Column

عنوان : ہماری سیاست کا محور عام آدمی کی زندگی نہیں

کالم : شہادت
راجہ شاہد رشید
عنوان : ہماری سیاست کا محور عام آدمی کی زندگی نہیں
خبر چھپی ہے کہ ’’ فتنہ الخوارج کے دہشتگردوں نے بھتہ نہ دینے پر چھ شہریوں کو زندہ جلا ڈالا‘‘۔ سفاک دہشتگردوں نے میر علی میں ایک گاڑی پر پٹرول چھڑک کر آگ لگائی جس کے نتیجے میں چھ نہتے شہری جان کی بازی ہار گئے۔ عوام نے دہشتگردوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا اسلام اور کیسا جہاد ہے جس میں معصوم لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کی تلاش میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت اور ریاستی ادارے بالعموم ہر حوالے سے اور بالخصوص دہشتگردی کے خلاف ایک پیج پر ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دینی جماعتیں، صوبائی حکومتیں اور اپوزیشن پارٹیاں بھی حکومت اور سکیورٹی فورسز سے بھرپور تعاون کریں۔ اپنے ملک و قوم کی خاطر سبھی متحد و یکجا ہو کر دہشتگردوں کا مقابلہ کریں، سب سیاسی پارٹیوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ پارٹیاں بعد میں ہیں جبکہ پاکستان اور پبلک آف پاکستان سب سے پہلے ہیں۔ مجھے اچھا لگا جب وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ کے پی کے سہیل آفریدی کو فون کیا، مبارکباد پیش کی اور ساتھ چلنے کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے نو آموز CMخیبر پختونخوا کو ایک خلوص و اعتماد اور بھائی چارے کا مثبت پیغام دے کر کشادہ دلی، رواداری اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا جو میری نظر میں خوش آئند اور قابل تعریف رویہ ہے ، لیکن وزیرِ اعلیٰ KPKسہیل آفریدی کی پہلی تقریر ہی انتہائی مایوس کُن تھی، آپ بغور جائزہ لیں کہ کہیں بھی انہوں نے کوئی امن کی، اتحاد و اتفاق کی، فیڈریشن کی، لیجسلیشن کی بات کی ہو یا کہا ہو کہ جنہوں نے ہمیں مینڈیٹ دیا، یعنی کہ عوام کی خاطر، پاکستان کی خاطر اور امن و امان کی خاطر سب کی ساتھ چلنا چاہتے ہیں یا وفاق کے ساتھ چلیں گے۔ انہوں نے اپنی سپیچ میں بالکل بھی اس طرز کی کوئی بات نہیں کی۔ سوچتا ہوں میرے دیس کی سیاست و جمہوریت کو جتنا نقصان ان صاحبان سیاست نے پہنچایا ہے شاید اتنا آمریت سے بھی نہیں ہوا ہوگا۔ صد افسوس کہ کبھی بھی، کسی بھی دور میں ہماری سیاست کا محور عام آدمی کی زندگی بالکل بھی نہیں رہا۔ ہم سرابوں میں بھٹکے لوگ ہیں اور شخصیات کے سحر میں کھوئے ہوئے مجنوں ہیں جو اپنی اپنی لیلیٰ کو ہی کُل کائنات سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ کوئی تجربہ، اندازہ اور پہچان ہمیں بالکل بھی نہیں ہے، ان ناخدائوں کی، ان لیلائوں کی اور حالت اپنی کچھ یوں ہے کہ۔
وحشت میں ہر نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے
عصرِ حاضر میں کچھ ’’ بلونگڑے‘‘ اپنے بانی کو بچانے کے لیے تمام تر حدیں سرحدیں توڑنے کو تیار کھڑے ہیں جبکہ بہت سے ’’ محب وطن‘‘ اس بانی کو دبانے کے درپے ہیں۔ یہ آپس میں اس طرح سینگ پھنسا بیٹھے ہیں جیسے یہ صدیوں سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اور جانی دشمن ہیں۔ یہ سیاسی محاذ آرائی اور چپقلش اس نہج پہ پہنچ چکی ہے جیسے یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے۔ خدانخواستہ یہ نفرت اس نظام کو ہی نہ لے ڈوبی، لگتا ہے یہ سیاستدان اس سیاسی سسٹم کوئی کھا جائیں گے اور پھر پچھتائیں گے۔ اہل سیاست و جمہوریت میں اتنا شدید ترین اختلاف اور یہ دوریاں کسی طور پہ بھی درست ثابت نہیں ہوں گی۔ حکومت و اپوزیشن کو اپنے اپنے معاملات اور ذاتی مفادات سے فرصت نہیں جبکہ غریب عوام کا رونا آج بھی وہی ہے جو مدتوں سے ان بے چاروں کا مقدر کر دیا گیا ہے۔ مہنگائی غربت اور بے روزگاری نے ایک عام پاکستانی کا جینا ہی اجیرن کر دیا ہے۔ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جانے والی صنعتی بنیاد کمزور پڑ رہی ہے، بڑے پیمانے کی صنعت ایل ایس ایم جمود کا شکار ہے۔ حکومت کے بیرونی تعلقات کی بہتری اور مالیاتی بحالی کے دعوے درست سہی مگر سب اچھا نہیں ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق 2025ء میں ایل ایس ایم کا جی ڈی پی میں حصہ قریباً آٹھ فیصد رہا، پچھلے سال پیداوار میں 74۔0فیصد کمی رہی۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس جمود نے ملک کی طویل المدتی اقتصادی صحت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بلاشبہ کوئی بھی ملک مضبوط صنعتی بنیاد کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ صنعت سست ہونے سے بر آمدات میں کمی آتی ہے، ملازمتیں ختم ہوتی ہیں۔ سب سے بڑا شعبہ ٹیکسٹائل کا ہے جو 18فیصد ہے۔ پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے پیٹرن ان چیف میاں سہیل نثار کا کہنا ہے کہ ’’ یہ شعبہ گزشتہ دو سال سے زوال کا شکار ہے، ٹیکسٹائل انڈیکس مسلسل پینتیس ماہ سے 100کے نیچے ہے اور موجودہ پیداوار دس سال پہلے کی سطح سے بھی کم ہو چکی ہے، جو انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے‘‘۔ کاش ہمارے حکمران ان سب چیزوں کو دیکھیں سوچیں اور اس خستہ حالی کا فوری نوٹس بھی لیں، جناب کاشر جی کے الفاظ میں۔
ایسے بھی زبوں حال ، کئی لوگ ہیں کاشر
بے گھر ہیں اسی شہر میں گھر ہوتے ہوئے بھی
میرے دیس میں بڑے بڑے محلات بنگلوں میں امیروں کے گھوڑے اور کتے تو سونی کے نوالے لیتے ہیں جبکہ ایک عام پاکستانی دو وقت کی روٹی کو روتا ہے۔ جس غریب کے خون پسینے سے ان کی فیکٹریاں چلتی ہیں اس مزدور کا چولہا نہیں جلتا۔ ہمارے ٹیکسز سے ہی ان کے سارے سلسلے جاری و ساری رہتے ہیں اور ان کی گاڑی چلتی ہیں لیکن ہمارے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ حکومتوں کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو سہولیات دیں اور آسانیاں پیدا کریں مگر ایسا نہیں ہوتا، یہاں کرتا دھرتائوں کے کالے ’’ کرتوتوں‘‘ اور بے حسی سے غریب عوام کو بجلی گیس کے بھاری بل، ٹیکس پلندے، ہٹ دھرمی، لاقانونیت اور مشکلات ہی ملتی ہیں۔ ہماری سیاست کا محور انسانیت نہیں، موجودہ اور ماضی کے حکمرانوں نے عام انسان کے مسائل کو کبھی سوچا ہی نہیں۔ یہ کیسی سیاست و جمہوریت ہے جس میں عوام کی صحت و تعلیم اور روزگار و کاروبار کے حوالے سے کوئی رہنمائی و معاونت نہیں ہوتی، اس ضمن میں کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔

جواب دیں

Back to top button