آٹھ اعلیٰ ترین انسانی صفات
آٹھ اعلیٰ ترین انسانی صفات
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری ۔۔۔۔
انسان کی شخصیت بڑی پیچیدہ اور کثیر الجہت ہے ، انسانی خیالات ، احساسات اور رویوں سے جو تشکیل پاتی ہے۔ ایک اچھا انسان بننے کے لیے، یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی شخصیت کو بہتر بنائیں اور ان خوبیوں کو اپنائیں جو ہمیں دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے میں مدد کرتی ہیں۔
اس آرٹیکل میں میں نے صرف آٹھ خوبیوں کا انتخاب کیا ہے۔ میری نظر میں ایک اچھے انسان میں ان سب خوبیوں کا موجود ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جو میرے نزدیک کسی بھی انسان میں ہونا نہ صرف خوش بختی کی علامت ہے بلکہ اس کو کسی بھی معاشرے نمایاں مقام دلانے والی ہیں۔
1۔ سچائی (Truthfulness): سچائی انسان کی شخصیت کی بنیاد ہے۔ یہ انسان کو سچ بولنے اور اپنی باتوں میں سچائی کو برقرار رکھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ سچائی کا مطلب صرف سچ بولنا نہیں ہے ۔ اس سے مراد سچائی کا ساتھ دینا اور سچائی کو اپنانا اور اس کو اپنی زندگی کا منشور بنا لینا بھی ہے۔ سچائی انسان کو دوسروں کے ساتھ اعتماد قائم کرنے میں مدد کرتی ہے اور اسے ایک اچھا دوست، ساتھی، اور شہری بناتی ہے۔ سچائی کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے، ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ سچائی کے بغیر، انسان کی شخصیت کمزور ہو جاتی ہے اور وہ دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم نہیں کر سکتا۔ قرآن مجید سچ بولنے اور سچوں کے ساتھ جڑے رہنے کا درس دیتا ہے۔ سچائی انسان کی شخصیت کو اعتبار بخشتی ہے۔ اس کی ساکھ بہتر بناتی ہے ۔ اس کی شخصیت کو چار چاند لگاتی ہے۔ انسان کے وقار میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے۔ سچائی کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سچائی کے بغیر، ہماری زندگی میں کوئی بھی چیز ممکن نہیں ہے۔ سچائی کے بغیر، ہم اپنے آپ کو، دوسروں کو، اور دنیا کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔ سچائی ہمیں اپنے آپ کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہے۔ سچائی ہمیں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے۔ سچائی ہمیں اپنے آپ کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ سچ کی اہمیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ جناب ختمی مرتبتؐ نے اسے کسی بھی مومن کا بنیادی وصف قرار دیا ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ مومن میں ہر خرابی ہو سکتی ہے سوائے جھوٹ کے۔ گویا سچائی ایک صاحب ایمان کا جوہر ہوتی ہے۔
2۔ ایمان داری (Honesty): ایمان داری انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ یہ انسان کو سچائی اور راست بازی کی راہ پر چلنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ایمان داری انسان کو دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے میں مدد کرتی ہے اور اسے ایک اچھا انسان بناتی ہے۔ ایمان داری کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے، ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ایمان داری کے بغیر، انسان کی شخصیت کمزور ہو جاتی ہے۔ ایمان ایک ایسا موضوع ہے جو ہر انسان کی زندگی میں بے پناہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ایمان کا مطلب ہے کہ ہم کسی چیز پر یقین رکھتے ہیں، کسی چیز کو سچ مانتے ہیں، اور کسی چیز کے لیے وقف ہوتے ہیں۔
ایمان ہمیں اپنے آپ کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے۔
ایمان ہمیں دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے میں مدد کرتا ہے۔
ایمان ہمیں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔
ایمان ہمیں اپنے آپ کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
