Column

سکندر لودھی کا انصاف

سکندر لودھی کا انصاف
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
ہندوستان کے بادشاہوں میں سکندر لودھی ایک بڑا مشہور اور نیک بادشاہ گزرا ہے۔ وہ ایک اچھا منتظم بادشاہ تھا۔ اس کے زمانہ میں گوالیار کے دو غریب بھائی فوج میں بھرتی ہوئے۔ کہیں سے دو لعل اُن کے ہاتھ لگ گئے۔ دونوں نے ایک ایک آپس میں بانٹ لیا۔ لعل پا کر چھوٹے بھائی نے کہا ’’ اب میں نوکری نہیں کروں گا، اس کو بیچ کر کوئی تجارت کروں گا اور بچوں کے ساتھ رہوں گا‘‘۔ یہ سن کر بڑے بھائی نے کہا ’’ بھیا۔ میرے حصّے کا لعل بھی لیتے جائو، اپنی بھاوج کو دے دینا، میں تو ابھی نوکری نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ چھوٹا بھائی دونوں لعل لے کر گھر کو چلا۔ راستے میں اس کی نیت خراب ہو گئی۔ اس نے بھائی کا لعل بھاوج کو نہیں دیا۔ اپنے پاس ہی رکھ لیا اور اپنے دھندے میں لگ گیا۔ کچھ دن بعد بڑا بھائی چھٹی لے کر گھر آیا، بیوی سے کہا ’’ میں نے بھیا کے ہاتھ لعل بھیجا تھا تم نے اس کا کیا کیا؟‘‘، بیوی لعل کا سُن کر ہکا بکا رہ گئی۔ بولی، ’’ لعل کیسا؟ مجھے تو اس کی ہوا بھی نہیں لگی‘‘۔ بیوی نے انکار کیا تو اُس وقت چپ رہا لیکن شام کو چھوٹے بھائی سے کہا تو اس نے صاف جواب دیا کہ ’’ میں نے تمہاری بیوی کو دے دیا تھا۔ وہ اگر انکار کر رہی ہے تو وہ جھوٹی ہے‘‘۔ اب جھگڑا بڑھا۔ بات عدالت تک پہنچی، چھوٹا بھائی بڑا چالاک تھا، اُس نے دو گواہ حاکم کے سامنے پیش کر دیئے اور مقدمہ جیت لیا۔ بڑے بھائی کی بیوی نے مقدمہ کا حال سنا تو بہت پریشان ہوئی۔ وہ جھوٹی بھی بنی اور لعل بھی ہاتھ سے گیا۔ وہ راجدھانی کی طرف بھاگی آگرہ پہنچی اور بادشاہ کے یہاں اپیل کر دی۔ بادشاہ نے دونوں بھائیوں اور گواہوں کو بلایا۔ مقدمہ شروع ہوا تو گواہوں نے یہاں بھی چھوٹے بھائی کی سکھائی ہوئی بات کہہ دی۔ دونوں جھوٹ بول دیئے۔ لیکن سکندر لودھی کو کچھ شک ہو گیا اس نے گواہوں سے کہا ’’ تم نے لعل دیکھا تھا؟ ‘‘۔ گواہوں نے جواب دیا’’ جی ہاں دیکھا تھا‘‘۔ یہ سن کر بادشاہ نے موم منگوایا، تھوڑا تھوڑا دونوں کو دیا اور کہا کہ ’’ تم دونوں الگ الگ بیٹھو اور جیسا وہ لعل تھا، ویسا موم کا بنا کر لائو‘‘۔ گواہ الگ الگ جا بیٹھے لیکن حیران تھے کہ کس شکل کا بنائیں۔ انہوں نے لعل دیکھا نہ تھا۔ وہ جھوٹی گواہی دینے آئے تھے، اب کیا کرتے، بادشاہ کا حکم تھا، جس طرح ان کی سمجھ میں آیا لعل بنا لائے۔ بادشاہ نے دیکھا کہ موم سے بنے ہوئے دونوں لعلوں میں بڑا فرق ہے۔ اب اس نے گواہوں کو ڈانٹا تو سارا بھید کھلا۔ بادشاہ نے لعل بڑے بھائی کو دلوایا اور چھوٹے بھائی اور دونوں گواہوں کو قید کا حکم دیا۔
یہ واقعہ نہ صرف تاریخی طور پر دلچسپ ہے بلکہ انصاف، انسانی نفسیات، فلسفہ اور موجودہ زمانے کے حالات کو سمجھنے کے لیے بھی ایک بہترین مثال ہے۔ سکندر لودھی کے فیصلوں میں جہاں عدل کی خوشبو تھی، وہیں انسانی فطرت کو پرکھنے کا کمال بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ گوالیار کے دو بھائیوں اور ایک لعل کا قصہ اس کا روشن ثبوت ہے۔ جس میں سکندر لودھی نے ایک سادہ مگر غیر معمولی ذہانت بھرا طریقہ اختیار کر کے سچ کو بے نقاب کیا۔
انسانی نفسیات میں لالچ (Greed)ایک بنیادی کمزوری مانی جاتی ہے۔ چھوٹے بھائی کے اندر بھی جب دولت آئی تو نیت بدل گئی۔ یہی وہ لمحہ تھا جہاں اُس نے اخلاقی امتحان میں شکست کھائی۔ جھوٹے گواہوں کا کردار بھی انسانی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ وقتی فائدے کے لیے سچ کو قربان کر دینا۔ لیکن ذہین حکمران نے غیر روایتی تفتیشی انداز سے ان کی ذہنی چالوں کو مات دی۔
فلسفہ کہتا ہے کہ سچائی کی فطرت خود کو ظاہر کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ چاہے جھوٹ کتنے پردوں میں چھپ جائے، ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب حقیقت نمایاں ہو جاتی ہے۔ سکندر لودھی کا فیصلہ ہمیں بتاتا ہے کہ انصاف صرف شواہد پر نہیں بلکہ عقل، فہم اور بصیرت پر بھی قائم ہوتا ہے۔ یہاں بادشاہ نے رسمی قانونی تقاضوں کے ساتھ ساتھ عقلی و تجرباتی طریقہ استعمال کیا۔
آج ہمارے معاشروں میں جھوٹی گواہیاں، جعلی ثبوت، اور لالچ پر مبنی فیصلے عام ہو چکے ہیں۔ عدالتوں میں سالہا سال مقدمے چلتے ہیں اور بعض اوقات جھوٹ سچ پر غالب آ جاتا ہے کیونکہ انصاف صرف کاغذی شواہد پر محدود ہو جاتا ہے، حکمت اور وجدان کا پہلو کمزور پڑ جاتا ہے۔ اگر سکندر لودھی جیسی ذہانت اور بے لاگ انصاف کا نظام ہو، تو کئی تنازعات دنوں میں حل ہو سکتے ہیں، برسوں میں نہیں۔
سکندر لودھی کا فیصلہ ہمیں سکھاتا ہے کہ انصاف صرف قانون سے نہیں، عقل و دانائی سے ہوتا ہے۔ آج ہمیں ایسے ہی فیصلوں کی ضرورت ہے جہاں جھوٹے گواہ، جھوٹے دعوے اور جھوٹی چالیں بادشاہ یا قاضی کی بصیرت کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔ اگر ہم نے عدل و حکمت کو ساتھ نہ جوڑا تو سچائی ہمیشہ مقدمات کے کاغذوں میں دب کر رہ جائے گی۔

جواب دیں

Back to top button