Column

دھرنوں اور احتجاج کے باعث پیدا شدہ حالات

دھرنوں اور احتجاج کے باعث پیدا شدہ حالات
تحریر : خالد غور غشتی
دنیا مُبتلائے حیرت ہے کہ ہمارے ملک میں پچھلی دو دہائیوں سے کیا ڈرامائی مناظر چل رہے ہیں۔ ہر نیا واقعہ پچھلے سے زیادہ حیرت انگیز اور خوف ناک نظر آتا ہے۔ ہر دو چار ماہ بعد کوئی نہ کوئی مسلح گروہ یا جتھا اُٹھ کھڑا ہوتا ہے، درجنوں بلکہ بسا اوقات سیکڑوں لاشوں کو گراتا ہے۔ اپنی مخصوص تحریک، تنظیم اور نعرے کے ساتھ عوام کے ہجوم میں بھگدڑ مچاتا ہے اور اپنے مزموم مقاصد کی تکمیل کر کے غائب ہو جاتا ہے۔
پہلے سے ہی معاشی بدحالی کا شکار عوام کو یہ عناصر مزید قرضوں، بے روزگاری اور کرایوں کے بوجھ تلے دھنسا دیتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں بھی ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا، جب ایک مسلح گروہ نے ملک بھر میں شاہراہیں، چوک اور سڑکیں بند کر دیں۔ ریاستی مشینری جب حرکت میں آئی تو حالات گھمبیر ہو کر کشیدہ صورت اختیار کر گئے اور پورا ملک مفلوج ہو کر گیا۔یہ دھرنے تاحال مختلف مقامات پر جاری ہیں، جن کے نتیجے میں ٹریفک جام ہونے سے مسافر، مریض اور عام شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ بیرونِ ملک سفر کرنے والے افراد کو بھی دشواریوں کا سامنا ہے۔
ان دھرنوں سے پیدا ہونے والے چند بڑے مسائل یہ ہیں
ٹریفک کی بندش اور مہنگائی: ٹریفک کی مسلسل بندش سے جہاں روزمرہ زندگی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، وہیں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی رکاوٹ کے باعث سامان کی ترسیل میں تاخیر ہوتی ہے؛ جس کا براہِ راست اثر عام آدمی کی جیب پر پڑتا ہے۔
سیاحت کا شعبہ متاثر: کسی بھی ملک کی ترقی میں سیاحت کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک اپنی معیشت کا انحصار اسی شعبے پر کرتے ہیں۔ مگر جب ملک میں مسلسل دھرنوں اور احتجاجوں کی فضا قائم رہتی ہے تو غیر یقینی حالات غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ ساتھ ملکی سیاحوں کو بھی سفر سے روک دیتے ہیں، نتیجتاً سرمایہ کاروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اگر ان احتجاجات کو یورپی ممالک کی طرز پر صرف پارکوں یا گرائونڈز تک محدود کر دیا جائے تو افراتفری اور شہری بدامنی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف شہریوں کے روزمرہ معمولات متاثر نہیں ہوں گے بلکہ ریاستی ادارے بھی اپنی ذمہ داریاں بہتر طور پر نبھا سکیں ۔
کل جماعتی کانفرنس کا باقاعدگی سے انعقاد: مہنگائی اور افراتفری کے خاتمے کے لیے کل جماعتی کانفرنس کا باقاعدگی سے انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس میں سیاسی، سماجی، فلاحی اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو بلایا جائے، تاکہ سب کی آواز سنی جا سکے اور ایک مشترکہ قومی لائحہ عمل تیار کیا جائے؛ جو عوام کے بنیادی مسائل مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم اور صحت کے حل کی ضامن بن سکے۔
اداروں اور انسانوں کا تحفظ: جیسے قانونی و اخلاقی طور پر اداروں کا احترام فرض ہے، ویسے ہی انسانیت کی حفاظت بھی فرض ہے۔ قرآنِ کریم نے فرمایا: ’’ جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا، گویا اُس نے پوری انسانیت کو قتل کیا‘‘۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کب تک ہم روٹی، کپڑا اور مکان کے حصول کے لیے لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟ کب تک خودکشیوں کا بوجھ برداشت کرتے رہیں گے؟
اس سارے منظر نامے میں میڈیا اور قیادت کا کردار انتہائی اہم ہے۔ میڈیا اگر سنسنی کے بجائے شعور بانٹے اور قیادت اگر انتشار کے بجائے اتحاد کا پیغام دے تو حالات یکسر بدل سکتے ہیں۔ نوجوان نسل کو نفرت کے بیانیے سے نکال کر مثبت سوچ اور تعمیری مکالمے کی طرف لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
قومیں جنگوں، دھرنوں یا احتجاجوں سے نہیں؛ اتفاق اور محنت سے بنتی ہیں۔ ہمیں اپنی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ اپنے ملک کے حق میں صرف کرنی چاہئیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اختلافِ رائے کو دشمنی کے بجائے فکری تنوع سمجھیں۔ اگر ہم نے برداشت اور مکالمے کی روایت اپنا لی؛ تو یہی بحران ہمارے لیے نئی امید کی شروعات بن سکتا ہے۔
دھرنے اور احتجاج اگر پرامن ہوں تو عوامی آواز بن سکتے ہیں، لیکن اگر ان کا انجام انتشار، لاشیں اور خوف ہو تو یہ آواز نہیں، شور بن جاتے ہیں۔ وقت ہے کہ ہم شور کے بجائے شعور پیدا کریں تاکہ آنے والی نسلیں ایک پُرامن، مضبوط اور باشعور پاکستان میں سانس لے سکیں۔

جواب دیں

Back to top button