’’ ایمان وہ چیز ہے جو ہمیں زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کی طاقت دیتی ہے‘‘۔ ( امام علیؓ)۔
3۔ خوش اخلاقی ( courteousness): اَخلاق خُلق کی جمع ہے ۔ خُلق ( خ پر پیش) کا معنی ہے انسان کی وہ جبلی( ذاتی) اور طَبَعی ( فطری) صفات جن کا ادراک بصیرت ( دِل کی بینائی) سے کیا جاتا ہے ۔ ’’ خوش اخلاقی کی اہمیت اس سے بڑھ کر اور کیا بیان ہو کہ عرب کے بدو جناب رسالت مآبؐ کے اخلاق کی برکت سے شائستگی کے امام بن گئے ‘‘۔’’ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ‘‘۔ ایک حدیث کی رو سے ’’ مومنین میں کامل ترین ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے ‘‘۔ مولا علیؓ فرماتے ہیں’’ سب سے بڑا جوہر ذاتی حسنِ اخلاق ہے ‘‘ اور’’ لوگوں سے ان کے اخلاق و اطوار میں ہم رنگ ہونا ان کے شر سے محفوظ ہو جانا ہے‘‘۔
4۔ شجاعت (Courage): شجاعت انسان کو مشکلات کا سامنا کرنے اور اپنی زندگی کے مقاصد کو حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک شخص جو شجاع ہے، وہ دوسروں کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے اور اپنی بات منوا سکتا ہے۔ دوسری طرف، ایک شخص جو شجاع نہیں ہے، وہ دوسروں کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا اور اپنی بات منوا نہیں سکتا ۔ شجاعت بہادری سے بلند ترین چیز ہے۔ ایک بہادر شائد اپنے مفتوح کو معاف نہ کر سکتا ہو مگر ایک شجاع کسی کی جھکی ہوئی گردن دیکھ لیتا ہے تو اپنی تلوار میان میں ڈال لیتا ہے۔ اسے اپنی بہادری منوانے کے لیے کسی کا سر نہیں اڑانا پڑتا ۔ وہ جذبات سے مغلوب نہیں ہوتا بلکہ غالب آ کر خود کو آزاد ثابت کرتا ہے ۔ وہ انا کا قیدی نہیں ہوتا۔
5 ۔ ہمدردی (Empathy)ہمدردی انسان کو دوسروں کی تکلیفوں کو سمجھنے اور ان کی مدد کرنے کی ترغیب دیتی ہے اور اسے ایک اچھا انسان بناتی ہے۔ رحم دلی ایک مقصد جذبہ ہے جو اللہ نے کسی کسی کو دان کیا ہے۔ یہ احساس کا رشتہ ہے جس کے سبب انسان اپنے جیسے دوسرے انسان کو دکھ محسوس کرتا ہے۔ اس کے دل میں سارے جہاں کا درد نہ بھی تو کم از کم ان کے لیے اس کا دل بڑا گداز ہوتا ہے جو اس کے قریب کے لوگ ہیں ۔ اس کے ساتھ رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں۔
کسی نے سچ کہا ہے
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
اور اقبالؒ تو کہتے ہیں، میں اس کا غلام بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر
6۔ سخاوت (Generosity): سخاوت انسان کا زیور ہے۔ یہ ایک سرتاج خوبی ہے۔ شاید اس کے بغیر انسان کی شخصیت ادھوری رہ جاتی ہے ۔ سخاوت عربی لفظ’’ سخا ‘‘ سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں کھلے دل سے خرچ کرنا۔ اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ سہولت اور آسانی کے ساتھ خرچ کیا جائے، جب خرچ کرنے میں تنگی محسوس نہ ہو، کسی قسم کے تردد کا اظہار نہ کیا جائے اور کسی پریشانی اور پشیمانی کا خرچ کرنے کے دوران سامنا نہ ہو۔ اس جذبے اور طبیعت کے ساتھ خرچ کرنا سخاوت کہلاتا ہے۔ یہ کھلے دل سے خرچ کرنا تمام نعمتوں کے لیے ہے جس میں دولت، علم، وقت اور صحت شامل ہیں۔ مال کی سخاوت کو ہی زیادہ تر توجہ دی جاتی ہے جبکہ علم، کام اور صحت و صلاحیتیں خرچ کرنے کو لوگ سخاوت نہیں سمجھتے جو کہ غلط نظریہ ہے۔ سخاوت بخل اور تنگی کی ضد ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ’’ وہ لوگ جو اپنے مال اللہ کی راہ خرچ کرتے ہیں پھر اپنے خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں اور نہ تکلیف دیتے ہیں ان کا انعام ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے ‘‘۔ قرآن پاک میں 80سے زائد مقامات پر خرچ کرنے کا حکم آیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور احسان کرو بیشک اللہ تعالیٰ محسنین سے محبت کرتا ہے‘‘۔ نیز ’’ تم ہر گز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو اور جو کچھ تم خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے ‘‘۔ حدیث مبارکہ کی رو سے ’’ دو خصلتیں مومن میں جمع نہیں ہوں گی بخل اور بداخلاقی ‘‘۔ اور ’’ بخیل اللہ کا دشمن ہے چاہے وہ زاہد ہی کیوں نہ ہو ‘‘۔حکیم اسلام فرماتے ہیں ’’ سخاوت کرو، لیکن فضول خرچی نہ کرو، اور جز رسی کرو مگر بخل نہیں ‘‘۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی ؒ فرماتے ہیں ’’ جس میں یہ باتیں جمع ہوں بیشک اس کو خدا دوست رکھتا ہے:
