Column

معاشی استحکام کی نئی سمت

معاشی استحکام کی نئی سمت
عالمی سطح پر بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی حالات نے ترقی پذیر ممالک کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر دئیے ہیں مگر ان کے اندر مواقع بھی پوشیدہ ہیں۔ انہی حالات میں وزیراعظم شہباز شریف کی قطر کے وزیرِ تجارت و صنعت شیخ فیصل بن ثانی بن فیصل الثانی سے ملاقات ایک نہایت اہم اور بروقت پیش رفت قرار دی جاسکتی ہے۔ اس ملاقات نے نہ صرف پاکستان اور قطر کے مابین دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی راہ ہموار کی ہے بلکہ معاشی تعاون کے نئے امکانات کو بھی جنم دیا ہے۔ پاکستان اور قطر کے تعلقات محض سفارتی نوعیت کے نہیں بلکہ یہ مشترکہ عقیدے، اقدار اور باہمی احترام پر مبنی ہیں۔ دونوں ممالک امتِ مسلمہ کے اہم رکن ہیں اور خطے کے استحکام کے لیے یکساں وژن رکھتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ملاقات کے دوران قطر کے کردار کو ایک اہم شراکت دار اور موثر علاقائی ثالث کے طور پر سراہا، جو نہ صرف خطے میں امن کے فروغ کے لیے کوشاں ہے بلکہ مسلم دنیا کے باہمی تعلقات میں بھی پل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کے لیے قطر نہ صرف توانائی کا ایک اہم ذریعہ ہے بلکہ خلیجی تعاون کونسل (GCC)کے اندر ایک اقتصادی طور پر مضبوط شراکت دار بھی ہے۔ قطر، پاکستان کے ساتھ نہ صرف گیس کے شعبے میں بلکہ سرمایہ کاری، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سیاحت جیسے شعبوں میں بھی تعاون بڑھانے کا خواہاں ہے۔ ملاقات میں وزیراعظم نے دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر زور دیا اور اس سلسلے میں اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC)کے فریم ورک کے تحت قطری سرمایہ کاروں کو نئی راہیں تلاش کرنے کی دعوت دی۔ یہ دعوت پاکستان کے لیے ایک اسٹرٹیجک موقع ہے، کیونکہ موجودہ حالات میں ملکی معیشت کو غیر ملکی سرمایہ کاری کی شدید ضرورت ہے۔ قطری وزیر تجارت نے بھی پاکستان کے ساتھ اقتصادی روابط کو مزید گہرا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق پاکستان۔ قطر مشترکہ وزارتی کمیشن (JMC)کا چھٹا اجلاس دوطرفہ تعاون کا ازسرِنو جائزہ لینے اور نئی شراکت داریوں کی نشان دہی کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس اجلاس کے بنیادی ایجنڈے میں تجارت، توانائی، زراعت، تعلیم، صحت، انفرا اسٹرکچر اور ثقافتی تبادلے جیسے متنوع شعبے شامل تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور قطر صرف وقتی مفادات نہیں بلکہ طویل المدتی معاشی تعلقات کے خواہاں ہیں۔ قطر دنیا کے سب سے بڑے ایل این جی برآمد کنندگان میں سے ایک ہے، جب کہ پاکستان توانائی کی قلت کا شکار ہے۔ یہ ایک ایسا میدان ہے جہاں دونوں ممالک کے مفادات براہِ راست ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے لیے ایل این جی کی سپلائی لائن کو مستحکم بنانا توانائی بحران سے نکلنے کا ایک موثر حل ہوسکتا ہے جب کہ قطر کے لیے پاکستان ایک بڑی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے امکانات بھی غیر معمولی ہیں۔ اجلاس کے اعلامیے میں خاص طور پر خاریان-راولپنڈی موٹروے (M۔13) اور کراچی۔ حیدرآباد موٹروے کے منصوبوں میں قطری سرمایہ کاری کی پیشکش ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ یہ منصوبے اگر سرکاری و نجی شراکت داری (Public-Private Partnership) کے ماڈل پر مکمل ہوتے ہیں، تو پاکستان کے مواصلاتی ڈھانچے میں ایک انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ قطر کے ساتھ تعاون کا ایک اور اہم پہلو سبز ٹیکنالوجیز اور جدید ٹرانسپورٹ سسٹمز میں اشتراک ہے۔ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک نے ریل، بس، میٹرو اور برقی و خودکار گاڑیوں کی ٹیکنالوجی میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ یہ پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اب روایتی منصوبوں سے آگے بڑھ کر جدید، پائیدار اور ماحول دوست ٹیکنالوجیز کو اپنانے کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں کمی لائیں گے بلکہ شہری نقل و حمل کے نظام کو بھی بہتر بنائیں گے، جس سے عوام کو براہِ راست فائدہ پہنچے گا۔ اس ملاقات کے دوران حکومت کی سرمایہ کار دوست پالیسیوں پر روشنی ڈالی گئی۔ پاکستان کی موجودہ اقتصادی پالیسی کا محور بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ SIFCکے قیام کا مقصد بھی یہی ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ون ونڈو آپریشن فراہم کیا جائے، تاکہ بیوروکریٹک رکاوٹیں کم ہوں اور سرمایہ کاری کے عمل کو تیز کیا جاسکے۔ قطر جیسے ملک کے لیے یہ ایک پرکشش موقع ہے کہ وہ پاکستان کے ابھرتے ہوئے شعبوں مثلاً انفارمیشن ٹیکنالوجی، ایگریکلچر ٹیک، فوڈ سیکیورٹی اور ٹورازم میں سرمایہ کاری کرے۔ ان شعبوں میں ترقی نہ صرف معیشت کو تقویت دے گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا کرے گی۔قطر کا کردار خطے میں سفارتی توازن برقرار رکھنی کے حوالے سے غیر معمولی رہا ہے۔ افغانستان، ایران اور خلیجی ممالک کے مابین مذاکرات میں قطر نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے قطر کی مسلسل حمایت کا اعتراف اس بات کا مظہر ہے کہ اسلام آباد خطے میں ایک سفارتی ہم آہنگی پیدا کرنے کا خواہاں ہے۔ یہ تعلق صرف اقتصادی یا تجارتی نہیں بلکہ ایک تزویراتی (Strategic)شراکت داری کی صورت اختیار کررہا ہے، جس کے اثرات جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور حتیٰ کہ وسطی ایشیائی ریاستوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ اگرچہ تعلقات کے امکانات روشن ہیں، لیکن کچھ چیلنجز پر بھی غور ضروری ہے۔ پاکستان کو اپنے انتظامی ڈھانچے، قانونی پیچیدگیوں اور توانائی انفرا اسٹرکچر میں بہتری لانی ہوگی تاکہ قطری سرمایہ کاروں کو اعتماد حاصل ہو۔ اسی طرح، سیکیورٹی صورت حال اور پالیسیوں کے تسلسل کا یقین دہانی کرانا بھی لازمی ہے۔ سرمایہ کاری کا بہائو اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب حکومت کی پالیسیوں میں استحکام اور تسلسل برقرار رہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور شیخ فیصل بن ثانی بن فیصل الثانی کی ملاقات بظاہر ایک رسمی سفارتی سرگرمی نظر آتی ہے، مگر درحقیقت یہ پاکستان کی خارجہ و معاشی پالیسی کے نئے رخ کی نشان دہی کرتی ہے۔ پاکستان اب محض امداد کا منتظر ملک نہیں رہا، بلکہ وہ سرمایہ کاری پر مبنی تعلقات کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے۔ قطر کے ساتھ تعلقات کا فروغ صرف حکومت کی کامیابی نہیں، بلکہ یہ پاکستان کے روشن مستقبل کی ایک علامت ہے، ایک ایسا مستقبل جو اقتصادی خودمختاری، علاقائی استحکام اور پائیدار ترقی کی سمت بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اگر اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا گیا، تو پاکستان نہ صرف اپنے معاشی بحران پر قابو پا سکتا ہے بلکہ خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی اعتماد، توازن اور باہمی مفاد پر مبنی ایک نئی مثال قائم کر سکتا ہے۔
دہشت گردی کا خاتمہ جلد ہوگا
دہشت گردی کے کالے سایوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز تندہی سے مصروفِ عمل اور بڑی کامیابیاں سمیٹ رہی ہیں، اس کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں۔ گزشتہ روز ضلع ٹانک میں سیکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن کے دوران بھارتی حمایت یافتہ 8خوارج کی ہلاکت، خیبرپختونخوا کے علاقے ہنگو میں دو دھماکوں کے نتیجے میں ایس پی آپریشنز سمیت 3پولیس اہلکار کی شہادت جب کہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں مزدوروں کے اغوا کے واقعات نے ایک بار پھر دہشت گردی کے مسئلے کی سنگینی کو اجاگر کیا ہے۔ ٹانک میں سیکیورٹی فورسز کا کامیاب آپریشن مثبت قدم ہے، جس میں بھارتی سرپرستی میں سرگرم 8خوارج کو ہلاک کیا گیا۔ یہ آپریشن اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان سرگرم دہشت گردوں اور غیر ملکی حمایت یافتہ گروپوں کے خلاف سخت کارروائی کر رہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے اس آپریشن میں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، جس سے نہ صرف دہشت گردوں کا خاتمہ ہوا بلکہ ان کے قبضے سے وافر اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا۔ دوسری جانب ہنگو میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی اور اس میں پولیس کے اعلیٰ افسر کی شہادت نے یہ ثابت کر دیا کہ دہشت گردی کا سامنا صرف فوج یا پولیس ہی نہیں کر رہی، بلکہ ان کا شکار شہری بھی بن رہے ہیں۔ اس دھماکے کی نوعیت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی شہادتیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ دہشت گردوں نے عوامی مقامات اور سیکیورٹی اہلکاروں کو اپنی کارروائیوں کا ہدف بنایا ہے۔ بلوچستان میں مزدوروں کے اغوا کا واقعہ صوبے میں دہشت گردی کی نئی شکل کو اجاگر کرتا ہے۔ اس واقعے میں اغوا ہونے والے مزدوروں کا تعلق سندھ سے تھا، جو روزگار کی تلاش میں بلوچستان آئے تھے۔ حکام نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خلاف بھرپور کارروائیوں کا عزم ظاہر کیا ہے اور یہ عزم اہمیت رکھتا ہے۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہیں، ان کی شبانہ روز کاوشیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جب تک ملک بھر میں تمام ادارے، شہری اور سیکیورٹی فورسز ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر کام نہیں کریں گے، اس وقت تک دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پس منظر میں یہ ضروری ہوچکا کہ حکومت نہ صرف سیکیورٹی فورسز کی استعداد کو بڑھائے بلکہ مقامی سطح پر امن قائم کرنے کے لیے سماجی و اقتصادی اقدامات بھی کرے۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے نہ صرف عسکری حکمت عملی بلکہ معاشی ترقی، تعلیم اور عوامی ہم آہنگی پر بھی توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو شکست دینے کے لیے عسکری کارروائیوں کے ساتھ جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جو معاشی، سماجی اور سیاسی سطح پر بھی دہشت گردی کے اس ناسور کا مقابلہ کرے۔

جواب دیں

Back to top button