یومِ استحصالِ کشمیر ، عالمی ضمیر کے لئے ایک سوال

ظلم کے سائے میں زندگی
یومِ استحصالِ کشمیر ، عالمی ضمیر کے لئے ایک سوال
تحریر: امبر جبین
( محکمہ تعلقاتِ عامہ، پنجاب)
27 اکتوبر تاریخِ کشمیر کا وہ سیاہ دن ہے جو آج بھی برصغیر کی تقسیم کے نامکمل ایجنڈے اور عالمی انصاف کی ناکامی کی یاد دلاتا ہے۔ 1947ء کے اسی دن بھارتی افواج نے ریاست جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ انسانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ تب سے آج تک کشمیر ایک زندہ مگر لہو میں بھیگا ہوا مسئلہ ہے، جو دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے باوجود انصاف سے محروم ہے۔
یہ دن، جسے پاکستان اور دنیا بھر کے کشمیری یومِ سیاہ یا یومِ استحصال کے طور پر مناتے ہیں، محض ایک تاریخی واقعے کی یاد نہیں بلکہ ظلم، ناانصافی اور تسلط کے خلاف ایک مسلسل احتجاج ہے۔ اس دن کی سیاہی کشمیریوں کے دلوں کے زخموں سے بھی زیادہ گہری ہے، زخم جو سات دہائیوں سے وقت کے ساتھ اور گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
تقسیمِ ہند کے وقت برطانوی راج کی 562ریاستوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جغرافیائی، مذہبی اور عوامی وابستگی کی بنیاد پر پاکستان یا بھارت میں شمولیت اختیار کریں۔ ریاست جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی خطہ تھا جہاں 77فیصد آبادی مسلمان تھی، لہٰذا قدرتی طور پر اس کا جھکائو پاکستان کی جانب تھا۔ لیکن بھارت نے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ مل کر 27اکتوبر 1947ء کو اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کیں۔
یہ اقدام اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی تھا۔ کشمیر کا تنازعہ اسی وقت سے عالمی توجہ کا مرکز بن گیا، اور 1948ء میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے واضح طور پر یہ قرار داد منظور کی کہ ’’ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ استصوابِ رائے کے ذریعے کرنا ہوگا‘‘۔ لیکن بھارت نے آج تک اس قرارداد کو پامال کیا اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے جعلی انتخابات اور آئینی ترمیمات کا سہارا لیا۔
پاکستان نے ابتدا ہی سے یہ موقف اختیار کیا کہ کشمیر ایک نامکمل تقسیم کا تسلسل ہے، اور جب تک کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت نہیں ملتا، برصغیر میں پائیدار امن ممکن نہیں۔ پاکستان نے اس مسئلے پر کبھی جارحیت نہیں بلکہ ہمیشہ سفارتی، سیاسی اور اخلاقی جدوجہد کو ترجیح دی۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘۔ اسی بنیاد پر پاکستان نے ہر عالمی فورم پر اس مسئلے کو اجاگر کیا۔ پاکستان کی اقوامِ متحدہ میں سفیر سر ظفراللہ خان سے لے کر آج کے نمائندگان تک، سب نے کشمیر کے مقدمے کو بین الاقوامی برادری کے سامنے دلیل، حقائق اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پیش کیا۔
پاکستان مسلم لیگ ( ن) ہمیشہ سے کشمیریوں کی آواز اور ترجمان رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنے تینوں ادوارِ حکومت میں کشمیر کو خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ رکھا۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی دفاعی قوت دراصل کشمیر کی آزادی کی ضمانت ہے۔
میاں شہباز شریف نے بطور وزیراعظم ہر بین الاقوامی فورم پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا۔ اقوامِ متحدہ، او آئی سی، اور یورپی یونین کے اجلاسوں میں ان کے مقف نے عالمی میڈیا کی توجہ اس مسئلے کی سنگینی کی طرف مبذول کرائی۔ شہباز شریف نے حال ہی میں اپنے بیان میں کہا: ’’ پاکستان کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے، اور ان کا مقدمہ ہر فورم پر لڑتا رہے گا۔ یہ جنگ زمین کی نہیں، اصول کی ہے‘‘۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے بھی اپنے متعدد خطابات میں کشمیر کے مسئلے کو انسانی حقوق کے تناظر میں اٹھایا۔ انہوں نے نوجوانوں، طلبہ، اور میڈیا کو اس مقصد کے لیے فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ کشمیر صرف ایک جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ انسانیت کا امتحان ہے۔ دنیا کے ضمیر کو بیدار کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے‘‘۔ مریم نواز شریف کی حکومت نے یومِ استحصالِ کشمیر کے موقع پر پنجاب بھر میں تقاریب، تصویری نمائشیں اور آگاہی مہمات کا اہتمام کیا تاکہ نئی نسل کو اس تاریخی سچائی سے روشناس کرایا جا سکے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔5اگست 2019ء کو بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور35A ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔ یہ اقدام نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں بلکہ خود بھارت کے اپنے آئین کی روح کے خلاف تھا۔ اس کے بعد کشمیر ایک کھلی جیل میں تبدیل ہو گیا۔ مواصلات بند، میڈیا پر پابندی، سیاسی قیادت گرفتار، اور لاکھوں فوجیوں کی موجودگی نے وادی کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا۔
پاکستان نے اس غیرقانونی اقدام کو سفارتی محاذ پر بھرپور انداز میں اٹھایا۔ مسلم لیگ ( ن) کی قیادت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ قرارداد پیش کی، اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو خط لکھا، اور عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی حقوق کے اس المیے پر خاموش تماشائی نہ بنیں۔
اگرچہ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے متعدد رپورٹس میں کشمیر میں بھارتی مظالم کی نشاندہی کی، مگر عالمی سیاست کے مفادات نے انصاف کی آواز کو دبائے رکھا۔
دنیا کی بڑی طاقتیں معاشی اور تجارتی مفادات کے باعث بھارت کے سامنے خاموش ہیں۔ مگر یہ خاموشی انسانیت کے چہرے پر ایک دھبہ ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ، امریکی کانگریس، اور یورپی یونین کے کئی ارکان نے اس مسئلے پر آواز بلند کی ہے، لیکن اس جدوجہد کو تقویت دینے کی ضرورت ہے۔
کشمیر میں آج بھی معمولاتِ زندگی مفلوج ہیں۔ حریت قیادت قید و بند میں ہے، نوجوانوں کو جعلی مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے، خواتین کی عزتوں کو پامال کیا جا رہا ہے، اور میڈیا کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ ہزاروں کشمیری بچے یتیم، اور سینکڑوں خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود کشمیریوں کے دلوں میں آزادی کی شمع روشن ہے۔ ان کے ہاتھوں میں آج بھی پاکستان کا پرچم لہراتا ہے اور ان کی لبوں پر ’’ کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ زندہ ہے۔
پاکستانی قوم کا اتحاد اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کی روایت آج بھی مضبوط ہے۔ حکومتِ پنجاب، وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی قیادت میں، اس دن کو بھرپور انداز میں مناتی ہے تاکہ نوجوان نسل کو بتایا جا سکے کہ کشمیر محض ایک علاقہ نہیں بلکہ پاکستان کے وجود اور تشخص کا حصہ ہے۔
مسلم لیگ ( ن) کی حکومتوں نے ہمیشہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں۔ چاہے نواز شریف کے دور میں بھارت کے ساتھ مذاکرات ہوں یا شہباز شریف کے عالمی فورمز پر بیانات، ن لیگ نے کشمیر کو کبھی پسِ پشت نہیں ڈالا۔
یومِ استحصالِ کشمیر صرف ماضی کی یاد نہیں بلکہ عالمی ضمیر کے لیے ایک کھلا سوال ہے۔ کشمیر کے زخم وقت کے ساتھ گہرے ہو رہے ہیں، مگر ان کے لہو سے آزادی کی صبح ضرور طلوع ہوگی۔
دنیا کے تمام انصاف پسندوں سے اپیل ہے کہ وہ بھارت کے ظلم پر خاموش نہ رہیں۔ ظلم پر خاموشی، ظلم کی حمایت ہے۔ کشمیر کی آزادی دراصل انسانیت کی آزادی ہے ، اور جب تک وادی کشمیر میں انصاف کا سورج نہیں طلوع ہوتا، دنیا کی روشنیاں ادھوری رہیں گی۔
کشمیر کی آزادی ہمارا ایمان ہے، اور یہ ایمان ایک دن فتح پائے گا۔







