Columnمحمد مبشر انوار

سینڈوچ!!!

سینڈوچ!!!
محمد مبشر انوار
عالمی حالات جتنی تیزی سے بدل رہے ہیں،اسی تناسب سے علاقائی حالات بھی تبدیل ہوتے جارہے ہیں ،گو کہ پاکستان نے مئی میں جس طرح اپنی عسکری صلاحیت و برتری کا مظاہرہ کیاہے،اس نے عالمی سطح پر پاکستان کا وقار بہت بلند کر دیا ہے اور دنیا نہ صرف پاکستان کی عسکری صلاحیت کی معترف ہوچکی ہے بلکہ اس کے ذمہ دارانہ رویہ کی بھی معترف ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ ہر موقع،جو ٹرمپ کی موجودگی کے باعث،اہم موقع ہی تصور ہوتا ہے، پاک بھارت جنگ رکوانے کا کریڈٹ لیتے ہی دکھائی نہیں دیتے بلکہ اس حقیقت کو دہرانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ بھارت نے اس جنگ میں اپنے سات طیارے پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں تباہ کروائے ہیںتا کہ بھارت اپنے منتقمانہ جذبوں کو قابو میں رکھ سکے ۔ تاہم صدر ٹرمپ کی اس کوشش کے نتائج برعکس دکھائی دیتے ہیں کہ بھارتی حکمران بہرطور ایسی کوششوں اور تیاریوں میں دکھائی دیتے ہیں کہ وہ نہ صرف پاکستان سے اس ہزیمت کا بدلہ لینا چاہتے ہیں بلکہ اس شکست کے باوجود اپنے ’’ اکھنڈ بھارت‘‘ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے بیتاب دکھائی دیتے ہیں۔ کسی بھی دشمن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل میں اپنی سی کوششیں جاری رکھے لیکن یہ قطعا ضروری نہیں کہ اس کی کوششوں،اس کی خواہشات کے مطابق بروئے کار آئیں،خواہ وہ اپنے عسکری بجٹ کو جتنا بھی بڑھا لے، جدید اسلحے کا انبار لگا لے لیکن جنگیں جذبے سے ہی جیتی جاتی ہیں،جس کا مظاہرہ بارہا مسلمانوں کی جانب سے تاریخ میں ہو چکا ہے۔بہرحال شنید ہے کہ اس مرتبہ بھارت جارحیت کے ارتکاب کے لئے سمندری راستے کا انتخاب کر رہا ہے کہ بری و فضائی فوج کا مقابلہ بھارتی سینا نہیں کر پائی بلکہ خاطر خواہ عزت افزائی کروا چکی ہے،لہذا بھارتی حکمرانوں کی یہ خواہش اور امید ہے کہ پاکستان کی سمندری طاقت کا اندازہ بھی لگا ہی لیا جائے البتہ دوسری طرف صدر ٹرمپ نے خصوصی طور پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو فون پر پاکستان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی ہدایت/حکم جاری تو کیا ہے لیکن شواہد یہی بتا رہے ہیں کہ مودی نہ صرف اپنا بلکہ اپنی ’’ سینا‘‘ اور عوام کا مورال بلند کرنے کے لئے جارحیت کا ارتکاب کرنے سے نہیں ٹلیں گے۔ علاوہ ازیں! جو خبط مودی کے دماغ پر سوار ہے، اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مودی ایک ایسے ملک کے ساتھ پینگیں بڑھانے کو بیتاب نظر آ رہے ہیں کہ جس کو عالمی برادری آج بھی ناقابل اعتبار سمجھتی ہے اور اس ملک کو تسلیم کرنے سے ہنوز گریزاں ہے۔ دو طرفہ محاذ سے پاکستان کو لپیٹنے کی خواہش 2001ء کے بعد سے امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا تک نیٹو کی رہی تھی، جس کو قابل عمل سمجھتے ہوئے، بھارت افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسیع کر رہا ہے لیکن کیا بھارت اپنے مقاصد میں کامیاب ہو پائے گا؟ اگر نیٹو افغانستان کے راستے پاکستان پر جارحیت کرنے میں کامیاب نہیں ہوپایا گو کہ تب بھی مشرقی سرحد سے بھارت ہی کو بروئے کار آنا تھا تو کیا اب طالبان حکومت اس منصوبہ پر کامیابی سے عمل درآمد کروا پائے گی، بالخصوص جب گزشتہ دنوں پاکستان، افغان سرزمین پر پلنے والے فتنوں کا سر دبانے میں کامیاب رہا ہے؟ جو بہرطور بھارت کے لئے بھی قبل ازوقت ایک موثر پیغام تھا اگر بھارت سمجھ سکے، کہ افغانستان کی طرف سے کسی بھی قسم کی شرارت کا جواب پاکستان کس طرح دے گایا دینے کی اہلیت و قابلیت رکھتا ہے۔ اس حساس ترین موضوع پر ستمبر 2011میں ’’ پاکستان یا سینڈوچ!!!‘‘ میں نیٹو اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے حوالے سے لکھا تھا، جو قارئین کی نذر کر رہا ہوں ’’9؍11کے بعد عالمی سطح پر بہت سی اہم تبدیلیاں رو نما ہوئی اور امریکہ واحد سپر پاور کی حیثیت سے عالمی برادری میں ابھر کر سامنے آیا، اپنی اس حیثیت میں امریکی اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے بروئے کار لانے لگے۔ اس ضمن میں ان کی بری نظریں اسلامی دنیا کی طرف اٹھیں اور انہوں نے تہذیب کے نام پر اپنے لئے ایک بڑا دشمن تخلیق کر لیا یا پہلے سے موجود دشمن کے خلاف کھلے بندوں بر سر پیکار ہو گئے۔ مفادات کے اس دور میں جہاں امریکہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہر طرح کی جارحیت پر اترا وہیں مسلم ممالک کی جانب سے انفرادی طور پر ہر ملک اپنے مفادات کے تحفظ کا لائحہ عمل طے کرتا نظر آیا یہ الگ بات کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی حکمت عملی قومی کی بجائے ذاتی مفادات کے تحفظ پر زیادہ مرکوز نظر آئی اور بیشتر حکمران اپنی حکومت بچانے میں کمر بستہ نظر آئے بالخصوص وہ ممالک جہاں آمریت اقتدار میں تھی، وہاں کے حکمران ضرورت سے زیادہ اور امریکی توقعات سے کہیں آگے بڑھ کر امریکہ کے سامنے سر بسجود نظر آئے۔ ایسی ہی صورتحال اس وقت پاکستان کی تھی، جہاں ایک آمر اپنی پوری رعونت کے ساتھ مسند اقتدار پر جلوہ افروز تھا اور اس سانحے کے فوری بعد فقط اپنے اقتدار کو دوام دینے کی خاطر ایک امریکی فون کے سامنے ڈھیر ہو گیا اور کئی ایسی شرائط بھی تسلیم کر لی جن کے متعلق امریکیوں کا یہ پختہ خیال تھا کہ انہیں تسلیم نہیں کیا جائے گا مگر افسوس صد افسوس کہ ایک طرف قومی مفادات مد نظر تھے تو دوسری طرف فقط اپنا اقتدار عزیز تھا۔
اس سانحے کی آڑ میں امریکہ نے ایک طرف عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی تو دوسری طرف افغانستان میں موجود القاعدہ کے خلاف براہ راست نیٹو افواج کی کارروائی شروع کر دی۔ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے وجہ سے امریکہ کیلئے نا گزیر ہو گیا اور پاکستان کے ساتھ نئے رومانٹک دور کا آغاز ہوا اور اس مرتبہ امریکی عہدیداروں نے ماضی کے بر عکس پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو پرخلوص رکھنے کا وعدہ کیا لیکن یہ وعدہ اسی صورت میں وفا ہوتا اگر پاکستان امریکی مفادات کا بھرپور خیال رکھتا لیکن افسوس ایک مرتبہ پھر پاکستانی حکمرانوں نے ذاتی مفادات کے سامنے قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر اعتماد کی فضا کو سخت مجروح کیا۔ ایک طرف تو امریکہ سے ڈالر بٹورے جاتے رہے تو دوسری طرف دہشت گردوں کی بجائے عام افراد کو بھی امریکہ کے حوالے کیا جاتا رہا۔ اس طرح کی دوغلی پالیسی نے امریکہ کو وقت سے پہلے ہی سیخ پا کر دیا اور امریکی جو اب بھی اپنے مفادات کے حصول کی خاطر پاکستان سے تعلقات بنائے ہوئے تھے، پاکستان کے خلاف ہو گئے۔ یہاں یہ امر واضح رہنا چاہئے کہ امریکہ اس مرتبہ بھی اپنے مفادات کے حصول کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ جاتا، جیسے اس نے ہمیشہ کیا ، جس کی حالیہ مثال افغانستان سے روسی افواج کے انخلا کے بعد کی صورتحال رہی اور کل کے مجاہدین کے ہاتھوں مہلک اسلحے کے ہوتے ہوئے یہی مجاہدین آج کے دہشت گرد قرار پائے۔ انہی میں سے ایک گروہ جلال الدین حقانی کا ہے، جس کے متعلق امریکی تواتر سے یہ کہہ رہے ہیں بلکہ الزام لگا رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کے اہم ادارے حقانی گروپ کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی دور ہو تی جا رہی ہے جو درحقیقت امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کا ایک جواز ہو سکتا ہے تو دوسری طرف ان امریکی عزائم کی تکمیل کی طرف قدم ہو گا، جو امریکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف رکھتا ہے۔9؍11کے سانحے کے بعد اب تک امریکہ نے جتنی بھی کارروائی کی ہے وہ صرف اسلامی ممالک کے خلاف ہے اور یکے بعد دیگرے وہ مسلم ممالک کو اکیلے اکیلے کچل رہا ہے۔
اس نازک وقت میں مختلف نقطہ نظر موضوع بحث ہیں کہ آیا امریکہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے خلاف محدود جارحیت کر سکتا ہے یا وہ ان الزامات کی بنیاد پر صرف پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ کیا پس پردہ محرکات ہیں، کیا مفادات ہیں جن کی خاطر اتنی سخت زبان استعمال ہو رہی ہے کیونکہ ایسے حالات میں بالعموم جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں۔ اگر امریکی داخلی صورتحال کو دیکھیں تو ممکن ہے کہ یہ سب آئندہ سال ہونے والے انتخابات کی تیاری ہو ، تاکہ امریکی افواج کو واپس بلا کر عوام میں پذیرائی حاصل کی جائے اور اگر امریکہ کے پاکستانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے تحفظات کو نظر میں رکھیں تو اس امر کا بھر پور احتمال ہے کہ امریکہ کسی نہ کسی بہانے سے پاکستان کے خلاف کوئی بھی انتہائی قدم اٹھالے کیونکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام کسی بھی صورت غیر مسلم ( بظاہر دوستوں یا دشمنوں ) کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ ویسے تو واحد سپر پاور ہونے کے ناطے امریکہ کو کسی جواز کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کے کسی بھی عمل کا جواز مانگنے کی ہمت کسی مسلم ملک میں ہے لیکن ممکن ہے کہ محدود جارحیت کو جواز حقانی گروپ کی کارروائیوں کو قرار دے دیا جائے اور یہ وہی حقانی گروپ ہے جس کو ایک زمانے میں بھرپور امریکی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔
اگر امریکی دوسرے نقطہ نظر پر عمل پیرا ہیں تو پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ شمال مغربی سرحد پر اگر نیٹو افواج ہوں گی تو مشرقی سرحد پر بھارت کسی صورت میں خاموش نہیں رہے گا اور اس صورت کو نعمت غیر متبرکہ خیال کرتے ہوئے ، اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ ان حالات میں خطے میں طاقت کا توازن کیا صورتحال اختیار کرے گا اور کیا یہ صورتحال چین کے لئے قابل قبول ہو گا؟ گو کہ چین نے ہر طرح کے حالات میں پاکستان کا ساتھ دینے کا اعادہ کیا ہے لیکن کیا ایک طرف نیٹو افواج کی جارحیت اور دوسری طرف بھارتی جارحیت کے سامنے کیا چین 65ء کی طرح بھارت سے کوئی چھیڑ چھاڑ شروع کر پائے گا؟ آج کی صورتحال میں چین عالمی اداروں میں تو پاکستان کی حمایت کرے گا، پاکستان کے خلاف کسی بھی اقدام کی مخالفت کرے گا لیکن اگر اقدام ہو گیا تب چین کا کیا کردار ہو گا؟ کیا وہ ہماری غلطیوں کا خمیازہ بھگتے گا؟ یقینی طور پر نہیں اور ایسی حالت میں پاکستان کی حالت ایک ایسے سینڈوچ کی ہو گی، جس کو شمال مغربی سرحد کی طرف سے نیٹو افواج کا سامنا ہو گا تو مشرقی سرحد پر بھارتی جارحیت ہو گی۔ بہتر تو یہ ہے کہ موجودہ صورتحال کو کسی بھی طرح ٹھنڈا کیا جائے اور مستقبل میں ایسی پالیسی اپنائی جائے کہ پاکستان اس قسم کی مشکل صورتحال کا شکار نہ ہو‘‘۔

جواب دیں

Back to top button