(1)۔ سخاوت مثل دریا
( 2 )۔ شفقت مثل آفتاب
(3 )۔ تواضع مثل زمین
سخاوت کی اہمیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ خدا نے اسے اپنا دوست قرار دیا ہے۔
7۔ فروتنی (humility ): کہتے ہیں جب جناب ختمی مرتبتؐ سے معراج کی رات خالق اکبر نے پوچھا کہ میرے لیے کیا تحفہ لائے ہو تو آپؐ نے فرمایا’’ عاجزی ‘‘۔ اللہ تعالیٰ کو غرور اور اکڑ ہرگز پسند نہیں۔ ویسے بھی ایک عاجز انسان کو عاجزی ہی زیب دیتی ہے نہ کہ غرور یا اکڑ۔ فروتنی ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے عاجز اور متواضع بناتی ہے۔ فروتنی کا مطلب ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں کے برابر سمجھے اور ان کی عزت کرے ۔
’’ اور تم لوگوں کے ساتھ فروتنی سے پیش آئو، اور ان کی عزت کرو‘‘۔
’’ آخرت کا یہ بھلا گھر ہم ان ہی کے لئے مقرر کر دیتے ہیں جو زمین میں اونچائی، بڑائی اور فخر نہیں کرتے، نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں۔ پرہیز گاروں کے لئے نہایت ہی عمدہ انجام ہے ‘‘۔
حدیث میں آتا ہے ’’ فروتنی ایمان کا ایک حصہ ہے‘‘۔ ’’ غرور سے بچنے کا بہترین طریقہ تواضع اختیار کرنا ہے‘‘۔
خاک کے پتلے کو خاکساری ہی زیبا ہے۔
مولا علیؓ کو ابو تراب کہا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے۔ حالاں کہ مخالفین آپؓ پر استہزاء کے لیے ابو تراب کہا کرتے تھے مگر چونکہ ان کو جناب رسالت مآبؐ نے اس نام سے پکارا تھا تو آپؓ کو پسند تھا کہ آپؓ کا تعارف اسی نام سے ہو There is no humanity without humility
8۔ صبر و شکر ( patience and gratitude): صبر اور شکر دو ایسی صفات ہیں جو ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان کا الگ سے دیکھنے کی بجائے ملا کر دیکھنا چاہیے کہ یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ ایمان کے دو بازو ہیں ۔ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیںصبر کے لیے یہی کہنا کافی ہو گا کہ ایمان میں اس کی حیثیت اتنی ہے جتنی انسانی جسم میں سر کی اہمیت ۔ اور شکر کا کم از کم فائدہ یہ ہے کہ بندہ بندہ بنا رہتا ہے ۔ شکر کے بغیر بندے کو بندہ کہنا کوئی آسان کام نہیں۔
صبر انسان کو زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے میں مدد کرتا ہے، جب کہ شکر انسان کو زندگی کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں مدد کرتا ہے۔
یہ دونوں صفات ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ صبر انسان کو زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے میں مدد کرتا ہے، اور جب وہ ان مشکلات پر قابو پا لیتا ہے، تو وہ شکر ادا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان مشکلات سے بچایا ہے۔اسی طرح، شکر انسان کو زندگی کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں مدد کرتا ہے، اور جب وہ ان نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے ، تو وہ صبر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ان نعمتوں کو برقرار رکھنے کی توفیق دے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، اور جو لوگ شکر کرتے ہیں، اللہ ان کو ان کے شکر کا بدلہ دیتا ہے‘‘۔
حدیث نبویؐ کی رو سے ’’ صبر ایمان کا ایک حصہ ہے، اور شکر ایمان کا ایک حصہ ہے ‘‘۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان خوبیوں سے متصف کر دے، آمین یا رب العالمین۔





