانی ہوتے تھے۔ بھٹو جس صوبے میں جاتے عوام ان کا والہانہ استقبال کرتے۔ کیا خوب دور تھا، نہ سڑکوں پر کنٹینر اور نہ سڑکیں کھودی جاتیں اور نہ پولیس انہیں عوام سے رابطے سے روکتی۔ ہاں البتہ انہیں اپنے صوبے کے شہر سکھر میں ڈپٹی کمشنر نے جلسہ نہیں کرنے دیا۔ ڈپٹی کمشنر جن کا تعلق پاکستان کی سول سروس سے تھا، ان دنوں سی ایس ایس کرنے والوں سینٹرل سپرئیر پرسانل کہا جاتا تھا۔ جب بھٹو وزیراعظم بنے انہوں نے تین سو سے زیادہ بیوروکریٹس کو ملازمت سے فارغ کر دیا، جس میں سکھر کے ڈپٹی کمشنر بھی شامل تھے۔ سی ایس پی کا نام ذوالفقار علی بھٹو نے ہی بدل کر سی ایس ایس رکھا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر شب خون مارا تو انہوں نے بھٹو دور میں ملازمت سے نکالے گئے بہت سے اعلیٰ افسروں کو ملازمت میں واپس لے لیا، جن میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر سکھر بھی شامل تھے جن کا تعلق ضلع جہلم کے شہر دینہ سے تھا۔ ویسے بھی سیاسی رہنمائوں کا مختلف شہروں میں عوامی جلسوں سے خطاب جمہوریت کا حصہ ہے۔ عجیب تماشہ ہے ایک طرف ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ بھی کہلاتا ہے، دوسری طرف سیاسی جماعتوں کو جلسوں سے بھی روکا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے عوامی رابطہ مہم سندھ سے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد عوامی رابطہ مہم کا دائرہ دیگر صوبوں میں بڑھایا جائے گا۔ پی ٹی آئی نے جس روز عوامی رابطہ مہم کا اعلان کیا، اگلے روز پنجاب حکومت نے عوامی اجتماعات پر نہ صرف پابندی کا اعلان کیا، عوامی اجتماعات میں شرکت کرنے والوں کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات درج کرنے کی نوید بھی سنا دی ۔ ہم کیسے ملک میں رہتے ہیں جہاں سیاسی جماعتوں کو عوام سے رابطہ کرنے سے روکا جاتا ہے۔ ہم ماضی کی طرف لوٹیں تو جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لئے کتنے جتن کئے، پیپلز پارٹی آج بھی موجود ہے۔ ہاں البتہ بھٹو کی پارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، جس میں پارٹی کے اپنوں کا عمل دخل زیادہ ہے، ورنہ عوام بھٹو کی پارٹی کے شیدائی تھے۔ شہید بے نظیر بھٹو کی حیات تک پیپلز پارٹی میں دم خم ضرور تھا، ان کی شہادت کے بعد عوام نے راستہ بدل لیا۔ اس دوران کرکٹ کی دنیا کا نامور شہسوار عمران خان سیاسی میدان میں اترا، عوام اس کے گرویدہ ہو گئے ۔ پی ٹی آئی کے بانی کو آغاز میں اتنی پذیرائی نہیں ملی ۔2018ء کے الیکشن میں دو تہائی اکثریت تو نہیں لے سکا مگر اقتدار دلانے والوں نے وزارت عظمیٰ پر بٹھا دیا۔ پھر چشم فلک نے دیکھا وہی حلقے اسے زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکے۔ مجھے یاد ہے ایک نجی ٹی وی چینل پر عمران خان بتا رہا تھا وہ احتساب کرنے کا خواہاں تھا، اسے احتساب نہیں کرنے دیا گیا، بلکہ اسے اپنی کارکردگی بہتر بنانے کو کہا گیا۔ سوال ہے کارکردگی کا احتساب سے کیسا موازنہ ؟، ملک و قوم کو لوٹنے والوں کا احتساب نہیں کرنا تو پھر کیا انہیں پالکی میں بٹھانا مقصود ہوتا ہے۔ ہمارا ملک معاشی طور پر مقروض ترین ملکوں کی فہرست میں ہے، عوام مہنگائی کے ہاتھوں بے بس ہو چکے ہیں، لیکن حکومت کا دعویٰ ہے اس نے مہنگائی کم کر دی ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی کی عوامی مقبولیت سے حکومت اتنی خوفزدہ ہے نہ اسے جلسے کرنے کی اجازت ہے نہ پارٹی رہنمائوں کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت ہے۔ ملکی سیاسی تاریخ میں کسی سیاسی رہنما پر اتنے مقدمات نہیں قائم کئے گئے جیتنے بانی پی ٹی آئی پر بنائے گئے ہیں۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف جیلوں میں تھے کیا ان سے سیاسی رہنمائوں کی ملاقات پر پابندی تھی؟، نواز شریف جن پارٹی رہنمائوں اور دیگر لوگوں کے نام سپرنٹنڈنٹ جیل کو دیتے تھے وہی لوگ نواز شریف سے ملاقات کرتے تھے۔ اس وقت عدلیہ کا یہ حال ہے عمران خان سے ملاقات کا حکم دیا جاتا ہے ملاقات کرنے والوں کو اڈیالہ روڈ پر روک لیا جاتا ہے۔ اللہ کی بندوں عمران خان سے ملاقات کرنے والے کہیں اسے بھگا کر تو نہیں لے جا رہے ہیں۔ سخت سکیورٹی میں ملاقات کے باوجود پارٹی رہنمائوں سے ملاقات نہیں کرائی جا رہی ہے۔ پرزن رول 265نکل آیا ہے، نواز شریف اور زرداری کے وقت یہ رول کہاں تھا، کہیں ملک سے باہر چلا گیا تھا۔ باوجود اس کے پی ٹی آئی کے بانی کی مقبولیت کم کرنے کے لئے کیسے کیسے جتن ہو رہے ہیں وہ عوام کی ہمدردیاں سمیٹ رہا ہے۔ انتخابات میں جو کچھ ہوا، اس نے سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کی قلعی کھول دی ۔ پنجاب کو گڑھ سمجھنے والوں کو سمجھ آگئی ہے لوگ کتنا انہیں پسند کرتے ہیں۔ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست نے تو ان کی آنکھیں کھولی ہیں، ورنہ وہ پنجاب کو گھر کی لونڈی سمجھتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جلسوں سے روکنے کا نتیجہ سب نے دیکھا، البتہ اس دور میں ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہوئے، جس میں مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمان اور مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ پاکستان کی تاریخ کا وہ واحد الیکشن تھا جسے عوام آج بھی یاد کرتے ہیں۔ اب تو فارم 47نے آسانی پیدا کر دی ہے، لیکن عوامی حلقوں میں مقبولیت کس کی ہے، سمجھنے والوں کو اب بھی سمجھ نہ آئے تو پھر کیا کہا جا سکتا ہے۔ فارم 47کے حربے کب تک بروئے کار لائے جاتے رہیں گے، ہمیں اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب مشرقی پاکستان کے لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے اور شیخ حسینہ واجد کو جس انداز سے چلتا کیا، عالمی دنیا کے لئے ایک سبق ہے۔ ایک عدلیہ تھی جس سے عوام کو انصاف کی توقع تھی، آئینی ترمیم سے اس کے پر کاٹ دیئے گئے ہیں۔ جو جج انصاف فراہم کرنے کی کوشش کرے اس کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں اس کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا جاتا ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے مقدمات اور جیلوں سے کسی کی عوامی مقبولیت کم نہیں ہوتی اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button